میں نے ملک میں حقیقی جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی، چیف جسٹس
لاہور: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ انہوں نے ملک میں حقیقی جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے چیف جسٹس کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ منعقد کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جوڈیشل ایکٹوازم کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ دوسرے اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت کی جائے یا کسی کی بے عزتی کی جائے، یہ جارحیت نہیں۔
اس موقع پر اگلے چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان اور دیگر ججز بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ’بطور چیف جسٹس کیے گئے وعدوں پر کتنا عمل کیا، یہ قوم پر چھوڑتا ہوں‘
چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ عدلیہ اور دیگر اداروں کے آئینی دائرہ کار کو ملحوظ خاطر رکھا، ہسپتالوں کا دورہ کرنے کا مقصد صرف حکومتی وسائل کا درست استعمال یقینی بنانا تھا۔
ان کامزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے ان سے ارادی یا غیر ارادی طور پر غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کیا قانون کی حکمرانی کے لیے کیا اور کبھی کسی کی بے عزتی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کھلی کچہریوں کے بارے میں اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی ملاقات ایسے افراد سے بھی ہوئی، جن کے پاس ادویات خریدنے تک کے لیے پیسے نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: افتخار محمد چوہدری کو سمن جاری کرنا مناسب نہیں لگتا، چیف جسٹس
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگوں کو وقت پر عدالتوں سے انصاف نہیں مل پاتا، ان کا کہنا تھا کہ ’آج کل عدالتوں میں وکلا کی جانب سے اچھے دلائل کی کمی کو محسوس کیا جاتا ہے‘، اس کے ساتھ انہوں نے ضلعی عدالتوں کے ججز کو اپنا کام نہایت دلجمعی کے ساتھ کرنے کی بھی ہدایت کی۔
انہوں نے بتایا کہ قانونی پیشہ اختیار کرنے سے قبل وہ عدالتوں میں اپنے وقت کے اعلیٰ پائے کے وکلا اعجاز بٹالوی اور ایس ایم ظفر کے دلائل سنتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ان کی لاہور ہائیکورٹ سے 56 سال کی وابستگی ہے اور وہ اسکول کے دور میں اپنے والد کے ساتھ وہاں آیا کرتے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی پوری زندگی ایک اچھا جج بننے کی کوشش کی تاکہ زندگی میں اور موت کے بعد اس کا انعام پاؤں‘۔
یہ بھی پڑھیں: میرے جانے کے بعد ڈیم تحریک کو بند نہ ہونے دیا جائے، چیف جسٹس
انہوں نے وکلا پر زور دیا کہ چونکہ وہ عدالتی نظام کا اہم حصہ ہیں لہٰذا اپنا کام پوری جانفشانی سے کریں، اس کے ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دفعہ 22 اے (مقدمے کے اندراج کے خلاف) کے تحت دائر کی جانے والی پٹیشنز نے عدالتوں کو ہائی جیک کررکھا ہے کیوں کہ جج کی ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ مقدمے کے اندراج کو یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ 14 جنوری کو اسلام آباد میں کمیشن برائے قانون و انصاف کے تعاون سے پولیس اصلاحاتی پیکج متعارف کروایا جائے گا۔
انہوں نے فخر کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کو آگاہ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے 2 کے علاوہ ججز کے خلاف دائر تمام ریفرنسز نمٹا دیے ہیں، عدلیہ اپنا میعاری احتساب کررہی ہے اور وکلا کو بھی چاہیے کہ اپنے معاملات درست رکھیں۔
یہ خبر 12 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔