میرے اور چیئرمین سینیٹ کے درمیان اختلافات نہیں، سلیم مانڈوی والا
اسلام آباد: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ ان کے اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے درمیان اختلافات نہیں بلکہ کچھ معاملات میں دونوں کی آرا مختلف ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی اور ان کے والد کی جانب سے انہیں ایک نوٹس دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیس ایک سال پہلے فائل کیا گیا، جس کا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا تھا، تاہم اب کچھ روز قبل میرے گھر پر گرفتاری کے وارنٹ موصول ہوئے جبکہ ایئربلیو میں شیئرز سے متعلق ایک ٹوئٹ پر کیس بھی بنایا گیا۔
مزید پڑھیں: پاک-ایران گیس منصوبہ ملک کے مفاد میں ہے، سلیم مانڈوی والا
ڈپٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں اور عدالت کے بلانے پر پیش بھی ہوں گے لیکن حریفوں کی جانب سے عدالت کو جھوٹ بول کر گمراہ بھی کیا گیا۔
سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے خود کہا تھا کہ ایئربلیو کے پارٹنر کو سفیر بنایا جارہا ہے اور میں آج بھی کہتا ہوں کہ علی جہانگیر صدیقی ایئربلیو کے پارٹنر ہیں اور اسی وجہ سے انہیں سفیر لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بات غلط ثابت ہو تو میں معذرت کرنے کو تیار ہوں لیکن بات صحیح ہو تو پھر علی جہانگیر صدیق میں بھی جرات ہونی چاہیے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یہ بات کہیں کہ علی جہانگیر صدیقی ان کے پارٹنر نہیں ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ آج نیب اس معاملے پر ان کو کیوں نہیں بلاتا، اب تو واضح ہورہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو ڈرایا جارہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی رکن کھڑا ہو کر بات ہی نہ کرے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس قسم کے نوٹس سے ارکان پارلیمنٹ کو ڈرایا نہیں جاسکتا، ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ نوٹس پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اپنا ٹوئٹ واپس لینے کا کہا گیا، میں چیئرمین سینٹ سے کہتا ہوں کہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔
یہ بھی پڑھیں: صادق سنجرانی چیئرمین، سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب
ڈپٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ارکان سینیٹ کے خلاف اس قسم کا کیس رجسٹرڈ کرنے کی سب سے پہلے میں مخالفت کروں گا۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک لانے کی افواہوں کو رد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صادق سنجرانی کے خلاف کوئی تحریک نہیں لائی جارہی، میرے اور چیئرمین کے درمیان اختلافات نہیں ہیں بلکہ کچھ معاملات میں رائے مختلف ہے۔
تاہم انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے کوئی متفقہ فیصلہ کیا تو صادق سنجرانی جس آفس میں بیٹھے ہیں اس آفس کے خلاف تحریک لائی جاسکتی ہے۔