خان صاحب چین سے متاثر تو بہت ہیں لیکن سیکھتے کم ہیں
وزیرِاعظم عمران خان 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے چھٹکارہ دلانے والے چین سے کافی متاثر ہیں اور وہ یہی کارنامہ یہاں بھی سر انجام دینا چاہتے ہیں۔ پھر بات وہیں آجاتی ہے کہ، ایسا کون نہیں چاہے گا؟ ملک کے اندر اور باہر ان کی ہر تقریر میں اس ابھرتے سپرپاور کی تعریف شامل ہوتی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ انہیں اس بات کا زیادہ فہم نہیں کہ چین میں آخر ایسا ہوا کیسے؟
چین کا ابھار یقیناً اپنے اندر ایک زبردست کہانی رکھتا ہے، اور چین نے جس قدر غربت میں ریکارڈ کمی کی ہے اس کی مثال پوری تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ شاید دیگر ممالک کے لیے چینی خواب کو تکمیل کے قریب لانا ممکن نہ ہو، البتہ وہ اس ملک کی ’گریٹ لیپ فارورڈ‘ (بڑی چھلانگ) سے سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ دنیا کی کل آبادی کے 5ویں حصے پر مشتمل اس ملک میں یہ تبدیلی ممکن نہ ہوپاتی اگر 1949ء کا وہ کمیونسٹ انقلاب نہ آیا ہوتا، جس نے رجعت پسندانہ سماجی ڈھانچہ کو نیست و نابوت کردیا تھا، اس انقلاب کے بعد ہی دوسرے انقلاب کی راہ ہموار ہوئی جو چین کو غیر معمولی اقتصادی ترقی کی طرف لے گیا۔
1978ء میں چین میں ہونے والی اصلاحاتی ابتدا اور اپنے دروازے کھولنے کے بعد سے چین اپنی سالانہ شرح ترقی میں اوسطاً 9.5 فیصد کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا ہے، اس طرح گزشتہ 4 دہائیوں کے عرصے میں شرح ترقی میں 35 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایسی مستحکم اقتصادی ترقی کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسا سیاسی استحکام، ویژن رکھنے والی قیادت اور مضبوط ریاستی اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔
1949ء کا انقلاب لانے والے رہنماؤں میں سے ایک ڈیگ ژیاؤبنگ کی سربراہی میں ہی انقلاب دوسرے مرحلے میں داخل ہوا جس نے جدید چین کی تعمیر کی راہ ہموار کی۔ 1980ء کی دہائی سے ڈنگ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں ہی چینی پالیسی مرتب کی گئی۔ ان کے مطابق، 3 ایسے معیارات ہیں جن کی مدد سے آپ یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا سیاسی نظام یا پالیسی کسی ملک کے لیے ٹھیک یا موزوں ہے یا نہیں.
پہلا معیار یہ ہے کہ آیا یہ سیاسی استحکام، اقتصادی ترقی اور معیارات زندگی کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں؟ اگر یہ تینوں کے لیے مفید ہے تو پھر یہ ایک اچھا نظام یا اچھی پالیسی کہلائے گی۔
غیر معمولی اقتصادی ترقی کے اپنے اس پیمانے کے ساتھ چین چینی عوام کی معیار زندگی بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے اصلاحات اور اپنے دروازوں کو کھولنے کے بعد سے چین کی سب سے اہم کامیابی معیار زندگی میں زبردست حد تک بہتری لانا ہے۔ ایک ملک جہاں غرباء کی ایک بڑی تعداد شہروں کا رخ کرتی ہو اور جن میں سے کئی ابتدائی طور پر نہایت بدحالی میں زندگی گزارتے ہوں ایسے میں یہ اس ملک کی ایک غیر معمولی کامیابی ہی رہی ہے۔
دیگر وہ عناصر جن کی وجہ سے چین کو اقتصادی اور سماجی ترقی میں مدد ملی وہ ہیں تعلیم اور آبادی پر قابو پانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری۔ تقریباً 4 دہائیوں سے چین نے سختی کے ساتھ ایک بچہ پالیسی نافذ رکھی جس کی وجہ سے ملک کو غربت مخالف مہم میں کامیابی پانے میں کافی مدد ملی۔ اس پالیسی کو اب پہلے سے زیادہ لچکدار بنا دیا گیا ہے تاکہ وسیع ہوتی معیشت کی طلب کو پورا کیا جاسکے۔
سب سے اہم بات یہ کہ ہر نئے آنے والے چینی رہنما نے یہ تسلیم کیا کہ اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ جہاں چین نے اپنا پورا دھیان اقتصادی ترقی پر لگائے رکھا وہیں اس نے خود کو بیرونی تنازعات سے دور رکھا اور اکسائے جانے کے باوجود تصادم سے خود کو باز رکھا۔ اپنی بطور ایک سپرپاور پوزیشن کے باوجود خود کو لو پروفائل پیش کیا۔
جب عمران خان کہتے ہیں کہ وہ چین سے سیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ ایسی سماجی سطح کی تبدیلی اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب آپ کے پاس ایک واضح ویژن ہو اور کٹھن فیصلے کرنے کا حوصلہ ہو۔ یہ ایک نہایت قابلِ تعریف بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت انسانی ترقی پر بہت ہی زیادہ زور دیتی ہے، لیکن لوگوں کی فلاح و بہبود کا دارومدار سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی پر بھی ہوتا ہے۔ محض پرکشش نعروں اور باتوں سے اس ملک کو موجودہ بدحالی سے نکالنے میں مددگار ثابت نہیں ہوں گے۔
یقیناً پاکستان میں ایک الگ نظام حکومت ہے اور قیادت کسی انقلابی پارٹی کے ہاتھ میں بھی نہیں لیکن معیشت کو مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے چند بنیادی اصلاحات عمل میں لانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ سماجی اور اقتصادی ڈھانچوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے، جو کہ ملک کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ تاہم عمران خان کے نیا پاکستان بنانے کے زبردست خیال کے باوجود پی ٹی آئی ایک ایسی پارٹی رہی ہے جس کے پاس تبدیلی کی کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ اقتدار ملے کم و بیش 5 ماہ ہوچکے ہیں لیکن حکومت اب بھی واضح سمت کا تعین نہیں کرسکی ہے۔
یہیں اس ملک کے اندر منظم ناکامی ظاہر ہوتی نظر آتی ہے۔ جہاں پی ٹی آئی حکومت ویژن یا مقصد سے عاری ہو کر چل رہی ہے وہیں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام نے نظام میں خرابی پیدا کردی ہے۔
سیاسی لڑائی کے اس ماحول میں غربت سے لڑنا تو دور کی بات ہے آپ معیشت کو زمین سے اٹھانے کی امید بھی نہیں کرسکتے۔ دوست ممالک کی مالی معاونت پر انحصار کرتے ہوئے ملک سے آگے بڑھنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والے پیکجز کو سفارتی کامیابیاں بتانا کافی شرمناک امر ہے۔ اصلاحات کے لیے کسی واضح ایجنڈے کی غیر موجودگی میں اس قسم کے وقتی ریلیف واجبات کی صورت اختیار کرسکتے ہیں جو معیشت کو مزید پستی کی جانب دھکیل دیں گے۔
اپنی تصادم کی پالیسی کو بدلنے کا ابھی حکومت کی جانب سے کوئی اشارہ بھی نظر نہیں آتا۔ اس سے بھی زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس خود کو لاحق چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت علمی موجود نہیں ہے۔ بلاشبہ کرپشن ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، لیکن لگتا ہے کہ حکومت صرف اور صرف اسی ایک مسئلے پر توجہ مرکوز کر بیٹھی ہے۔
عمران خان نے یہ دعویٰ کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کرکیا ہے کہ تمام اقتصادی اور سیاسی بدحالی کی اہم وجہ کرپشن ہے۔ اس بے معنی مہم نے اقتصادی اور سیاسی غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے، جس کی وجہ سے کوئی ایک اصلاح لانا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ عمران خان اکثر چین کی کرپشن کے خلاف حالیہ مہم کی مثال دیتے رہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ چین اپنی معیشت مستحکم کرنے کے بعد ہی کرپشن نامی بلا کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے قابل بن سکا ہے۔
یہ سیکھنے کے بجائے کہ چین کس طرح مختصراً عرصے میں ایک اقتصادی سپرپاور بن کر ابھرا، عمران خان سطحی طور پر اس کی تاریخ کے چند پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی اور سیاسی پستی کی ایک بڑی وجہ ترقی اور سماجی تبدیلی کے لیے طویل مدتی ویژن کی عدم موجودگی ہے۔
چینی ماڈل یہاں پر تو اختیار نہیں جاسکتا، لیکن ہم کم از کم اس کی کامیابی سے کچھ سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ وہاں غربت کا خاتمہ، جس سے عمران خان کافی متاثر ہیں، اقتصادی ترقی اور سماجی اصلاحات کے بغیر نہیں آیا۔ بے گھروں کے لیے پناہ گاہوں کا قیام یقیناً ایک مثبت اقدام ہے لیکن اس سے بے پناہ غربت، بے روزگاری اور سماجی پستی کا بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔
یہ مضمون 9 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں