• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جب اخبارات کا ’ضمیمہ‘ بھی آتا تھا

شائع January 7, 2019
یہ اخباری ضمیمے ہی گزرے زمانے کی ’بریکنگ نیوز‘ تھے، جو واقعتاً اہم ترین اور بہت بڑی خبر ہوتے۔
یہ اخباری ضمیمے ہی گزرے زمانے کی ’بریکنگ نیوز‘ تھے، جو واقعتاً اہم ترین اور بہت بڑی خبر ہوتے۔

یہ سہ پہر کا وقت ہے۔ ایسی ٹھہری ہوئی سہہ پہر کہ جس میں کھانا کھانے کے بعد گویا گھڑیال بھی سستانے کو رک سا جاتا۔

گلیوں میں آمد و رفت کم، نکڑ کے دکان دار بھی سستانے کو اپنی دکانیں ڈھانپ کر چلے گئے ہیں، ایسے میں ایک سائیکل یا اسکوٹر پر اخبار فروش کی ’ضمیمہ! ضمیمہ!‘ کی پکار اس شانت سہہ پہر کا سارا سکون درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ ایک ہاہاکار سی مچ جاتی ہے۔ جس کان تک یہ آواز جاتی ہے وہ خبر لینے کو دوڑ پڑتا ہے کہ خدا خیر کرے کیا ہوا۔

اکثر اخبار فروش باآواز بلند ’سرخی‘ کا مفہوم عوامی انداز میں بھی سناتا جاتا، جیسے برطرفی یا استعفے کی جگہ وہ فلاں کی ’چھٹی‘ کہتا، دھماکے کی جگہ وہ ’اڑادیا‘ بولتا اور سزاؤں کے لیے ’اندر‘ اور ’لٹکا دیا‘ وغیرہ جیسے لفظ برتتا۔

یہ سرخی کبھی تو پوری سمجھ میں آجاتی اور کبھی اس کا مفہوم ادھورا رہ جاتا اور پھر ادھوری خبر سے تو تجسس کئی گنا بڑھ جاتا، جیسے کسی مشہور شخصیت کا نام سن لیا اور آگے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا، تو سوچ سکتے ہیں کہ ادھورا سامع بنے اس قاری پر کیا گزرتی ہوگی!

پھر جس جگہ یہ اخبار فروش رک جاتا، اس کی اسکوٹر چاروں جانب سے گِھر جاتی اور دیکھیے ذرا ایک خلقت مٹھی میں ایک، ایک روپے کے 2 نوٹ یا ریزگاری تھامے ’ضمیمہ‘ حاصل کرنے کو بے قرار ہے۔ دھکم پیل ہو رہی ہے اور اس جمگھٹے سے جو بھی یہ ’اخباری ضمیمہ‘ حاصل کرکے نکل رہا ہے، اس کے ساتھ بھی چلتے پھرتے بہت سے ’قارئین‘ کا حلقہ ساتھ سِرکا چلا جا رہا ہے، جو بِنا ضمیمہ خریدے خبر کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات جاننے کا متمنی ہے۔

ضمیمہ اتنا ’تازہ‘ ہے کہ اخباری روشنائی کی تیز بُو نتھنوں میں گُھس رہی ہے، طباعت بھی اتنی تَر ہے کہ ہاتھ پر چھپائی کی چپک بھی محسوس ہو رہی ہے۔ اخبار فروش کا ہاتھ دیکھیے تو اخبار گننے اور خریداروں کو نکال، نکال کردینے میں اس کا ہاتھ ’کالا بھٹ‘ ہوچکا ہے، اور وہ؟ وہ تو خبر کے اچھے یا بُرے ہونے سے بالکل بے پروا ہے، اس کا چہرہ تو دیکھیے، اس پر عجیب سی مسرت اور اطمینان سا ہے، کیوں نہ ہو اس ’بڑی خبر‘ کے صدقے گویا یومیہ اجرت کے دوران اسے ایک ’بونس‘ جو مل گیا ہے۔ اب وہ خیالوں میں کوئی ’خواب‘ پورا ہوتا دیکھ رہا ہے کہ خوشی اس کے چہرے سے پھوٹی پڑتی ہے۔

یہ اخباری ضمیمے ہی گزرے زمانے کی ’بریکنگ نیوز‘ تھے، جو واقعتاً اہم ترین اور بہت بڑی خبر ہوتے، ہاتھوں ہاتھ بکتے اور بہت سوں کو تو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا۔ کوئی حادثہ، سیاسی واقعہ یا کوئی عدالتی فیصلہ اس ضمیمے کا اس وقت محرک بنتا، جب شام کے اخبار چھپ چکے ہوتے اور صبح کے اخبار آنے میں ابھی کافی وقت ہوتا۔

کبھی سہہ پہر اور کبھی شام ڈھلے سامنے آنے والے ’ضمیمے‘ معمول سے بھی ہلکے اخباری کاغذ پر ہوتے۔ سیاہ و سفید طباعت، صفحے کے ایک ہی طرف چھپے ہوئے یک ورقی اخبار، جس پر ’لوح‘ کے ساتھ اسی حجم کا بڑا سا ’2‘ لکھا ہوا ہوتا تھا... یہی ’2‘ اخبار کے ضمیمہ ہونے کا پتا دیتا اور اس کے ساتھ ہی بہت بڑی شہ سرخی ہوتی، جس کے نیچے اس خبر کی تفصیل۔ بعض اوقات اسی خبر کی مزید جزئیات چھوٹی چھوٹی 2، 3 اور ایک کالمی سرخیوں کے ساتھ لکھی ہوتیں۔ بعض اوقات صرف وجہ ضمیمہ خبر کی شہہ سرخی ہوتی، باقی جگہ دیگر تازہ خبروں سے پُر کی جاتی۔

ہماری یادداشت سے بھی کچھ ضمیوں کی یاد محو نہیں ہوئی، جن میں ’صدر فاروق لغاری کا استعفیٰ‘، ’جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی‘ اور ’جسٹس سجاد علی شاہ کا استعفیٰ‘ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد زیادہ اچھی طرح ’جنرل پرویز مشرف کی برطرفی‘ کا ضمیمہ ہے، مغرب سے پہلے آنے والے اس ضمیمے میں نئے آرمی چیف بنائے جانے والے جنرل ضیا الدین بٹ کی سیلوٹ والی تصویر بھی لگی ہوئی تھی، مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، سارا معاملہ ہی الٹا ہوگیا، برطرف کرنے والے کا اپنا ہی دھڑن تختہ کردیا گیا، لیکن اس دوسری خبر کا کوئی ضمیمہ نہیں آیا، افواہیں ہی افواہیں تھیں، پھر رات گئے یہ معلوم ہوا کہ ’جنرل پرویز مشرف قوم سے خطاب کرنے والے ہیں‘۔

آج ہمیں یہ اخباری ضمیمے یوں یاد آئے کہ گزشتہ دنوں مالی بحران کی بنا پر جن روزناموں کی بندش ہوئی، اس میں کراچی کا شام کا ایک بڑا اخبار بھی شامل ہے! ہمارے ایک سینئر ساتھی نے اس پر شام کے اخبارات کی صحافت کے خاتمے کا نوحہ کہا تو یکایک ہمارے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھی کہ ’کاغذی ذرایع ابلاغ‘ ہمارا خاص موضوع ہے۔ پھر کراچی میں 1990ء کی دہائی میں پروان چڑھنے والے شام کے اخبارات تو اخبار کم اس شہر کا نوحہ زیادہ ہیں۔ کاش، کوئی محقق ان پر تحقیق کرے، تو دیکھے کیسے کیسے انکشافات ہوتے ہیں۔

دراصل اس زمانے میں صبح کے اخبارات کی ترجیحات جدا یا ان کی ’طُرم خانی‘ زیادہ ہوتی تھی، اس لیے بہت سی چھوٹی خبریں اور ’عوامی‘ المیے انہی شام کے اخباروں کے ذریعے قارئین تک پہنچتے تھے۔ لیکن آج سرے سے یہ اخباری صنف ہی دم اخیر پر آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فی الحال شام کے کچھ اخبارات تو جاری ہیں، لیکن یہ اخباری ضمیمے نجی خبری چینلوں کے بعد قصہ پارینہ بن گئے۔ بالخصوص امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد سے ہم نے تو کوئی ’ضمیمہ‘ نہیں دیکھا۔ ہاں یہ سلسلہ ضرور رہا کہ اس واقعے کے بعد اخبار والا معمول کے چھوٹے اخبارات کو ہی ’ضمیمہ‘ کہہ کہہ کر فروخت کرنے لگا تھا، لیکن میں نے جب بھی کھوجا، تو وہ کوئی معمول کا اخبار ہی ہوتا تھا۔

دوسرا ہم 1990ء کی دہائی کے وہ ’بچے‘ ہیں، جن کے بچپن میں شام کے اخبارات ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ’شام کے اخبارات‘ اگرچہ سرخیوں سے سنسنی پھیلاتے تھے، لیکن مجموعی طور پر سنجیدگی کی طرف راغب تھے۔

بہت سے صبح کے اخبار پڑھنے والے بھی شام کے کسی اخبار سے استفادہ کرتے۔ پھر جو صرف شام کا اخبار پڑھتے وہ صبح کے اخبار کے قارئین کو کہتے کہ آج کی خبریں کل صبح کے اخبار میں باسی کرکے کیا پڑھنا! لیکن اگر غور کیا جائے تو ذہن میں سوال آتا ہے کہ آج برقی ذرائع اِبلاغ کی تیز رفتاری میں مطبوعہ اخبارات اپنے روزانہ کے 2 یا 3 ’ایڈیشن‘ کے ذریعے خبروں کی دوڑ میں مقابلے کا امکان تلاش کرسکتے تھے، لیکن آج یہاں تو اخبارات ہی سکڑنے لگے ہیں، آگے دیکھتے ہیں کیا گزرے گی۔

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024