• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

حکومت ’غبن‘ کے الزام پر امریکا سے حسین حقانی کی حوالگی کی خواہاں

شائع January 5, 2019
سپریم کورٹ نےحکومت کو حسین حقانی کی واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔۔۔ فائل فوٹو
سپریم کورٹ نےحکومت کو حسین حقانی کی واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔۔۔ فائل فوٹو

اسلا م آباد: انٹرپول کے ذریعے سابق سفیر حسین حقانی کی حوالگی میں ناکامی پر حکومت نے دفتر خارجہ کے ذریعے امریکا سے تحویلِ مجرمان کی کوششوں کا آغاز کردیا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے مجرمان کی حوالگی سے متعلق 355 صفحات پر مشتمل دستاویز دفتر خارجہ کو ارسال کی ہے جسے حسین حقانی کی حوالگی کے لیے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو روانہ کیا جائے گا۔

اس سلسلے میں دفتر خارجہ میں اجلاس بھی طلب کیا گیا جس میں اس کیس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق سفیر حسین حقانی کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری

سپریم کورٹ کی جانب سے حسین حقانی کو واپس لانے کے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر لیے گئے از خود نوٹس میں حکومت کو ان کی واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

ایف آئی اے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سابق سفیر کی واپسی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حسین حقانی کی واپسی کے لیے وزارت خارجہ میں اہم ملاقاتیں ہوئیں، 19 دسمبر کو ایڈیشنل سیکریٹری سطح پر میٹنگ ہوئی۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حسین حقانی نے اپنی مدت ملازمت کے دوران اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ انہوں نے سیکرٹ سروس فنڈز کی خلاف ورزی کی۔

حسین حقانی نے 2 ملین ڈالر سالانہ خورد برد کی جبکہ انہوں نے 8 ملین ڈالر میں سے 4 ملین ڈالر ذاتی مقاصد کےلیے استعمال کیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سرکاری پیسے کے غلط استعمال پر حسین حقانی کےخلاف مارچ 2018 میں ایف آئی آردرج ہوئی۔

ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد کی عدالت میں سابق سفیر کے خلاف چالان پیش کیا جاچکا ہے اور حسین حقانی کے پاکستانی سفری دستاویزات بلاک کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 4 جون 2013 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکومت کو تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے حسین حقانی کو واپس لانے کا حکم دیا تھا۔

حسین حقانی امریکی ملٹری چیف ایڈمرل مائیک ملن کو میمورنڈم ارسال کرنے کے حوالے سے تنازع کا مرکز ہیں جس میں فوج کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کی بساط لپیٹنے کی صورت میں براہ راست مداخلت کی درخواست کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے حسین حقانی کی واپسی کا ٹاسک نیب کو دے دیا

بعدازاں سپریم کورٹ نے ’میمو گیٹ ‘ کے نام سے ایک کمیشن بھی قائم کردیا تھا جس کی رپورٹ میں حسین حقانی کو میمورنڈم بنانے کا ذمہ دار ٹہھرایا گیا تھا۔

قبل ازیں حکومت بھی ماضی میں مختلف مواقع پر انٹر پول سے حسین حقانی کے وارنٹ حاصل کرنے کی کوشش کرچکی ہے لیکن وہ اس سلسلے میں پولیس کے بین الاقوامی ادارے کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔

ایک موقع پر مجرمانہ فرد جرم نہ ہونے کی بنا پر وارنٹ کی درخواست مسترد کردی گئی تھی جبکہ دوسری مرتبہ جب سابق سفیر پر غداری کا الزام لگایا گیا تو درخواست اس لیے قابلِ قبول نہیں تھی کہ غداری کا الزام بین الاقوامی سطح پر مجرموں کی حوالگی کا جواز نہیں مانا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: میمو گیٹ کیس: ‘حکومت 30 دن میں حسین حقانی کو وطن واپس لے آئے’

بعدازاں مارچ 2018 میں میمو گیٹ اسکینڈل پر حسین حقانی کے استعفیٰ دینے کے 7 سال بعد ان کے خلاف 20 لاکھ ڈالر کےغبن کا مقدمہ درج کیا گیا جس کی بنیاد پر اب ان کی حوالگی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مجرم کے حوالگی کے لیے امریکی قانونی حدود کے مطابق ارتکاب جرم کے 5 سال کے اندر مقدمے کا اندراج ہونا لازمی ہے جبکہ حسین حقانی کے خلاف درج کیا گیا مقدمہ اس شرط پر پورا نہیں اترتا۔

واضح رہے کہ دفتر خارجہ میں موجود ذرائع جو اس کیس پر نظر رکھے ہوئے ہیں، خود اس بارے میں پرا مید نہیں کیوں کہ امریکا اور پاکستا کے درمیان مجرمان کی حوالگی کے لیے باقاعدہ معاہدہ بھی موجود نہیں تاہم اس کے باوجود تمام شرائط پر پورا اترنے والی درخواستوں پر عمل کرتے ہوئے ایڈمرل منصورالحق اور بینک آف پنجاب کے ہمیش خان کو حوالے کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: میموگیٹ اسکینڈل: حسین حقانی کی وطن واپسی کے لیے انٹرپول سے رابطہ

قانونی ماہرین کے مطابق امریکا سیاسی مقدمات میں مجرمان کی حوالگی نہیں کرتا اور یہ کیس بھی سیاسی نوعیت رکھتا ہے ، اور اگر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ راضی بھی ہوگیا تو امریکی عدالت میں ایک طویل کارروائی بھگتنا پڑے گی۔


یہ خبر 5جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024