• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

کوہستان ویڈیو کیس: لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا، سپریم کورٹ میں رپورٹ

شائع January 2, 2019 اپ ڈیٹ April 2, 2019
سپریم کورٹ کو کے پی کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے تفصیلات سے آگاہ کیا—فائل/فوٹو:ڈان
سپریم کورٹ کو کے پی کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے تفصیلات سے آگاہ کیا—فائل/فوٹو:ڈان

سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے انکشاف کیا کہ پولیس نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ 2011 میں کوہستان میں سامنے آنے والی ویڈیو میں لڑکوں کو رقص کرتے ہوئے دیکھنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں کوہستان ویڈیو کیس کی سماعت ہوئی، جہاں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا پیش ہوئے اور پولیس کی رپورٹ سے آگاہ کیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے مطابق ثابت ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کو قتل کیا گیا تھا اور 9 ملزمان کو چالان میں نامزد کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت نے اس وقت تین کمیشن مقرر کیے تھے ان کی کیا رپورٹ تھی، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کمیشن کے سامنے جعلی لڑکیاں پیش کرکے کہا گیا تھا کہ کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: قتل کے 6 ملزمان کو رہا کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایک کمیشن میں فرزانہ باری کو بھی شامل کیا گیا تھا ان کی کیا رائے تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کیا تھا اور اب ثابت ہوگیا ہے کہ ان کا اختلاف درست تھا اور لڑکیاں قتل ہوئی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے ملزمان کے خلاف 10 روز میں چالان پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مقتولین کے لواحقین اگر چاہیں تو مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں چلانے کی درخواست ہائی کورٹ میں دے سکتے ہے۔

مزید پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 'پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے'

کیس درج کرانے کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لواحقین سمجھیں کہ کسی مرحلے پر انصاف نہیں ہو رہا تو بنیادی انسانی حقوق کے تحت کیس کو سپریم کورٹ میں دوبارہ سننے کی استدعا کر سکتے ہیں۔

کوہستان ویڈیو کیس

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستانی لڑکیوں کا قتل، 'مارے جانے کے شواہد عدالت میں پیش'

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024