• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

پولیس افسر راؤ انوار ریٹائر

شائع January 2, 2019

کراچی: نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کے مبینہ طور پر قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار پولیس سروسز سے ریٹائر ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ضمانت پر رہا ہونے والے راؤ انوار نے 30 سال تک پولیس سروسز میں مختلف عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔

انہوں نے 1982 میں اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کے عہدے پر پولیس سروسز میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد وہ مختلف اوقات میں پروموشن حاصل کرتے ہوئے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے پر تعینات ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار کا بیرون ملک جانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔

تاہم ان پر مختلف افراد کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن انہیں عدالتی معاملات اور ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کا سامنا جنوری 2018 کے ابتدا کے بعد سے کرنا پڑا۔

13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا، جنہیں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں تھی جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع بھی دیا گیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس کے بعد یہ معاملہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا تھا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی تھی۔

عدالت میں زیرِ سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔

تاہم ان کا نام ابھی بھی ای سی ایل میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024