خاک میں کیا کیا صورتیں تھیں کہ پنہاں ہوگئیں
80ء اور 90ء کی دہائی میں پاک و ہند میں پروان چڑھنے والی نسلوں میں شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جو انڈین فلم انڈسٹری کے مایہ ناز فنکار قادر خان کے نام سے ناواقف ہو۔ 300 سے زائد فلموں میں اداکاری اور 200 فلموں میں مکالمہ نگاری کا جادو جگانے والے قادر خان اپنی ذات میں ایک پوری اکیڈمی تھے۔
انہوں نے ناصرف اداکاری بلکہ مکالمہ نگاری اور اسکرپٹ رائٹنگ میں بھی اپنے ہنر کا لوہا منوایا۔ وہ ایک ورسٹائل اداکار تھے اور کسی ایک کردار یا طرزِ اداکاری پر اکتفاء کرنے کے بجائے انہوں نے فنِ اداکاری کے ہر پہلو پر زور آزمائی کی، چاہے وہ مزاح ہو یا منفی کردار، ایک حسن پرست شخص ہو یا مشفق باپ، قادر خان ان فنکاروں میں سے تھے جو خود کو ہر طرح کے کردار میں ڈھال لیتے تھے۔
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ قادر خان مرحوم کا تعلق کابل، افغانستان سے تھا اور یہ تعلق ان کے مخصوص اور لطیف طرزِ کلام میں بھی نظر آتا ہے۔
قادر خان کو بھارتی فلم صنعت میں متعارف دلیپ کمار نے کروایا تھا، اس سے پہلے وہ ایم ایچ صبو صدیق کالج آف انجینرنگ سے بطور سول انجینرنگ پروفیسر منسلک تھے۔ ان کے فنی کیریئر کا آغاز 1970ء کی دہائی میں بطور فلم نگار ہوا اور کچھ عرصہ بعد 1973ء میں فلم 'داغ' میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
بھارتی فلم صنعت کے اَن گنت اداکار و ہدایتکار آج شہرت کی بلندیوں پر قادر خان کی خوبصورت مکالمہ نگاری اور اسکرین رائٹنگ کی بدولت چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں۔ امیتابھ بچن اور گووندا ان معروف ناموں میں سے ہیں جن کی شہرت کو جلا قادر خان کے قلم نے بخشی۔ اکیلے امیتابھ بچن کے لیے انہوں نے کوئی 22 فلموں میں مکالمہ نگاری کی جن میں شرابی، قلی، لاوارث، مقدر کا سکندر اور امر اکبر انتھونی جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شکتی کپور کے ساتھ انہوں نے کم و بیش 100 فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کیا، شائقین نے اس فلمی جوڑی کو بہت سراہا۔
بولی وڈ میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ فلمی پوسٹرز میں ہیرو اور ہیروئن کے بجائے قادر خان اور شکتی کپور جلوہ گر ہوتے۔ اپنے فن کی بدولت انہوں نے یہ ثابت کیا کہ فلمون کی کامیابی کے لیے محض ہیرو اور ہیروئن کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایک اچھا فنکار ہونا ضروری ہے۔ قادر خان کے فن کی ڈیمانڈ صرف ہندی فلموں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے نام بھی ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کے معترف تھے اور کئی ساؤتھ انڈین فلموں کے ہندی ری میک کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ صرف اصل فلم کا ترجمہ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں مخصوص علاقائی ثقافت، سیاق و سباق میں اس طرح ڈھال دیتے تھے کہ ان فلموں پر کہیں بھی ری میک ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔ قادر خان کا فن محض بڑی اسکرین تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے ٹیلی ویژن سیریز، ’ہائے پڑوسی …. کون ہے دوشی'، 'مسٹر دھنسکھ' اور 'ہنسنا مت' میں بھی مزاحیہ کردار ادا کیے۔
قادر خان نے 1982ء اور 1993ء میں بہترین مکالمہ نگار جبکہ 1991ء میں فلم ’باپ نمبری، بیٹا 10 نمبری‘ کے لیے بہترین کامیڈین کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ اس کے علاوہ 1984ء سے 1991ء تک، وہ فلم فیئر ایوارڈز میں مختلف فلموں کے لیے بطور بہترین کامیڈین 9 بار نامزد ہوئے۔ AFMI (امریکن فاؤنڈیشن آف مسلمز فرام انڈیا) نے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کو تسلیم کیا۔
ایک زمانہ تھا کہ بھارتی فلمی صنعت میں قادر خان کے نام کا سِکّہ چلتا تھا۔ ہر دوسری فلم میں ان کا نام بطور اداکار یا پھر مکالمہ نگار موجود ہوتا اور یہی نام فلم کی کامیابی کی ضمانت بھی سمجھا جاتا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، فلمی صنعت کا معیار بھی تبدیل ہوتا گیا۔ نئے چہرے، نئے انداز اور شائقین کی بدلتی ترجیحات کے بیچ انڈین شوبز کے اس انمول ہیرے کی چمک زمانے کی دھول میں ماند پڑ گئی۔ انہیں آخری بار 2015ء میں فلم تیور میں دیکھا گیا اور اس کے بعد قادر خان نے ایک غیر معروف فلم ’مستی نہیں سستی‘ میں کام کیا۔
کیا قادر خان نے فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی؟ ہرگز نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصّہ فلم انڈسٹری کو بہترین کمرشل فلمیں دینے میں صَرف کیا، وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک فلمی صنعت کے گرتے معیار سے نالاں رہے۔ وہ پروڈیوسر و ڈائریکٹر، منموہن دیسائی اور پرکاش مہرہ کے ساتھ فلم انڈسٹری میں گزارے اپنے وقت کو یاد کرتے اور ان دونوں حضرات کو اپنا استاد گردانتے۔ قادر خان کے مطابق منموہن دیسائی اور پرکاش مہرہ کے چلے جانے کے بعد انڈین فلم انڈسٹری نے آہستہ آہستہ اپنا معیار کھونا شروع کردیا، نتیجتاً انڈسٹری کے بدلتے رجحان سے ان کا دل اکتا گیا اور انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی، بہرحال دل میں انڈسٹری میں دوبارہ شمولیت کی خواہش بدستور قائم رہی جس کا ذکر بارہا وہ اپنے قریبی دوستوں سے کرتے رہے۔
قادر خان ایک روایت پسند انسان تھے یہی وجہ ہے کہ فلموں کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر پہلوؤں کو بھی مخصوص زاویے سے دیکھتے تھے۔ فلم انڈسٹری کے بدلتے معیار کے پیش نظر فلم ساز ان سے دامن کترانے لگے اور اسی بات سے وہ نہایت دلگرفتہ ہوگئے۔
فنکار کا وجود اس کا فن اور روح اس کے مداح ہوتے ہیں، جب جسم کا ساتھ روح چھوڑ جائے تو محض ایک بے جان لاشے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ کچھ ایسا ہی حال مرحوم قادر خان کا بھی ہوا۔ اپنی کم مائیگی اور تنہائی کا احساس ان کی صحت پر اثر انداز ہونے لگا اور علاج کی غرض سے انہیں کینیڈا منتقل ہونا پڑا اور وہیں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔ 31 دسمبر 2018ء کو انڈین فلم انڈسٹری کی کتاب کا ایک اور اہم و معروف باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
قادر خان کی زندگی کا ایک اور پہلو جو ان کے مداحوں کی نظروں سے اوجھل رہا وہ یہ کہ مرحوم قرآن کے اسکالر بھی تھے، انہیں یہ تربیت اور رجحان اپنے والد سے وراثت میں ملا جو خود ایک اسلامی اسکالر تھے۔ قادر خان کی یہ خواہش تھی کہ اردو اور ہندی زبان کا ایسا ادارہ قائم ہو جہاں طلباء قرانی تعلیمات کو سمجھ سکیں۔
زمانے کی ستمگیری کہ ان کی وفات کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی ممالک مرحوم قادر خان کو اپنے ملک سے منسوب کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ان کی زندگی میں انہیں ایک خواب کی طرح بھلا دیا گیا۔
ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں