اگر آپ کسی جگہ گھوم رہے ہوں اور اچانک بادلوں کی ٹکڑیاں نیچے آکر آپ کو چھولیں بلکہ لپٹ جائیں تو کیسا محسوس کریں گے؟
یہ ناممکن نہیں درحقیقت اگر آپ پاکستان کے پہاڑی مقامات کی سیر کے لیے جائیں تو اس کا تجربہ اچانک ہوسکتا ہے۔
یعنی بادل آنکھوں کے عین سامنے آجائیں گے جو انتہائی شفاف ہوتے ہیں جن کے آرپار دیکھ سکیں، ان لمحات میں پورا وجود ملک کی محبت سے بھر جاتا ہے۔
سمجھ نہیں آتا کہ کن الفاظ میں اس احساس کو بیان کریں، مگر ہمارے وطن کے رنگ ایسے ہی سدا بہار ہیں جو دل کو جیت لیتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں اکثر افراد کے ذہنوں میں اچھے حوالے نہیں ہوتے، دہشتگردی، فرقہ واریت، کرپشن اور مہنگائی، غرض لاتعداد چیزوں کی شکایات ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود اس ملک سے محبت سے انکار کسی کے لیے ممکن نہیں۔
تو خود سوچیں چند اچھے حوالے وطن عزیز سے محبت کو کس حد تک بڑھا سکتے ہیں۔
درحقیقت سب کچھ ممکن ہے بس ارادے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنے شہر سے نکلنے کے بعد آپ کو خوبصورتی کے سامنے مشکلات کا احساس بھی نہیں ہوگا۔
اگر آپ اس برس کہیں گھومنے پھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنے ملک میں سفر کریں اور نئی چیزوں کا تجربہ کرکے دیکھیں۔
اس سلسلے میں آپ کی مدد کے لیے ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو بتاسکیں گے کہ کس مہینے کہاں جانے پر آپ کا سفر یادگار بن سکتا ہے۔
جنوری
اگر تو آپ ملک کو دیکھنا چاہتے ہیں تو آغاز روایتی مقامات جیسے گلیات یا شمالی علاقہ جات کی بجائے بلوچستان کی سیر سے کریں اور وہاں زیارت سے بہتر مقام کونسا ہوسکتا ہے جو کہ کوئٹہ سے ڈھائی سے 3 گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے، مگر وہاں جانے والوں کو اکثر کافی دیر لگ جاتی ہے جس کی وجہ راستے میں آنے والے وہ حسین مناظر ہیں جو رکنے پر مجبور کردیتے ہیں اور جب آپ زیارت کے قریب پہنچتے ہیں تو باب خیبر جیسا محرابی دروازہ باب زیارت آپ کا استقبال کرتا ہے، زیارت کی ایک اہمیت اس کی خوبصورت تاریخی عمارت ’قائدِ اعظم ریزیڈنسی’ کی وجہ سے بھی ہے۔
لکڑی کی بنی ہوئی تکونی چھت اور طویل راہداریوں والی یہ منفرد وضع کی عمارت صنوبر اور چنار کے درختوں سے ڈھکی، رنگ برنگے پھولوں کی خوشبوﺅں سے مہکتی اور ایک وسیع سبزہ زار میں گِھری ہوئی دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا ڈیم اور پھلوں سے بھری وادی جو کہ سردیوں میں سیبوں کی مہک سے بھری ہوتی ہے، مسحور کردیتی ہے۔
زیارت کا ایک خاص مقام سنڈیمن تنگی ہے جو آبشار اور چشمے کی وجہ سے مشہور ہے جبکہ ایک خوبصورت فاریسٹ فیملی پارک کی سیر کرنا بھی ضروری ہے۔
سردیوں میں آپ کو برفباری کا نظارہ بھی وہاں دیکھنے کو مل سکتا ہے جو اس جگہ کی سیر کو مزید یادگار بنادے گا۔
اس جگہ کے بارے میں مزید جانیں : ایک دن زیارت اور اس کی خاموشی کے ساتھ!
فروری
اس سال فروری میں کہیں جانا چاہتے ہیں تو لاہور سے بہتر مقام کونسا ہوسکتا ہے جہاں 12 سال بعد پہلی بار 2019 میں حکومتی سطح پر بسنت منائے جانے کا امکان ہے۔ یہ وہ مہینہ ہوتا ہے جب پنجاب کے کھیت کھلیانوں میں سرسوں کے پیلے رنگ ہر سو پھیل جاتے ہیں جن کا نظارہ سال بھر کے تناﺅ اور تھکان کو دور کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
لاہور میں برسوں تک موسم بہار کا استقبال بسنت کا تہوار مناکر کیا جاتا تھا اور رنگ برنگی پتنگوں سے آسمان سج جاتا جبکہ گھروں میں طرح طرح کے پکوان تیار کیے جاتے، جس میں شرکت کے لیے ملک بھر سے لوگ لاہور آتے تھے۔
تاہم دھاتی ڈور کے باعث ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے 2007 میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی جو کہ اب ختم ہونے کا امکان ہے تاہم یہ معاملہ اب عدالت میں ہے، یقیناً آپ اس تہوار میں شرکت کرکے مایوس نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے مخصوص رنگ دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں : ماضی کی گزرگاہیں، لاہور کا اصل تاریخی ورثہ
مارچ
کراچی اور اس کے ارگرد کے ساحلی علاقوں کا موسم مارچ میں بہت خوشگوار ہوتا ہے اور اس مہینے آپ کو کراچی کی سیر کا تجربہ ضرور پسند آئے گا۔
کیماڑی سے لانچ میں سوار ہو کر جزیرہ منوڑہ کی سیر کو جاسکتے ہیں یا پھر ساحل کراچی کے قریب سمندر میں چرنا آئی لینڈ کے ارد گرد نیلگوں شفاف پانیوں میں غوطہ خوری کرکے آبی حیات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بانی پاکستان کے خوبصورت مقبرے، موہٹہ پیلس میوزیم کے ساتھ کلفٹن، سی ویو، ہاکس بے اور پیراڈائز پوائنٹ کراچی کی معروف تفریح گاہیں ہیں، جبکہ کراچی کے روایتی کھانے بھی دل جیت لیں گے۔
یہ بھی دیکھیں : مبارک ولیج : بے مثال خوبصورتی کی مالک ساحلی بستی
اور ہاں یہ وہ مہینہ ہے جب پاکستان سپر لیگ اپنے عروج پر ہوگا اور مارچ میں ہی اس کے کئی میچ بشمول فائنل بھی کراچی میں منعقد ہوں گے اور اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹرز کو ان ایکشن دیکھنے کا تجربہ کس کو پسند نہیں آئے گا؟
اپریل
عام طور پر جب گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ خزاں کا ذکر بھی زیادہ تر ہوتا ہے کیونکہ اس موسم میں اس وادی کے رنگ دیکھنے والے ہوتے ہیں یعنی نارنجی، زرد، سرخ اور دیگر رنگ ہر جگہ پھیلے ہوتے ہیں۔
مگر اس وادی کی خوبصورتی خزاں کے موسم تک ہی محدود نہیں، اگر آپ کو بہار کے رنگ دیکھنے ہوں تو بھی اس وادی کا رخ کریں، وہاں کی خوبصورتی دنگ کرکے رکھ دے گی۔
ہنزہ کے دیگر رنگ یہاں دیکھیں : سفرنامہ ہنزہ: پاکستان کے ان دیکھے رنگ
درحقیقت مارچ کے وسط سے اپریل کے آخری ہفتے تک وادی ہنزہ اور گلگت بلتستان کے بیشتر حصوں میں آپ کو چیری بلاسم کے گلابی رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو کہ سرد موسم کے اختتام اور موسم بہار کی آمد کا اعلان کرتے ہیں۔
پوری دنیا میں چیری بلاسم کے لیے جاپان کو بہترین ملک سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان کی وادی ہنزہ اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں جہاں یہ گلابی رنگ دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔
چیری بلاسم کے ساتھ لوگوں کو خوبانی، بادام اور دیگر پھلوں سے لدے درخت دیکھنے کو ملتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ اس موسم میں راستے کھل چکے ہوتے ہیں تو وہاں کی سیر کرنا آسان ہونے کے ساتھ 2019 کے موسم بہار کو زندگی بھر کے لیے یادگار بنادے گی۔
مئی
پاکستان کی سیاحت کرنے والوں نے وادی کاغان، ناران اور جھیل سیف الملوک کو تو دیکھا ہی ہوتا ہے مگر کیا آپ نے کبھی برف سے منجمند سیف الملوک کا نظارہ دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو اس سال آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔
سطح سمندر سے 10578 فٹ بلند سیف الملوک جھیل ہمیشہ سے ملک بھر اور پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے، تاہم شاید آپ کو علم نہ ہو مگر اپریل اور مئی کے مہینے میں یہ جھیل برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے جیسا ڈان نیوز کے لیے لکھنے والے ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او عظمت اکبر نے اپنے ایک مضمون میں بتایا۔
اہم بات یہ ہے کہ مئی میں ناران میں زیادہ رش بھی نہیں ہوتا جس کے وجہ سے گھومنے پھرنے کا تجربہ زیادہ اچھا ثابت ہوتا ہے جبکہ میدانی علاقوں میں گرمی کے سخت روزوں کو بھی آپ اس علاقے کی ٹھنڈک سے آسان بناسکتے ہیں۔
اسی طرح کاغان کے مقام کیوائی کی سیر کے ساتھ شوگران کو دیکھنا بھی آپ کے لیے منفرد تجربہ ثابت ہوگا جس سے آگے اگر ہمت کریں تو سری پائے کے میدان بھی آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔
اور ہاں اس علاقے میں جانے کے لیے گرم کپڑے رکھنا مت بھولیں جبکہ چھتری یا برساتی بھی لازمی رکھیں کیونکہ بارش کسی بھی وقت ہوسکتی ہے جو گھومنے پھرنے کے دوران مشکل کا باعث بن سکتی ہے۔
جون
وادی سوات اپنی قدرتی خوبصورتی، برف پوش چوٹیوں، ان گِنت جھرنوں اور گلیشیئرز، چراگاہوں، نہروں اور ندیوں، گلیڈز، قدرتی پارکوں، جھیلوں اور گھنے و تاریک جنگلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
اسے ایشیاء کا سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ وادی اونچے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور شمال سے چترال اور غذر کے اضلاع، مشرق سے کوہستان اور شانگلہ، جنوب سے بونیر اور مالا کنڈ اضلاع جبکہ مغرب سے لوئر اور اپر دیر کے اضلاع میں جکڑی ہوئی ہے۔
سوات سیلاب اور طالبان کو بھگت کر اب بہت بدل چکا ہے اور اب یہ کے پی کے پرامن علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سیاحوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سال یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مینگورہ، کالام، خوازہ خیلہ، کبل، مالم جبہ اور دیگر متعدد علاقے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
سوات گندھارا تہذیب کے انتہائی اہم مراکز میں سے ایک تھا۔ نیز یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ سوات کی گود میں گندھارا تہذیب کے علاوہ بھی دیگر کئی تہذیبوں نے پرورش پائی ہے۔
تو آثار قدیمہ کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ابھی تو اس کا بیشتر حصہ دریافت بھی نہیں ہوا۔
تو اس سال جون میں وہاں جائیں قدرتی اور ماضی کی یادگاروں کو کھوجیں، جب واپس آئیں گے تو یقیناً ہر طرح کے ذہنی تناؤ سے پاک ہوچکے ہوں گے۔
جولائی
یہ پاکستان میں سیاحت کے سیزن کا عروج والا مہینہ ہے اور میدانی علاقوں کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی جانب فرار ہوجانے سے اچھا کیا ہوسکتا ہے؟
اس موسم میں آپ کے لیے خنجراب پر چین کی سرحد تک جانا ایک ایڈونچر سے بھرپور تجربہ ثابت ہوگا اور اس علاقے کی خوبصورتی آپ کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔
یہ سارا علاقہ بالائی ہنزہ یا گوجال کہلاتا ہے۔ وادی گوجال چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندر سے تقریبا 15,397 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے واخان سے لگتی ہیں۔
پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔
اس سفر کے دوران آپ ہنزہ، پسو کونز، گلمت، بورت جھیل، سوست اور متعدد خوبصورت علاقوں کی سیر بھی کرسکیں گے اور سب سے بڑھ کر عطا آباد جھیل جیسے عجوبے کو دیکھ سکیں گے۔
شاہراہ قراقرم پر سوست سے آگے پاکستان کا آخری مقام خنجراب ہے۔ خنژراف مقامی زبان میں "خن" یعنی خون اور "ژراف" یعنی گلیشیائی ندی، سے مل کر بننے والا ایک مرکب لفظ ہے جس کا مطلب ہے "خون کی ندی"۔
یہاں ایک اے ٹی ایم مشین ضرور نظر میں آئے گی جس پر لکھا ہوگا کہ یہ دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم مشین ہے۔
کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ پاکستان بھر کا سفر کیا مگر خنجراب تک نہیں گئے تو 'اگر یہ نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا'۔
یہ بھی پڑھیں : خنجراب پاس: یہ نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا
اگست
14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع دیوسائی کا شمار دنیا کا تبت کے بعد سطح مرتفع پر بلند ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3 ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ دیوسائی اسکردو سے ڈیڑھ گھنٹے اور استور سے تقریباً 5 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے دامن میں وسیع و غریض دیوسائی کے میدان سال کے 8 مہینے برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔
دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے 'دیو' اور 'سائی' یعنی 'دیو کا سایہ۔' ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔
آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔
یہاں کی مزید تصاویر یہاں دیکھیں : دیوسائی کا دیومالائی حسن
ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔
دیوسائی کراس کرنے کے لیے سب سے اچھا وقت جولائی اور اگست ہے، کیونکہ ان دنوں میں یہ پلیٹو لش سبزے اور رنگ برنگے خوبصورت پھولوں سے بھرا ہوتا ہے، جبکہ شیوسر جھیل کو دیکھنے کا تجربہ آپ کو مسحور کردے گا، جس کے پیچھے نانگا پربت کا نظارہ مہبوت کردینے والا ہے۔
اس موسم میں وہاں جانے کا ایک اور فائدہ آپ کو ناران، بابوسر ٹاپ اور ارگرد کے دیگر مقامات کی سیر کا موقع ملنا بھی ہے کیونکہ یہ ان علاقوں میں گھومنے کے سیزن کا عروج ہوتا ہے۔
دیوسائی دیکھنے کے بعد آپ اسکردو کی جانب جا سکتے ہیں ، جہاں اپر اور لوئر کچورہ جھیلوں کے ساتھ شنگریلا ریزورٹ کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ستمبر
اگر آپ اپنے ملک میں خزاں کے دلکش رنگوں کو دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہیں تو آزاد کشمیر کی وادی نیلم کا رخ کریں۔
وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں۔
اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وادی سے بہتر مقام شاید ہی کوئی اور ہو۔
اس وادی کا صدر مقام اٹھ مقام ہے اور یہ وادی دو تحصیلوں اٹھ مقام اور شاردا پر مشتمل ہے، جن میں سے شاردا کو ٹورسٹ ولیج بنایا گیا ہے اور وہاں قیام پر آپ کو لوڈشیڈنگ کا سامنا بھی نہیں ہوگا۔
مظفرآباد سے شاردا تک سڑک ٹھیک حالت میں موجود ہے مگر اس سے آگے ٹوٹا پھوٹا، بل کھاتا، کچا، اور کہیں سے پتھریلا جیپ روڈ ہے جو آخری گاؤں تاؤبٹ تک جاتا ہے۔
تاؤبٹ تک سفر مشکل تو ہے مگر وہاں کی خوبصورتی بھی دنگ کردینے والی ہے۔
وادی نیلم میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 سے 30 چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں اور وہاں بے شمار ایسے علاقے موجود ہیں جنہیں مقامی لوگوں کے مطابق بہت ہی کم اور بعض مقامات کو شاید ہی کسی ہم وطن نے تسخیر کیا ہو۔
اکتوبر
یہ وہ مہینہ ہے جس میں صحرائے چولستان میں آوارہ گردی، بہاول پور کے محلات کی سیر اور لال سوہانرا نیشنل پارک کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہئے کیونکہ جنوبی پنجاب میں ان ایام میں موسم نہ تو زیادہ گرم ہوتا ہے اور نہ زیادہ سرد۔
اس علاقے میں سب سے پہلے تو آپ کو ہیڈ پنجند کو دیکھنا چاہئے۔
ہیڈ پنجند پاکستان کی ایسی اہم اور خوبصورت دریائی گزرگاہ ہے، جہاں پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی آپس میں مل کر ایک دریا کا روپ اختیار کرتا ہے۔دریاؤں کا یہ ملاپ ایک خوبصورت اور انوکھا منظر تخلیق کرتا ہے اور اس نظارےکی کشش دور دور سے لوگوں کو کھینچ لیتی ہے۔
ہیڈ پنجند سے آگے چلیں تورصحرائے چولستان کا قلعہ دراوڑ بھی آپ کی منزل ہونی چاہئے۔
احمد پور شرقیہ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر عالمی شہرت یافتہ قلعہ دراوڑ موجودہے، قلعہ دراوڑ کی 100 فٹ بلند بارعب دیواروں میں 40 برج بنے ہوئے ہیں جو اسے ایک عجیب و غریب منفرد ساخت دیتے ہیں۔ قلعے سے ملحق شاہی قبرستان اور سنگ مرمر کی ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔مسجد کے ساتھ ہی ایک قدرتی تالاب ہے جس میں آپ قلعے اور مسجد کا خوبصورت عکس دیکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی دیکھیں : شہر بہاولپور: ایک رازدان
یہاں سے آگے شہر بہاول پور ایسا مقام ہے جس کی خوبصورتی اور شان و شوکت دیکھنے والوں کو پہلی ہی نظر میں گرفتار کر لیتی ہے۔
بہاول پور قدیم و جدید طرز ہائے تعمیر کا شاہکار ہے۔ خصوصاً شاہی عمارات و محلات اسلامی، اطالوی اور انگریزی طرز تعمیر کے شاہکار ہیں۔ ریاستی دور کی عظیم الشان عمارات میں گلزار محل، نور محل، دولت خانہ، وکٹوریہ ہسپتال، سینٹرل لائبریری، عید گاہ، مسجد الصادق اور جامعہ اسلامیہ کی بارعب و پر جلال عمارات قابل دید ہیں۔
بہاول پور شہر سے 35 کلو میٹر دور لال سوہانرا نیشنل پارک ملک کے وسیع ترین قومی پارکوں میں شامل ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے پہلا نیشنل پارک ہے جسے 1972 ء میں قائم کیا گیا تھا۔ خوبصورت تھل نہر لال سوہانرا پارک کے درمیان میں سے گذرتی ہے۔یہ پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے کہ جہاں ریگستان کے ساتھ ساتھ جھیلیں اور سرسبز و شاداب علاقے بھی ہیں۔
نومبر
اگر آپ سردی سے پریشان رہتے ہیں تو بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی سیر آپ کو ضرور پسند آئے گی۔
نومبر میں کراچی سے آگے مکران کوسٹل ہائی وے پر آپ متعدد ساحلی علاقوں کی سیر کرسکتے ہیں بلکہ اس خوبصورت سڑک کی سیر بھی ایک منفرد تجربہ ثابت ہوگی۔
اس موسم میں سمندر میں کشتی رانی کا تجربہ بھی منفرد ہوتا ہے کیونکہ لہریں زیادہ تند نہیں ہوتیں اور کشی کی سیر کرنے کا اصل مزہ محسوس ہوتا ہے۔
کراچی سے 190 کلومیٹر دور یہ ہنگول نیشنل پارک میں آپ کو چار مختلف قسم کے ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں۔
یہ پارک پہاڑ، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ سیلابی میدان وغیرہ میں بٹا ہوا ہے، ہنگول ندی نیشنل پاک سے ہو کر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدو جزر والا دہانہ بناتی ہے جو کئی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں اور دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔
اِسی طرح اس پٹی کا سب سے خوبصورت ساحلی مقام کنڈ ملیر ہے جہاں ایک سنہری ریت والا صحرا اور نیلا سمندر آپس میں مل کر دلفریب منظر تخلیق کرتے ہیں۔
اس ہائی وے پر آپ گوادر تک جاکر مستقبل کے اس صنعتی حب کو دیکھ سکتے ہیں جو کہ سمندر میں گھرا ہوا ایک جزیرہ نما شہر ہے۔
یہاں ساحل پر کوہِ باتیل نامی پہاڑ پر کھڑے ہوکر آپ اپنے سامنے سمندر میں خلیجی ممالک کی طرف جانے والے بڑے بڑے بحری جہازوں کے گزرتے ٹریفک کا خوبصورت نظارہ کرسکتے ہیں۔
دسمبر
چترال کی وادی کالاش میں ہر سال دسمبر میں ایک میلے چاوماوس (جشن سرما) کا انعقاد ہوتا ہے جس کو دیکھنے کا موقع کسی کسی کو ہی ملتا ہے کیونکہ اس موسم میں وہاں جانے کی ہمت کرنا ہی بڑی بات ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے کالاش کا سب سے 'خفیہ تہوار' بھی کہا جاتا ہے۔
موسم سرما (چاو ماوس ) کے تہوار کا آغاز مندر کے برابر میں موجود صنوبر کی جھاڑیوں سے گھرے پیچیدہ ٹاور سے ہوتا ہے، جہاں ایک شخص ٹاور پر چڑھ کر وہاں لگی آگ کے گولے کو ترتیب دیتا ہے، اس دوران تمام لوگوں کو ہر طرح کی روشنی کرنے سے روکا جاتا ہے۔
چاو ماس کے تہوار کے موقع پر تمام لوگ مل کر رات کے وقت رقص کرتے ہیں جب کہ دن میں مرد و خواتین ایک بڑے میدان میں جمع ہوتے ہیں، جہاں جنسی تفریق کے بغیر مرد و خواتین کے درمیان رقص اور زور آزمائی سمیت دیگر مقابلے منعقد ہوتے ہیں، میدان میں موجود تمام لوگوں نے روایتی لباس زیب تن کیے ہوتے ہیں۔
تو اس سال برفباری اور سرد موسم سے لطف اندوز ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کالاش کے اس تہوار کو دیکھنے کے لیے وقت نکالیں جو آپ کے لیے یادگار تجربہ ثابت ہوگا۔
لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ @vem_pire ہے
تبصرے (34) بند ہیں