• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

چیف جسٹس کا سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم

شائع December 31, 2018 اپ ڈیٹ January 3, 2019

اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں موجودہ وزیرِاعلیٰ سندھ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر کو طلب کیا۔

چیف جسٹس نے وفاقی کابینہ کو وزیراعلٰی سندھ، موجودہ وزرا، سابق صدر، وزرا اور دیگر سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ حیرانی کی بات ہے کہ ایک موجودہ وزیرِ اعلیٰ کا نام ہی ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیرِاعلیٰ کا نام ای سی ایل میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک وزیرِاعلیٰ کو بیرونِ ملک سفر کرنا پڑتا ہے، ان کا نام ای سی ایل میں شامل کر کے ان کی ساکھ پر دھبہ لگایا گیا۔

چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے متعلقہ وفاقی وزیرِ کو 15 منٹ کے اندر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ اس طرح وزیرِاعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کے بعد آئندہ چیِئرمین نیب یا پھر اٹارنی جنرل کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 4 وزیروں کے بھی نام ای سی ایل میں ڈال دیتے ہیں تاکہ توازن برقرار ہوجائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو ابھی صرف ایک رپورٹ ہے جس کا عدالت نے جائزہ لینا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک کو پُرامن رہنے دیا جائے، ٹی وی پر بیٹھ کر آگ نہ لگائی جائے۔

سماعت کے دوران آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں جواب جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا جائے، تاہم عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں جواب جمع کروانے کا وقت دے دیا۔

اتنا میں نے کمایا نہیں جتنا عدالت مانگ رہی ہے، ملک ریاض کا چیف جسٹس سے مکالمہ

سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ آپ کا نام ہر جگہ کیوں آجاتا ہے جس پر ملک ریاض نے جواب دیا کہ میں پاکستان میں کام کر رہا ہوں نام تو آئے گا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ انہیں لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن کے نام جعلی اکاؤنٹس کیس میں آئے ہیں۔

ملک ریاض نے عدالت سے کہا کہ میں نے 2005 میں بحریہ آئیکون کے لیے زمین خریدی تھی اور اس وقت صوبے یا وفاق میں آصف علی زدردای یا ان کی جماعت کی حکومت نہیں تھی بلکہ پورے ملک میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو نیب کی جانب بھیج دیتے ہیں۔

انہوں نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کہا تھا کہ آپ ایک ہزار ارب روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروادیں، تو معاملات نمٹا دیتے ہیں جس پر ملک ریاض نے کہا کہ اتنا تو میں نے گزشتہ 2 دہائیوں میں کمایا نہیں ہے جتنا عدالت مانگ رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اربوں روپے کی جائیدادیں بنائی ہیں، چلیں پھر 500 ارب ہی دے دیں کچھ پیسے تو واپس کریں جبکہ جائیدادیں اور علی ریاض کا گھر بھی آپ لے لیں۔

ملک ریاض نے بحریہ آئیکون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکر کریں میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ 66 منزلہ عمارت تعمیر کی۔

ای سی ایل میں سیاست دانوں کے نام ڈالے جانے پر میڈیا میں تبصرے، عدالت برہم

جعلی اکاؤنٹس کیس میں 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے پر میڈیا میں ہونے والے تبصروں پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے، کمنٹس اور تجزیے دیے گئے۔

عدالت نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز پر اینکر پرسن کامران خان کے پروگرام کی ویڈیو طلب کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔

شہریار آفریدی عدالت میں پیش

وقفے کے بعد کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل میں کیسے ڈالا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا گیا تھا، یہ تمام الجھن جے آئی ٹی کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے شہریار آفریدی کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سندھ میں گورنر راج کی جو باتیں ہورہی ہیں، وہ آئین کے مطابق ہونی چاہیئں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر راج کا تاثر میڈیا دے دہا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گورنر راج بغیر سوچے سمجھے کیسے لگا سکتے ہیں، گورنر راج کا جواز دینا ہوگا۔

عدالت نے وفاقی کابینہ کو حکم دیا کہ وزیراعلٰی سندھ، موجودہ وزرا سابق صدر، وزرا اور دیگر سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس وقت بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جب دھمکیاں آرہی تھیں اور آج بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، حکومت کو ای سی ایل کے حوالے سے واضح بیان دینا چاہیے۔

مراد علی شاہ باہر جانا چاہتے ہیں تو درخواست دیں نام ای سی ایل سے نکلوادیں گے، چیف جسٹس

سماعت کے دوران جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ ٹھٹھہ شوگر مل 11 کروڑ 20 لاکھ میں فروخت کی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کی شوگر مل تھی؟

سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ یہ شوگر مل بینک سے قرض لے کر خریدی گئی۔

جے آئی ٹی کے سربراہ نے ای سی ایل سے متعلق بات کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 'جے آئی ٹی نے نیک نیتی سے ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کروائے'۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں کہا کہ وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کبھی علم ہی نہیں تھا کہ ان کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق تحقیقات ہورہی ہے، جبکہ انہیں تحقیقات کے لیے بلایا بھی نہیں گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر مراد علی شاہ کو ملک سے باہر جانا ہے تو وہ درخواست دیں، عدالت ان کا نام ای سی ایل سے نکلوادے گی۔

چیف جسٹس نے جے آئی ٹی سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم صرف اتنا کام کرے جتنا اس کو مینڈیٹ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو اس کی سرزنش بھی کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کی سفارش جے آئی ٹی نے کی لیکن تاثر یہ دیا گیا کہ یہ حکم عدالت عظمیٰ نے دیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملزمان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی عدالت نے آبزرویشن دی تھی؟ آئندہ کابینہ اجلاس کے دوران اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

کامران شاہد، کامران خان کے پروگرامز کا جائزہ لینے کا حکم

سماعت کے دوران چیئرمین پیمرا عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے تو آپ کو تگڑا بندہ سمجھ کر چیئرمین پیمرا لگایا تھا، آپ تو ٹھس نکلے۔

انہوں نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عدالت کے فیصلے پڑھے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جس نے مزاحمت کرنی ہے کرے آپ کا کام قانون کو ریگولیٹر کرنا ہے۔

چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ پیمرا نے 20 دسمبر کو تمام ٹی وی چینلز کو عدالتی حکم کے نکات بھیج دیے تھے جبکہ شو کاز نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔

چیف جسٹس میاں ثابق نثار نے چیئرمین پیمرا کو کامران خان اور کامران شاہد کے ٹیلی ویژن پروگراموں کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ 28 دسمبر کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کیے گئے جن میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ جن بڑی شخصیات کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے ان میں موجودہ وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیرِاعلیٰ قائم علی شاہ اور معروف بزنس مین ملک ریاض کا نام شامل ہے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ درج ہوا تو اس کا بھی دفاع کر سکتا ہوں، زرداری

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ بیکنگ کورٹس سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور 7 جنوری تک ضمانت پر ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024