• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
— فوٹو، شٹراسٹاک
— فوٹو، شٹراسٹاک
شائع December 31, 2018

سال 2018 کا اختتام ہونے کو ہے اور سب ہی کو ہمیشہ کی طرح نئے سال میں کچھ اچھا کرنے اور اس کو اپنی کامیابی کا سال بنانے کی خواہش ہوتی ہے۔

اس کے حصول کے لیے محنت تو ہم سب کرتے ہیں لیکن اپنی 'جدوجہد' کو کامیابی سمجھنا ہی اصل معرکہ ہے۔

سال بھر میں ہم سب ہی کامیابیاں سمیٹتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو انسانی فطرت میں موجود آگے بڑھنے کا عنصر کسی کو یہ بات پوری طرح تسلیم کرنے نہیں دیتا کہ 'ہاں، میں اس سال کامیاب ہوگیا'۔

اگر پاکستان میں تعلیمی و سائنسی میدان میں کوئی خاطر خواہ 'کامیابی' دکھائی نہیں دی۔

البتہ باقی دنیا میں پچھلے سال کی طرح ان سال بھی بہت سی دریافت اور ایجادات ہوئیں اور ساتھ ہی ساتھ انسان کے لیے آسمان کی گہرائیوں میں جانے کے نئے دروازے بھی کھلتے دکھائی دینے لگے ہیں۔

سال 2018 پر ایک نظر دوڑاتے ہوئے چند دریافتوں کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:

کینسر کے اثرات سے پہلے تشخیص

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

دنیا بھر میں کینسر ایسا مرض ہے جس سے ہر سال لاکھوں لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کینسر کے علاج کے لیے کچھ کینسر ہسپتال، جن میں شوکت خانم میموریل ہسپتال سر فہرست ہے، موجود ہیں۔ ان میں مریضوں کی جانب سے یہ شکایت اکثر سامنے آتی ہے کہ ان کے مریض کا موثر علاج نہیں کیا جاتا اور ساتھ ہی اس سب کا ذمہ ڈاکٹروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

یہاں عام عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کینسر کے کچھ مراحل ہوتے ہیں اور اگر انسان اس کے ابتدائی مرحلے میں ہو تو یہ مرحلہ قابل علاج ہوتا ہے اور مریض کو بچایا جا سکتا ہے لیکن اگر مریض آخری مرحلے میں ہو تو کینسر اس وقت تک انسان کے پورے جسم میں اس طرح بسیرا کرچکا ہوتا ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس کوئی علاج باقی نہیں رہتا جس وجہ سے وہ جواب دے دیتے ہیں۔

یہ بات انتہائی عام ہے کہ انسانی جسم میں کینسر کے اثرات اس کے ابتدائی مرحلے میں شاز و نادر ہی ظاہر ہوتے ہیں اور بیشتر اوقات کینسر کی تشخیص اس وقت ہو پاتی ہے جب کینسر اپنے آخری مرحلے پر ہوتا ہے، لیکن جنوری2018 میں سائنسدانوں نے ایک ایسا خون کا ٹیسٹ متعارف کروایا ہے جو کچھ خاص نو دریافت شدہ پروٹینز اور ڈی۔ این۔ اے۔ کی خرابیوں کو جانچتا ہے۔

یہ وہ پروٹینز اور ڈی۔ این۔ اے۔ کی خرابیاں ہیں جو اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کینسر انسان کے جسم میں اپنے ڈیرے جما رہا ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کی قیمت کم سے کم رکھنے کی کوشش کی گئی تا کہ یہ عام انسان کی پہنچ میں ہو لیکن اس کے باوجود اس ٹیسٹ کی قیمت 500 ڈالرز یعنی پاکستانی تقریبا ساٹھ ہزار روپے رکھی گئی۔ اس ٹیسٹ کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اثرات (جو کہ متعدد بار آخری کینسر کے مرحلے میں ظاہر ہوتے ہیں) ظاہر ہونے سے پہلے کینسر کے ہونے کی تشخیص کرسکتا ہے اور کینسر کے بروقت علاج سے اس کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

'فرنچ فرائز' میں موجود کیمیکل بال اگانے کے لیے مفید

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں گھر میں پکے خانے سے زیادہ ریسٹورنٹ میں فاسٹ فوڈ کھانے کا زیادہ شوق ہے۔ فاسٹ فوڈ کے شوقین اس کا لطف تو اٹھاتے ہیں لیکن فروری2018 میں سائنسدانوں نے فاسٹ فوڈ کے ایک انوکھے فائدے کا اعلان کیا جس کا علم اکثر افراد کو نہیں۔

سائنسدانوں نے 'فرنچ فرائز' میں استعمال ہونے والے تیل میں موجود ایک ایسا کیمکل ڈھونڈھ نکالا جسے بالوں کی ٹرانسپلانٹ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ہم سب سالوں سے میکڈونلڈ اور دیگر فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس سے کھانا کھاتے آرہے ہیں لیکن ہم اس حقیقت سے ناواقف تھے۔

ریسرچ کے دوران سائنسدانوں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ کیا یہ کیمکل، جس کا نام 'ڈائمیتھائل پولی سلوزین' ہے، کسی اور کیمکل کی مدد کے بغیر بال اگانے میں مدد کرسکتا ہے؟ تو اس کا جواب منفی نکلا اور اس سے یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ ہم جتنا بھی فاسٹ فوڈ کھا لیں، ان سے ہمارے بالوں کے اگنے کا عمل تیز نہیں ہوگا۔

خلاباز اسکاٹ کیلی اپنے جڑواں بھائی سے مختلف ہوگئے

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

امریکی خلائی ادارے ناسا نے2015 میں ایک ریسرچ کا آغاز کیا تھا جس میں انہوں نے دو جڑواں بھائیوں، مارک کیلی اور اسکاٹ کیلی، کو لیا اور اس ریسرچ کو "دی ٹوئن اسٹڈی" کا نام دیا گیا۔

یہ ناسا کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ یہ دونوں خلاباز جڑواں بھائی تھے۔ ریسرچ کے لیے خلاباز اسکاٹ کیلی کو سال2018 میں عالمی خلائی سٹیشن میں ایک سال کے لیے بھیجا گیا جبکہ انکے بھائی زمین پر ہی رہے۔ اس ریسرچ کا اصل مقصد بنا کشش ثقل والے ماحول میں انسانی جسم پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔

سکوٹ کیلی جب خلا میں 340 دن مکمل کرکے زمین پر واپس آئے تو سائنسدانوں نے ان کے بہت سے ٹیسٹ کئے اور 2018 میں ناسا نے پہلی پریس ریلیز جاری کی جس کے بعد انٹرنیٹ پر یہ بات وائرل ہوگئی کہ ان دونوں بھائیوں کا ڈی۔ این۔ اے۔ ایک جیسا نہیں رہا۔

واضح رہے کہ ڈی۔ این۔ اے۔ ایک ایسا کیمیکل ہے جو ہر انسان کے خلیوں میں پایا جاتا ہے اور اس میں انسان کے رنگ روپ، قد اور جنس وغیرہ کیا ہوگی اس سب کے بارے میں معلومات ہوتی ہے۔ یہ ہر انسان کا دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کی شکل و صورت دوسرے سے مختلف ہے لیکن جڑواں (ہم شکل) انسانوں میں ڈی۔ این۔ اے۔ بھی تقریبا ایک سا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی شکلیں آپس میں ملتی ہیں۔

ان دونوں جڑواں بھائیوں کے ڈی۔ این۔ اے۔ میں فرق کی خبر وائرل ہوتے ہی دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس خبر پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوسری پریس ریلیز جاری کی جس میں یہ بات واضح کی کہ پہلی پریس ریلیز میں ایسا کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ان دونوں بھائیوں کے "ڈی این اے" میں واضح تبدیلی آئی ہے بلکہ 'ڈی این اے انسانی جسم میں خود کو کس طرح ظاہر کرتا ہے'، اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

ناسا نے مزید یہ بھی بتایا کہ خلا میں رہتے ہوئے خلاباز اسکاٹ کیلی میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں، ان میں سے93 فیصد دوبارہ سے پہلے جیسی ہوگئیں لیکن 7 فیصد جینیاتی تبدیلیاں واقعی اسکاٹ کے جسم پر اثر انداز ہوئی ہیں جن میں جسم کے حفاظتی پروٹینز، ڈی این اے بنانے والی پروٹینز، ہڈی بنانے والی پروٹینز وغیرہ شامل ہیں۔ ناسا نے ان جینیاتی عناصر، جو خلا میں جانے کی وجہ سے تبدیل ہوگئے، کا نام "اسپیس جینز" رکھا ہے۔ اس سے پہلے خلا کے انسانی جسم پر ہونے والے اثرات میں ان اسپیس جینز پر روشنی نہیں ڈالی گئی تھی۔

بڑھاپے میں آنکھوں کی روشنی میں کمی کا مؤثر علاج

فوٹو بشکریہ مورفیلڈز آئی ہاسپٹل
فوٹو بشکریہ مورفیلڈز آئی ہاسپٹل

دنیا بھر میں بڑھاپے کی وجہ سے نظر میں آنے والی کمزوری بہت عام ہے اور کئی بزرگ حضرات، جو پڑھنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں، وہ اپنی اس معذوری سے بے حد پریشان ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں اس عمر میں بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ اب تک ڈاکٹر بھی بینائی میں کمی کا علاج کرنے سے قاصر تھے لیکن اب سائنسدانوں نے اس کا حل بھی تلاش کرلیا ہے۔

مارچ2018 میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے یورپ میں80 سالہ مرد اور60 سالہ خاتون، جن کی بینائی اس حد تک کم ہوچکی تھی کہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے تھے، کی آنکھوں کا آپریشن کرکے کچھ سٹیم خلیات کو آنکھوں میں لگا دیا جس کے بعد ان دونوں کی بینائی ایک بار پھر بہت زیادہ بہتر ہوگئی۔اب یہ دونوں مریض اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں اور کتابیں بھی پڑھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سٹیم خلیات وہ خلیے ہیں جو حمل کے فورا بعد ماں کے پیٹ میں 'ایمبریو' میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ خلیے اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان میں انسانی جسم کے کسی بھی حصے کو بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے اگر سٹیم خلیات کو معذور آنکھوں میں موجود کمزور خلیوں کے ساتھ نصب کیا جائے تو وہ سٹیم خلیے آنکھوں کے خلیوں کی شکل اختیار کرکے ان کی کمی کو پورا کردیتے ہیں جس سے مریض کی بینائی واپس آجاتی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ قریباً 5 سالوں میں دنیا کے باقی مریضوں کی بینائی واپس لانے کے کام آئے گا۔

گرم خون والی مچھلی

فوٹو بشکریہ این او اے اے
فوٹو بشکریہ این او اے اے

ہمیں چھوٹی کلاسوں میں یہ بات بتائی جاتی رہی ہے کہ مچھلیاں ٹھنڈے خون والی جاندار ہیں جبکہ انسان کا شمار گرم خون والے جانداروں میں ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سائنس میں ٹھنڈے خون والے جاندار ایسے جانداروں کو کہا جاتا ہے جن کے جسم کا اپنا کوئی ایک درجہ حرارت نہیں ہوتا یعنی ان کے جسم کا درجہ حرارت سردیوں میں سرد جبکہ گرمیوں میں گرم ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس گرم خون والے جاندار ایسے جاندار ہوتے ہیں جن کے جسم کا ایک مخصوص درجہ حرارت ہوتا ہے۔

مچھلیاں ان جانداروں میں سے ہیں جو پانی کے درجہ حرارت کے حساب سے اپنے جسم کا درجہ حرارت بھی بدل لیتی ہیں لیکن2018 میں کیلیفورنیا کے نوا ساؤتھ ویسٹ فشریز سائنس سینٹر کی ایک ٹیم نے ایسی مچھلی دریافت کی جو باقی مچھلیوں سے مختلف ہے۔ اس مچھلی کا نام "اپاہ یا مون فش" ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ اپنے جسم کو ایک مخصوص درجہ حرارت پر رکھ سکے۔

اس مچھلی کے جسم کا درجہ حرارت اپنے ماحول سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہتا ہے اور یہ پانی میں500 میٹر کی گہرائی تک جاسکتی ہے۔ اس مچھلی کو اپنی اس صلاحیت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے جسم کو گہرے پانی میں بھی گرم رکھ کر دوسری مچھلیوں کا آسانی سے شکار کرسکتی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ مچھلی سالوں سے دنیا بھر میں کھائی جارہی ہے لیکن اس مچھلی کی اس خوبی کے بارے میں کسی کو علم نہ تھا، خیال رہے کہ 2015 میں بھی ایسی ہی ایک گرم خون رکھنے والی مچھلی دریافت کی گئی تھی۔

زحل کے برفیلے چاند پر زندگی کے امکانات

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

ایک سوال جس کی وجہ سے ہیں سائنسدانوں ہمیشہ سے بےچین دکھائی دیے ہیں وہ سوال یہ ہے کہ 'کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا اور بھی کوئی مخلوق اس کائنات میں موجود ہے؟'۔

اسی وجہ سے نظام شمسی کے مختلف سیاروں کی طرف خلائی مشن بھیجے جاتے ہیں تاکہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جاسکے۔

سال2018 میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کسینی خلائی گاڑی، جو سال1997 میں سیارہ زحل کی طرف بھیجی گئی تھی، سے حاصل شدہ ڈیٹا پر ریسرچ کی جس سے انتہائی حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔

آج ہم یہ بات جانتے ہیں کہ زندگی کے لیے صرف تین چیزوں کی موجودگی لازمی ہے جن میں سے پہلی چیز پانی، دوسری چیز توانائی کا کوئی ذریعہ اور تیسری چیز، جو اب تک دریافت نہ کی گئی تھی، نامیاتی مالیکیولز ہیں۔

گزشتہ سال امریکی خلائی ادارے ناسا نے یہ اعلان کیا تھا کہ سیارہ مشتری اور سیارہ زحل کے دو چاند ایسے ہیں جن پر پانی موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر زندگی موجودگی ہوسکتی ہے لیکن سائنسدانوں کی اس ٹیم نے زحل کے برفیلے چاند انسلادس پر کھولتے ہوئے پانی کے فواروں میں نامیاتی مالیکیولز کی بھاری مقدار دیکھ کر اس بات کی طرف ایک اور قدم اٹھایا ہے کہ اس چاند پر زندگی ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

پاکستان کے لیے اعزاز کی بات یہ ہے کہ اس ٹیم کی سربراہی پاکستانی جرمن سائنسدان ڈاکٹر نزیر خواجہ کررہے تھے جن کا تعلق پنجاب میں موجود وزیرآباد سے ہے۔

'گھوسٹ پارٹیکلز'

فوٹو بشکریہ سائنس کمیونیکشن لیب
فوٹو بشکریہ سائنس کمیونیکشن لیب

سائنسدان برسوں سے ان ذرّات کی تلاش میں لگے ہویے تھے جو ڈرا دینے والی خصوصیات رکھتے ہیں۔

یہ ایسے پارٹیکلز ہیں جو ہر طرح کے مادے میں سے گزر جاتے ہیں چاہے وہ انسان ہو یا ایک بڑا ستارہ۔ ان پارٹیکلز کو سائنسی اصطلاح میں "نیوٹرینو" کہا جاتا ہے۔ ان میں موجود مادے کی مقدار بہت ہی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب ہی ہوتی ہے۔

پہلے سائنسدانوں کو بس اتنا ہی پتا تھا کہ یہ پارٹیکلز سورج میں ہونے والے کیمیائی عمل یا کسی ستارے کے پھٹنے کی وجہ سے زمین کی طرف آتے ہیں لیکن سال2018 میں یہ پارٹیکلز جنوبی قطب (انٹارٹیکا) پر موجود "آئس کیوب لیب" میں پائے گئے۔ یہ نیوٹرینو پارٹیکلز کسی بھی بڑی کہکشاں کے مرکز میں موجود تیزی سے گھومتے بلیک ہول کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی کہکشاؤں کو "بلیزار" کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ یہ کھکشائیں ان پارٹیکلز کو ایک تیز رفتار 'بیم' کی صورت میں خارج کرتی ہیں اور اس بلیزار کی بیم کا رخ ہماری زمین کی طرف ہے۔

نظامِ شمسی سے باہر پہلا چاند

فوٹو بشکریہ اسپیس ڈاٹ کام
فوٹو بشکریہ اسپیس ڈاٹ کام

یہ بات انتہائی غیر معمولی ہے کہ جہاں سائنسدانوں کو کسی دوسرے ستارے کے گرد سیارہ تلاش کرنے میں اتنی تگ و دو کرنا پڑتی ہے وہاں کسی ستارے میں گرد چکر لگاتے سیارے کے گرد اس کے چاند کی تلاش انتہائی مشکل لیکن معرکہ خیز کام ہے۔

سائنسدانوں کی ٹیم نے بتایا کہ جب وہ کیپلر خلائی دوربین سے حاصل شدہ ڈیٹا کی جانچ کر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ جب یہ سیارہ اپنے ستارے کے سامنے سے گزرا تو روشنی میں کمی تو واقع ہوئی لیکن اس کے گزر جانے کے بعد بھی ہلکی سی کمی واقع ہوئی جس سے اس ٹیم کو شک ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ اس سیارے کا اپنا چاند ہو۔

واضح رہے کہ اس ستارے کے گرد سائنسدانوں کو صرف ایک ہی سیارہ دریافت ہوا تھا۔ یہ سیارہ نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے، مشتری سے کی گنا بڑا ہے اور اس کا یہ نو دریافت شدہ چاند حجم میں نظام شمسی کے سیارہ نیپچون کے برابر ہے۔


سید منیب علی فورمن کرسچن کالج یونیورسٹی، لاہور میں بی. ایس. فزکس کے طالب علم، اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں.انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے. ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @muneeb227


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔