قومی ٹیم اور دورہ جنوبی افریقہ کی سیاہ تاریخ
پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے سب سے مشکل دورے پر افریقہ پہنچ چکی ہے۔ ویسے تو ہم آسٹریلیا میں بھی تقریباً 20 سال سے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکے تاہم جتنا مشکل ہمارے کھلاڑیوں کے لیے دورہ افریقہ ہوتا ہے دورہ آسٹریلیا اس کے سامنے کچھ نہیں۔
اگر ماضی میں جائیں تو افریقہ ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے والی تیسری ٹیم تھی تاہم ان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، یعنی نسل پرستی کا۔ جنوبی افریقہ 1970ء تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلتی رہی لیکن سوائے نیوزی لینڈ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف کرکٹ نہیں کھیلتے تھے، حتی کہ اس نسل پرستانہ روش کی وجہ سے ان ٹیموں نے بھی افریقہ سے منہ موڑ لیا۔
اپریل 1992ء میں افریقہ کی دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی ہوئی اور پاکستان کی ٹیم پہلی مرتبہ جنوری 1995ء میں افریقہ کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ یہ ایک میچ پر مشتمل سیریز تھی جو یکطرفہ مقابلے کے بعد افریقہ نے باآسانی جیت لی۔ یہاں سے جنوبی افریقہ کی برتری کا وہ دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ پاکستان کی ہار جیت کا اتنا بُرا تناسب کسی ملک کے خلاف نہیں جتنا افریقہ کے خلاف ہے۔ افریقہ کو تو ہم اپنے ہوم گراؤنڈز پر بھی صرف 2 میچ میں ہی چت کرسکے ہیں اور دونوں ملکوں کے خلاف اب تک کھیلی گئیں 10 سیریز میں ہم صرف ایک بار سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، افریقہ 6 مرتبہ سرخرو ہوا اور 3 سیریز ڈرا پر ختم ہوئی ہیں۔
ہم آسٹریلیا کو تو ایک سے زائد مرتبہ کلین سوئپ کرچکے ہیں مگر افریقہ کے خلاف آج تک صرف 4 ٹیسٹ میچز ہی جیتنے میں کامیاب رہے ہیں، اور مقابلے میں ہمیں 12 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اگر انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو ایک طرف رکھا جائے تو ہر ملک کے خلاف ہمارا پلڑا بھاری ہے۔ اب تک پاکستان 5 بار افریقہ کا دورہ کرچکا ہے۔ وہاں کب کب کیا کیا ہوا، آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
جنوری 1995
واحد ٹیسٹ
یہ جنوبی افریقہ میں پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں دونوں ٹیموں کے مابین صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ پاکستان کے کپتان سلیم ملک تھے جبکہ سعید انور، عامر سہیل اور انضمام جیسے مستند بلے باز اس ٹیم میں شامل تھے۔ باؤلنگ کے لئے وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی خدمات بھی موجود تھیں۔
افریقہ کی ٹیم کی کمان ہنسی کرونیے کے ہاتھ تھی۔ اگر ہنسی کرونیے میچ فکسر نا ہوتے تو کھیل کی تاریخ کے بڑے کپتانوں میں سے ایک گنے جاتے۔ گیری کرسٹن، جونٹی رہوڈز اور ڈیرل کلینن جیسے بلے باز افریقی ٹیم میں شامل تھے۔ اگر باؤلنگ کی بات کی جائے تو ایلن ڈونلڈ اور فینی ڈی ویلئیرز اس باؤلنگ اٹیک کی قیادت کر رہے تھے۔
افریقہ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 460 رنز بنا ڈالے۔ اس اننگ میں پاکستانی باؤلرز نے بھی خوب فیاضی کا مظاہرہ کیا اور 64 ایکسٹراز دے ڈالے۔ یہ آج بھی پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ فاضل رنز کا ایک ریکارڈ ہے۔ ان 64 رنز میں 36 نو بالز کے رنز بھی شامل تھے، اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔
مزید پڑھیے: اسٹیڈیم کہانی: پاکستان کے مشہور کرکٹ میدان
جواب میں سوائے کپتان سلیم ملک کے کوئی بلے باز ڈی ویلئیرز کے سامنے نا ٹھہر سکا۔ سلیم ملک نے 99 رنز بنائے اور آخر میں 41 رنز بناکر وسیم اکرم نے ان کا ساتھ دیا اور قومی ٹیم کی کچھ لاج رکھی۔ اگرچہ 230 رنز بنانے والی قومی ٹیم کو فالو آن کا سامنا ہوا تھا مگر اس کے باوجود افریقہ نے دوبارہ بلے بازی کا فیصلہ کیا اور پاکستان کے لئے 490 رنز کا ہدف کھڑا کردیا۔ دوسری اننگ میں صورتحال مزید سنگین ہوگئی اور پوری ٹیم محض 165 رنز بناکر پویلین لوٹ گئی۔ یوں قومی ٹیم کو 325 رنز سے شکست ہوئی۔
فروری-مارچ 1998
اس بار ٹیسٹ سیریز 3 میچوں پر مشتمل تھی۔ عامر سہیل کی قیادت میں ایک مضبوط دستہ جنوبی افریقہ پہنچا تھا۔ باؤلنگ اٹیک کو بلاشبہ ورلڈ کلاس کہا جاسکتا ہے جس میں وقار یونس، وسیم اکرم، شعیب اختر، ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے باؤلرز اور اظہر کی صورت زبردست آل راونڈر قومی ٹیم کو دستیاب تھے۔ یاد رہے کہ یہ اظہر محمود کے عروج کا زمانہ تھا۔ بیٹنگ میں عامر سہیل، سعید انور اعجاز احمد اور انضمام الحق موجود تھے جبکہ محمد یوسف کی یہ پہلی ٹیسٹ سیریز تھی۔
دوسری طرف افریقہ کی ٹیم بھی کم نہیں تھی۔ گیری کرسٹن اور ڈیرل کلینن کے ساتھ جیک کیلس اور ہرشل گبز جیسے نوجوان بھی بیٹنگ لائن کا سہارا بن چکے تھے۔ مارک باؤچر وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ عمدہ بلے بازی کے جوہر بھی دکھا رہے تھے۔ شان پولاک، ایلن ڈونلڈ اور فینی ڈی ویلئیرز کے ساتھ ساتھ لانس کلوزنر جیسے آل راونڈر ایک تباہ کن باؤلنگ اٹیک بناچکے تھے۔
پہلا ٹیسٹ
پہلا میچ جوہانسبرگ میں تھا۔ یہ میچ بارش کی نذر ہوگیا تاہم اظہر محمود اور پیٹ سمکوکس کی شاندار سنچریوں کی بدولت پہلے 3 دن خاصے مقابلے کی فضا رہی۔ سمکوکس کی یہ سنچری 10ویں نمبر پر بلے بازی کرنے والے کسی بھی بلے باز کی صرف تیسری سنچری تھی اور ایسا 96 سال بعد ہوا تھا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آج تک یہ کارنامہ صرف 4 بلے باز انجام دے سکے ہیں۔
دوسرا ٹیسٹ
دوسرا میچ پاکستان کے لئے یادگار رہا۔ اسی میچ میں محمد یوسف کا ٹیسٹ ڈیبیو بھی ہوا لیکن یہ ہرگز یادگار ڈیبیو نہیں تھا۔ اظہر محمود نے افریقہ کے خلاف اپنی شاندار پرفارمنس کا سلسلہ جاری رکھا اور 132 رنز کی قیمتی اننگز کھیلی جس کی وجہ سے قومی ٹیم 259 تک پہنچ سکی۔ یہ اظہر محمود کی تیسری اور آخری ٹیسٹ سنچری تھی انہوں نے ٹیسٹ میں اپنی تینوں سینچریاں اور واحد نصف سنچری بھی جنوبی افریقہ کے خلاف ہی بنائی ہے۔
جب افریقی ٹیم بلے بازی کرنے آئی تو اپنا صرف تیسرا ٹیسٹ کھیلنے والے شعیب اختر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے 12 اوورز میں 43 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر افریقی ٹیل اینڈرز ہمارے لئے مسئلہ بن گئے اور ساتویں نمبر پر آنے والے شان پولاک نے ناقابلِ شکست 70 رنز کی زبردست اننگ کھیلی۔
اس اننگ کی وجہ سے پاکستان کی برتری صرف 28 رنز کی رہ گئی۔ دوسری اننگز میں لمبے عرصے سے آؤٹ آف فارم سعید انور کا بلا آخر کار رنز اگلنے لگا اور انہوں نے بہترین 118 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف یہ ان کی واحد ٹیسٹ سنچری بھی ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا بلے باز شان پولاک کے سامنے نہیں ٹھہر سکا جنہوں نے 6 وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان کی جانب سے دیے گئے 255 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے کے لیے جنوبی افریقی بلے باز میدان میں اترے تو انہیں مشتاق احمد کی لیگ اسپن کا چیلنج درپیش تھا۔ انہوں نے 78 کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں، اور افریقہ کے خلاف یہ ان کی سب سے بہترین باؤلنگ پرفارمنس ہے۔ اگرچہ ابتدائی بلے بازوں کو قابو کرلیا گیا مگر بدقسمتی سے اس اننگز میں بھی ٹیل اینڈرز قومی ٹیم کے لیے مصیبت بن گئے۔ 7ویں نمبر پر آنے والے شان پولاک نے 30، 8ویں نمبر پر آنے والے مارک باؤچر نے 52 اور 10ویں نمبر پر آنے والے فینی ڈی ویلئیرز نے 46 رنز بناکر تو جیسے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا خون ہی سکھا دیا، لیکن اس کوشش کے باوجود قومی ٹیم کو 29 رنز کی ایک مشکل مگر انمول فتح نصیب ہوگئی، اور مشتاق احمد مین آف دی میچ قرار پائے۔
تیسرا ٹیسٹ
تیسرا اور آخری ٹیسٹ مکمل طور پر یکطرفہ تھا۔ مستقل کپتان عامر سہیل دستیاب نہیں تھے جبکہ پہلے دونوں میچز میں بنچ پر بیٹھنے والے راشد لطیف کی بطور کپتان ٹیم میں واپسی ہوئی تھی اور معین خان اس میچ میں بطور اسپیشلسٹ بلے باز میدان میں اترے۔ بلے بازوں نے دونوں اننگز میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور دونوں ہی اننگز میں 150 رنز کا ہندسہ عبور کرنے میں ناکام رہے۔ میچ کی واحد مثبت بات وقار یونس کی 10 وکٹیں تھیں اور افریقہ کے خلاف یہ ان کی سب سے بہترین کارکردگی بھی ہے۔ اس میچ میں قومی ٹیم کو 259 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور یوں سیریز ایک ایک سے برابر ہوگئی۔ میں آف دی سیریز کا اعزاز اظہر محمود کے حصے میں آیا جو اس سیریز کے بہترین بلے باز بھی تھے۔
دسمبر 2002
پہلا ٹیسٹ
اس بار پاکستانی ٹیم 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے افریقہ پہنچی۔ امید تھی کہ گزشتہ دورے میں اچھا کھیل پیش کرنے والی ٹیم اس بار بھی مایوس نہیں کرے گی لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ ایک اوسط درجے کی ٹیم تھی۔ اگرچہ اس ٹیم میں انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان موجود تھے، تاہم بولنگ میں کپتان وقار یونس اور ثقلین مشتاق کے علاوہ کوئی بڑا نام نہیں تھا۔ دوسری طرف افریقہ کو بہترین بلے باز اور تباہ کن باؤلرز کا ساتھ میسر تھا۔
اس سیریز میں پاکستانی بلے بازوں کے پاس شان پولاک، مکھایا نٹینی اور نینٹی ہیورڈز کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پہلے میچ میں قومی ٹیم فالو آن کا شکار ہوئی اور 10 وکٹوں سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جیک کیلس نے میچ کی واحد سنچری بنائی اور مین آف دی میچ قرار پائے جبکہ پاکستان کی طرف سے دونوں اننگز میں کوئی بھی بلے باز 42 سے اوپر نہیں جاسکا۔ جب بلے بازوں کی جانب سے ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے تو ٹیسٹ میچ میں عبرتناک شکست ہی مقدر بنتی ہے۔
دوسرا ٹیسٹ
اگلے میچ میں پاکستان نے مزید بدنامی سمیٹی۔ گریم اسمتھ اور ہرشل گبز نے پہلے ہی دن رنز کے انبار لگا دئیے اور دونوں بیٹسیمنوں نے پہلی وکٹ کے لئے 368 رنز جوڑ کر ریکارڈ قائم کردیا۔ پہلے دن پاکستانی باؤلنگ کی ناکام کی بڑی وجہ بدترین فیلڈنگ تھی۔ اس میچ کے پہلے ہی دن پاکستان نے 445 رنز بنوا دئیے اور کسی ٹیسٹ میچ کے پہلے ہی دن یہ آج بھی سب سے زیادہ بنائے جانے والے رنز ہیں۔
ہرشل گبز نے اس میچ میں اس وقت کی تیز ترین ڈبل سنچری بنائی اور اس کارکردگی کی بدولت افریقہ نے 7 وکٹوں پر 620 رنز بنائے، جس کے جواب میں قومی ٹیم کو پہلی اننگ میں فالو آن کا سامنا ہوگیا۔ توفیق عمر نے دونوں اننگز میں ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے بالترتیب 135 اور 67 رنز بنائے۔ جب شکست واضح طور پر نظر آنے لگی تو محمد یوسف نے جارحانہ بلے بازی شروع کردی اور 27 گیندوں پر نصف سنچری بنا ڈالی۔ اس وقت یہ تیز ترین ٹیسٹ نصف سنچری تھی مگر بعد میں مصباح الحق نے یہ ریکارڈ اس وقت اپنے نام کیا جب انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 21 گیندوں پر یہ کارنامہ انجام دیا۔ قومی ٹیم کو جہاں اس میچ میں اننگ اور 142 رنز کی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا وہیں سیریز میں بھی کلین سوئپ ہوا۔ سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز جنوبی افریقی باؤلر مکھایا نٹینی کو ملا۔ اس سیریز میں قومی ٹیم کے لیے بس یہی اچھا پہلو تھا کہ سب سے زیادہ 280 رنز توفیق عمر نے بنائے تھے۔
جنوری 2007
قومی ٹیم نے اس مرتبہ 3 ٹیسٹ میچز کے لئے افریقی سرزمین پر ڈیرے ڈالے تھے۔ وسیم اکرم، ثقلین مشتاق، مشتاق احمد اور وقار یونس ریٹائر ہوچکے تھے۔ سعید انور اور عامر سہیل بھی ماضی کا حصہ بن چکے تھے۔ تاہم پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین بلے باز یونس خان، انضمام الحق اور محمد یوسف اس سیریز میں پاکستان کا سارا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار تھے۔ حال ہی میں اس ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی تھی جس میں محمد یوسف نے رنز کے انبار لگادیے تھے اور ایک سال میں سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز کا ریکارڈ بنایا تھا۔
باؤلنگ اس بار بھی گزارے لائق تھی۔ محمد آصف کے ساتھ محمد سمیع، شاہد نذیر اور رانا نویدالحسن تھے جبکہ اسپن ڈیپارٹمنٹ دانش کنیریا کے پاس تھا۔ اگرچہ اس سیریز میں شعیب اختر کا ساتھ بھی میسر تھا مگر وہ صرف ایک ہی میچ کھیل سکے تھے۔
مزید پڑھیے: اتنی غلطیوں پر تو شاہین "کلین سوئپ" کے ہی مستحق ہیں!
دوسری طرف جنوبی افریقہ کو ڈیل اسٹین، مکھایا نٹینی اور شان پولاک پر مشتمل پیس بیٹری کے ساتھ ساتھ گریم اسمتھ، جیک کیلس، ہاشم آملہ اور اے بی ڈیویلئیرز پر مشتمل ورلڈ کلاس بیٹنگ لائن خدمات بھی حاصل تھیں۔
پہلا ٹیسٹ
پہلا میچ کافی دلچسپ رہا۔ اس میچ میں پاکستانی بلے بازوں نے حیران کن طور پر دونوں اننگز میں 300 کا ہندسہ عبور کرکے اپنی ذمہ داری تو نبھائی مگر کمزور باؤلنگ اٹیک افریقی بلے بازوں کو نہیں پکڑ سکا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی اننگز میں افریقہ کو 104 رنز کی برتری حاصل ہوگئی اور یہی برتری فیصلہ کن ثابت ہوئی۔
میچ جیتنے کے لیے افریقہ کو 199 کا ہدف ملا جو اس نے باآسانی 3 وکٹوں پر حاصل کرلیا، تاہم آصف کی باؤلنگ اور پاکستانی مڈل آرڈر کی اچھی بلے بازی بہت حوصلہ افزا تھی۔ یہ اعتماد دوسرے ٹیسٹ میں کام آیا جب شعیب اختر کی واپسی ہوئی اور باؤلنگ مزید بہتر ہوگئی۔
دوسرا ٹیسٹ
تباہ کن باؤلنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری افریقی ٹیم 124 رنز پر آوٹ ہوگئی۔ اس لو اسکور کر بلے بازوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور پہلی اننگز میں 141 رنز کی بڑی برتری حاصل کرلی۔ اس اننگز کی خاص بات کپتان انضمام الحق کی ٹیل اینڈرز کے ساتھ انتہائی ذمہ دارانہ بلے بازی تھی۔ 10ویں وکٹ کے لئے انضمام نے آصف کے ساتھ مل کر 74 قیمتی رنز جوڑے۔ اس شراکت داری میں انضمام نے جس طرح آصف کو مخالف باؤلرز سے بچایا وہ دیکھنے لائق تھا۔ خاص کر آج کے مڈل آرڈر بلے بازوں کو اس سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔
انجری کے سبب دوسری اننگز میں شعیب اختر باؤلنگ کے لئے دستیاب نہیں تھے۔ آصف نے مسلسل دوسرے میچ میں 5 وکٹ حاصل کئے تاہم کیلس کا کوئی توڑ پاکستانی باؤلر کے پاس نہیں تھا۔ وہ ایک طرف سے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ نہ صرف کھڑے رہے بلکہ رنز میں بھی مسلسل اضافہ کرتے رہے۔ پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 191 رنز کا ٹارگٹ ملا۔ ماضی کے نتائج کو دیکھ کر یقینی طور پر ہدف کا تعاقب مشکل لگ رہا تھا اور پھر جب محض 92 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ جائے تو جیت کا گمان بھی مشکل ہوجاتا ہے مگر یونس خان اور کامران اکمل مشکل ترین وقت پر وکٹ پر ڈٹ گئے اور مزید کسی نقصان کے پاکستان کو فتح دلا دی۔ افریقی سرزمین پر دونوں ٹیمز کے درمیان شاید سب سے زیادہ مسابقت بھرا ٹیسٹ میچ ہو۔ شاندار بلے بازی کرنے پر انضمام الحق کو مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔
تیسرا ٹیسٹ
تیسرا ٹیسٹ لو اسکورنگ ثابت ہوا جس میں دونوں ٹیمیں ایک بار بھی 200 کا ہندسہ عبور نہیں کرسکیں۔ میچ صرف 3 دن چل سکا۔ قومی ٹیم نے میچ جیتنے کے لیے افریقہ کو 161 کا ہدف دیا۔ محمد آصف نے شاندار باؤلنگ نے اس وقت جیت کی امید دلائی جب صرف 39 پر 4 افریقی بلے باز پویلین لوٹ چکے تھے۔ لیکن افریقہ کے پاس جیک کیلس تھے اور پاکستان کے پاس آصف اور کنیریا کے علاوہ کچھ خاص نہیں تھا۔ افریقہ جیسے ملک میں ایک لو اسکورنگ ٹیسٹ میچ میں بھی سب سے زیادہ اوورز اگر ایک اسپنر پھینکے تو اس باؤلنگ یونٹ کے بارے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ محمد سمیع جیسے اسپیشلسٹ فاسٹ باؤلر نے اس اننگز میں صرف ایک اوور پھینکا۔ پاکستان کا سیریز جیتنے کا خواب کیلس نے توڑ دیا تاہم یہ ایک بہترین مسابقتی ٹیسٹ سیریز ثابت ہوئی۔ کیلس مین آف دی میچ ہونے کے ساتھ ساتھ مین آف دی سیریز بھی قرار پائے۔ محمد آصف 19 وکٹوں کے ساتھ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر ٹھہرے۔
فروری 2013
اس بار بھی قومی ٹیم 3 ٹیسٹ میچ کھیلنے جنوبی افریقہ گئی تھی۔ قومی ٹیم شیعب اختر، محمد آصف اور دانش کنیریا سے محروم ہوچکی تھی، لیکن یہ سعید اجمل کے عروج کا دور تھا۔ مصباح الحق، اظہر علی اور یونس خان ٹیم کا حصہ تھے۔ تجربہ کار عمر گل کے ساتھ جیند خان بھی تھے جنہیں ہمیشہ کی طرح زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ جنوبی افریقی پیس بیٹری میں اب ورلڈ کلاس ورنون فلینڈر شامل ہوچکے تھے اور ڈیل اسٹین کئی سال سے مسلسل دنیا کے بہترین ٹیسٹ باولر کے مقام پر فائز تھے جبکہ مورنے مورکل جیسا مشکل باؤلر بھی افریقہ کو دستیاب تھا۔ گریم اسمتھ، جیک کیلس، ہاشم آملہ، اے ڈی ویلئیرز اور فاف ڈوپلیسز پر مشتمل بیٹنگ لائن خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی۔
پہلا ٹیسٹ
قومی ٹیم کے لیے صورتحال پہلے سے بھی خراب ہے یہ بتانے کے لیے پہلے ٹیسٹ میچ کی پہلی ہی اننگ کافی تھی جس میں پوری قومی ٹیم محض 49 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ ڈیل اسٹین نے 8 رنز دے کر 6 بلے باز ٹھکانے لگائے۔ یہ ایسا جھٹکا تھا جس نے پہلے سے دباؤ کا شکار پاکستانی ٹیم کو اعصابی طور پر توڑ کر رکھ دیا۔ شاید یہی دباو تھا جس کے سبب سعید اجمل بھی کچھ نہیں کرسکے۔ یہاں قابلِ ذکر بات صرف مصباح کا صبر تھا جو وہ مسلسل بیٹنگ اور فیلڈنگ میں دکھا رہے تھے۔
یہ ٹیسٹ میچ راحت علی اور ناصر جمشید کا ڈیبیو بھی تھا اور یہاں ٹیم مینیجمنٹ کی قابلیت بھی سامنے آتی ہے کہ اتنے مشکل دورے میں ایک نوجوان اوپنر کو قربان کیا جا رہا تھا۔ حفیظ بمقابلہ اسٹین ورلڈ کرکٹ کی ایک مزاحیہ داستان بن چکی تھی۔ اس سیریز میں بھی وہ دہرائی گئی۔
دوسرا ٹیسٹ
دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پاکستانی بلے بازوں نے جوش دکھایا اور یونس خان اور اسد شفیق نے سنچریاں اسکور کیں۔ اسٹین اس مرتبہ سوائے حفیظ کے کسی بھی کھلاڑی کو آوٹ نہیں کرسکے۔ سعید اجمل نے بھی اچھی باؤلنگ کی اور 6 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے دوسری اننگز میں بھی 4 وکٹیں حاصل کیں اور افریقی سرزمین پر 10 وکٹوں کا کارنامہ انجام دیا۔ یہ کسی بھی پاکستانی اسپنر کی طرف سے افریقی سرزمین پر بہترین باؤلنگ بھی ہے۔ آج تک کوئی دوسرا اسپنر وہاں ایک میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔
مزید پڑھیے: وقار اور ورلڈ کپ: کیا بدشگونی کا خاتمہ ہوگا؟
میچ تو پاکستان ہار گیا تاہم کچھ انفرادی قابلیت نظر ضرور آئی۔ اسی میچ میں محمد عرفان کا ٹیسٹ ڈیبیو بھی۔ تیسرا ٹیسٹ احسان عادل اور جنوبی افریقی کائل ایبٹ کا ڈیبیو ٹیسٹ میچ بھی تھا۔ احسان عادل کچھ خاص نہیں کرسکے مگر کائل ایبٹ نے اس میچ کو یادگار بنا لیا وہ مین آف دی میچ رہے۔
تیسرا ٹیسٹ
تیسرے میچ کا نتیجہ بھی بدقسمتی سے پاکستان کے خلاف ہی آیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ اس سیریز میں مجموعی طور پر چوتھے پاکستانی کھلاڑی کا ٹیسٹ ڈیبیو تھا۔ اس حکمت عملی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دنوں پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا کھیل کو کتنا سنجیدہ لے رہے تھے کہ اس قدر مشکل دورے میں 4 نئے کھلاڑی شامل کرنا بہرحال ایک انوکھا کارنامہ تھا۔
اس میچ میں قومی ٹیم کی بے بسی دیدنی تھی۔ حفیظ نے ڈیل اسٹین کی گیند پر بغیر کوئی رن بنائے آوٹ کر افریقہ میں اپنی آخری ٹیسٹ اننگز کو ایک بار پھر یادگار بنادیا۔ اس ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے ہاتھ ایک بار پھر اننگز کی شکست آئی۔ اے ڈی ویلئیرز مین آف دی سیریز رہے جبکہ ڈیل اسٹین کامیاب ترین باؤلر قرار پائے۔
اس پوری تاریخ کو جس طرح بھی پڑھ لیا جائے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ جنوبی افریقی سرزمین پر قومی ٹیم اپنے اعصاب پر قابو پانے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ ماضی میں تو ہمارے پاس انضمام الحق، سعید انور، محمد یوسف اور یونس خان جیسے بلے بازوں کے علاوہ وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے ہتھیار بھی ہوا کرتے تھے، مگر اس بار تو ہمارے سارے ہی ہتھیار ناکارہ معلوم ہورہے ہیں۔ لہٰذا جیت کا امید لگانا تو شاید انصاف نہ ہو، ہاں یہ دعا ضرور کرنی چاہیے کہ عزت کے ساتھ شکست کا سامنا ہو۔