امریکا میں رواں سال کا تیسرا 'شٹ ڈاؤن'
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قانون سازوں کے درمیان معاہدے کی ناکامی کے بعد امریکا میں رواں سال کا تیسرا ’شٹ ڈاؤن‘ ہورہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جمعے کو کانگریس کا اجلاس وفاقی اخراجات سے متعلق بل یا امریکی صدر کا سرحدی دیوار کی تعمیر کے لیے رقم کا مطالبہ پورا ہوئے بغیر ختم ہوگیا، جس کے بعد امریکی حکومت نے رات گئے شٹ ڈاؤن کا آغاز کردیا۔
وائٹ ہاؤس حکام اور کانگریس کے رہنماؤں کے درمیان کیپیٹل پل پر ہونے والے آخری مہم جوئی مذاکرات کے باجود ہفتے کی شب رات 12 بجکر ایک منٹ پر تمام اہم ایجنسیز کے لیے کام بند ہوگیا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا کی میکسکو کے ساتھ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے 5 ارب ڈالر کا مطالبہ کیا گیا لیکن ڈیموکریٹس کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی اور دونوں فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہونے پر درجنوں ایجنسیوں کے لیے وفاقی فنڈز ختم ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں: امریکی شٹ ڈاؤن: کانگریس کو اقدام کرنا ہوگا، اوباما
یہاں یہ بات واضح نہیں کہ شٹ ڈاؤن کتنے عرصے تک چلے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کی رات یہ امید ظاہر کی تھی کہ یہ زیادہ طویل نہیں ہوگا، اس سے قبل وہ کہہ چکے تھے کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
اس شٹ ڈاؤن کے اعداد و شمار بہت خراب صورتحال ظاہر کرتے ہیں کیونکہ 8 لاکھ وفاقی ملازمین کو کرسمس کی چھٹیوں تک عارضی رخصت یا بغیر تنخوا کے کام کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
ایوان نمائندگان نے اپنا اجلاس 7 بجے سے پہلے ہی ختم کرلیا اور شٹ ڈاؤن کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے اور اس کے ایک گھنٹے بعد سینیٹ نے بھی اپنا اجلاس ختم کردیا، ان دونوں ایوانوں کا اجلاس ہفتے کی دوپہر میں دوبارہ ہوگا۔
حکومت کے 3 چوتھائی محکمے، جن میں فوج، صحت اور انسانی خدمات شامل ہیں، انہیں ہفتے کے 25 فیصد کو چھوڑ کر ستمبر 2019 کے اختتام تک مکمل فنڈڈ کیا گیا۔
اس کے علاوہ شٹ ڈاؤن میں ناسا کے مختلف ملازمین کو گھر بھیج دیا جائے گا جبکہ محکمہ تجارت کے ملازمین، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی، انصاف، زراعت اور اسٹیٹ کے متعدد ملازمین کو بھی بھیجا جائے گا۔
شٹ ڈاؤن کے دوران نیشنل پارکس کھلا رہے گا لیکن پارک کا زیادہ تر اسٹاف گھر پر رہے گا۔
علاوہ ازیں زیادہ تر اہم سیکیورٹی پروگرامات فعال رہے گے، تاہم بجٹ کی کشمکش اور بے یقینی صورتحال نے دارالحکومت پر افراتفری پھیلا دی ہے جو جمعرات کو امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس کے مستعفی ہونے کے اعلان سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
اس صورتحال کے باعث وال اسٹریٹ نے اس صدی میں سب سے خراب ہفتے کا اختتام جمعہ کے ہونے والے بدترین نقصانات کے ساتھ کیا۔
شٹ ڈاؤن کیلئے تیار ہیں، امریکی صدر
قبل ازیں جمعہ کو اپنے سیاسی مخالفین کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’یہ ڈیموکریٹس پر انحصار کرتا ہے کہ آیا ہم آج رات شٹ ڈاؤن کرتے ہیں یا نہیں‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ ہم نہیں کریں گے لیکن ہم ایک طویل شٹ ڈاؤن کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں‘۔
دوسری جانب سینیٹرز نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ دونوں جماعتوں سے کانگریس کے رہنما امریکی نائب صدر مائیک پینس، ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور آنے والے چیف آف اسٹاف مک ملوانے پر مشتمل وائٹ ہاؤس حکام کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی حکومت کا ملک میں ’شٹ ڈاؤن‘ کا اعلان
تاہم تینوں عہدیداروں نے ایک فریق کی دوسرے فریق یعنی ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔
ادھر امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا کہ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی، جسٹس، ہاؤسنگ، شہری ترقی اور حکومت کے دیگر محکموں کے لیے وفاقی حکومت کی ایک سہہ ماہی کی فنڈنگ رات گئے ختم ہوگئی۔
یہ 40 برس میں پہلی مرتبہ ہے کہ ایک سال کے دوران حکومت نے 3 مرتبہ شٹ ڈاون کیا۔
تاہم اس شٹ ڈاؤن سے قبل سینیٹ کی جانب سے ایک بل پاس کیا گیا، جس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ عارضی رخصت پر بھیجے گئے ملازمین کو تنخواہیں واپس ملیں گی، یہ بل اتفاق رائے سے منظور ہوگیا لیکن اب بھی اسے ایوان سے پاس کرانے کی ضرورت ہوگی۔
شٹ ڈاؤن کی تاریخ
موجودہ شٹ ڈاؤن کو ملا کر رواں سال 2018 میں امریکا میں ہونے والے شٹ ڈاؤن کی تعداد 3 ہوگئی ہے۔
رواں سال 2018 کے آغاز میں 20 جنوری کو عارضی اخراجات کے بل پر اتفاق رائے نہ ہونے پر شٹ ڈاؤن کیا گیا تھا۔
اس شٹ ڈاؤن کے دوران پبلک سیکٹر کے ورکرز کو بغیر اجرت کے گھر بھیج دیا گیا تھا، یہاں تک کہ امریکی فوجیوں کو بھی حکومتی سرگرمیاں بحال ہونے تک رقوم کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔
شٹ ڈاؤن روکنے کے لیے امریکی ایوان نمائندگان میں عارضی اخراجات کا بل منظور کیا گیا تھا، تاہم سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں ٹرمپ انتظامیہ کو اس حوالے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بعد ازاں 9 فروری کو بھی امریکا میں سال کا دوسرا شٹ ڈاؤن ہوا تھا، تاہم امریکی صدر نے قانونی بل پر دستخب کرکے اس شٹ ڈاؤن کو روک دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اکتوبر 2013 میں امریکا میں 16 روز تک شٹ ڈاؤن رہا تھا، اس دوران تقریباً 8 لاکھ وفاقی ملازمین عارضی رخصت پر بھیج دیے گئے تھے جبکہ بقیہ 13 لاکھ کو کام پر رپورٹ کرنے کا کہا گیا تھا بغیر یہ جانے کے انہیں تنخواہ کب دی جائے گی۔
یہ شٹ ڈاؤن بھی حکومتی اخراجات کے معاملے پر سابق امریکی صدر صدر براک اوباما اور کانگریس میں ان کے ریپبلکن مخالفین کے مابین عدم اتفاق رائے کے باعث ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی میڈیا کے بعد گوگل پر بھی تنقید
اس سے قبل 1995 اور 1996 میں بھی امریکا میں 2 شٹ ڈاؤن ہوئے تھے، یہ شٹ ڈاؤن وفاقی بجٹ میں طبی سہولیات، تعلیم، ماحول، عوامی صحت سے متعلق اخراجات پر ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن اور حریف ریپبلکن کے درمیان تنازع کے نتیجے میں ہوئے تھے۔
امریکی تاریخ میں 1990 میں بھی شٹ ڈاؤن دیکھا گیا جبکہ اس سے پہلے 1981، 1984، 1986 میں بھی کئی لاکھ وفاقی ملازمین کو عارضی رخصت پر بھیجادیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا میں یکم مئی 1980 کو تاریخ کا پہلا شٹ ڈاؤن ہوا تھا جس کی وجہ بھی اخراجات کا تنازع ہی تھی۔