ہر گزرتے سال کے ساتھ انسانی صحت میں بہتری لانے کے لیے سائنسدانوں کی جانب سے متعدد کوششیں کی جاتی ہیں۔
2018 بھی ان برسوں میں سے ایک ہے جس کے دوران طبی میدان کے کئی شعبوں میں زبردست پیشرفت دیکھنے میں آئی، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
کینسر سے لڑنے والی ویکسین
کینسر ایسا جان لیوا مرض ہے جس کے نتیجے میں ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہوتی ہیں جبکہ اس کا علاج یا کیموتھراپی مختلف طبی مسائل کا باعث بنتی ہے تاہم اب ایسی کینسر ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے جسے خون کے کینسر کے شکار افراد پر آزمایا جائے گا، اس ویکسین کی تیاری پر امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کام کررہے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اس ویکسین کو اگر انسانوں کے لیے کار آمد قرار دیا گیا تو مریضوں کو کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوگی جس کے صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن محققین کا کہنا تھا کہ اس کو استعمال کرنے کی منظوری ملنے پر بھی یہ ایک سے 2 سال تک مریضوں کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ خون کے ایسے سرطان کے لیے موثر ثابت ہوگی جو خون کے مخصوص سفید خلیات کو متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ویکسین جسمانی دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کی بجائے اسی رسولیوں پر حملے کے لیے متحرک کرتی ہے۔ چوہوں پر اس کا تجربہ 97 فیصد تک کامیاب ثابت ہوا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ٹرانسلیشن میڈیسین میں شائع ہوئے۔
ای سی جی مانیٹرنگ میں آسانی
2018 میں ایپل واچ سیریز 4 میں ایک ای سی جی ایپ متعارف کرائی گئی، جو ای سی جی مشین کی طرح کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایکٹروڈ اس گھڑی کے بیک پر نصب ہے جو دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کو پکڑتا ہے، یہ ڈیٹا محفوظ ہوتا رہتا ہے اور جب آپ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں تو اسے دکھ کر اہم مشورہ لے سکتے ہیں۔
اس گھڑی میں ایک بڑی پیشرفت یہ بھی سامنے آئی کہ اس میں موجود گیرواسکوپ کسی فرد کے بے ہوش ہونے پر خودکار طور پر ایمرجنسی سروسز کو کال کرتا ہے۔
آدھے سر کے درد کے لیے ویکسین
دنیا بھر میں کروڑوں افراد آدھے سر کے درد یا مائیگرین کے شکار ہوتے ہیں، زندگی تنگ کردینے والے اس سردرد کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے مگر مئی 2018 میں ایف ڈی اے نے ایک نئی دوا کی منظوری دی جو انجیکٹ ایبل دوا ہے جس سے آدھے سر کے درد کی روک تھام ممکن ہے۔
ایف ڈی اے حکام کے مطابق یہ دوا مریضوں کو ایک انقلابی آپشن فراہم کرے گی جس سے آدھے سر کے درد میں کمی آئے گی۔ اب تک ٹرائلز میں جن افراد پر اسے آزمایا گیا، ان میں ایک ماہ کے دوران اس تکلیف کی شرح میں دوتہائی کمی ریکارڈ کی گئی۔
پارکنسن کے علاج کے لیے دوا میں پیشرفت
رعشے کا یہ مرض ابھی ناقابل علاج ہے مگر اب لگتا ہے کہ اس کا علاج ممکن ہوسکے گا۔ ایریزونا یونیورسٹی کے محققین نے تجربات سے دریافت کیا کہ Ketamine نامی گولی اس حوالے سے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ Ketamine کو 90 کی دہائی میں منشیات اور غیرقانونی سمجھا جاتا تھا۔ اس گولی کو پارکنسن کے علاج کے لیے تیار کی گئی دوا levodopa کے استعمال کرایا گیا۔ levodopa پارکنسن علامات کو کنٹرول کرنے میں موثر ثابت ہوئی مگر بیشتر مریضوں کو مضر اثرات جیسے ناقابل کنٹرول جسمانی حرکات کا سامنا ہوتا ہے، مگر Ketamine ان اثرات کو کم کردیتی ہے، اس حوالے سے ابھی مزید کام کیا جارہا ہے اور محققین کا ماننا ہے کہ مناسب ڈوز اور نگرانی کے ذریعے پارکنسن کا علاج ممکن ہوسکے گا۔
زیکا وائرس کی جانب پیشرفت
2018 کے آغاز میں کلینکل ٹرائلز میں 67 رضاکاروں کو ایک ویکسین استعمال کرائی گئی اور معلوم ہوا کہ یہ زیکا وائرس کے حوالے سے موثر ثابت ہوسکتی ہے۔
درحقیقت 92 فیصد افراد کے جسمانی مدافعتی نظام نے اس وائرس کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔ یہ وائرس مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے اور حاملہ خواتین سے نومولود بچے میں منتقل ہوجاتا ہے جس سے پیدائش نقائص سامنے آتے ہیں جس سے دماغی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
بلڈگلوکوز مانیٹرنگ کرنے والے اسمارٹ کانٹیکٹ لینس
ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے بلڈشوگر لیول کو کنٹرول کرنا صحت بہتر رکھنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے، مگر عام طور پر بلڈشوگر لیول چیک کرنے کے لیے انگلی سے خون نکالا جاتا ہے۔ مگر جنوبی کوریا کے یولسن نیشنل انسٹیٹوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محققین نے ایسا اسمارٹ کانٹیکٹ لینس تیار کیا ہے جو بلڈگلوکوز لیول کو آنکھوں کے آنسوﺅں سے چیک کرسکتا ہے۔
ابھی اس کی انسانوں پر آزمائش ہونی ہے اور محققین کے مطابق ہم اس افسانوی خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس میں کانٹیکٹ لینس کے ذریعے انسانی جسم کے بارے میں بہت کچھ جانا جاسکتا ہے۔
پہلی مرتبہ کسی شخص کے 2 فیس ٹرانسپلانٹ
تھری فیسز مین کی عرفیت پانے والے 43 سالہ فرانسیسی شہری جیروم ہامون دنیا کے پہلے شخص بن گئے جو اپریل میں 2 فیس ٹرانسپلانٹیشن کے عمل سے گزرے۔
یہ کامیابی پیرس میں کے جارجز پومپیڈیو ہاسپٹل میں حاصل کی گئی، جس کی قیادت ڈاکٹر لیورنٹ لانیٹری نے کی جنہوں نے 8 سال قبل جیروم ہامون کی پہلی سرجری بھی کی تھی، تاہم اس سرجری کے بعد مریض کے جسم نے نئے چہرے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر دوسری سرجری کی گئی۔
نیا جسمانی عضو کی دریافت
نیویارک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین اور ماﺅنٹ سینائی میڈیکل سینٹر کے محققین نے مارچ میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے انسانی جسم کے اندر ایک نیا عضو دریافت کرلیا ہے اور یہ ممکنہ طور پر سب سے بڑا عضو ہے۔
تحقیق کے مطبق درحقیقت انٹرسٹیٹیم نامی اس نئے عضو کے بارے میں عرصے سے سمجھا جارہا تھا کہ یہ بمشکل سخت اور ٹھوس ٹشو ہے جو جلد کے نیچے، اندرونی اعضا، شریانوں اور رگوں کے ارگرد، مسلز کے ریشے دار پٹھوں کے درمیان موجود ہوتا ہے۔
آسان الفاظ میں سائسندانوں کا کہنا تھا کہ یہ نیا عضو بظاہر انسانی نظر سے اوجھل تھا مگر اب اس کی دریافت سے جسم میں کینسر کے پھیلنے کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انٹرسٹیٹیم بنیادی طور پر مختلف تہوں میں پھیلا ہوا ٹھوس اور کنکٹیو ٹشو ہے جس میں سیال بھرنے والے خانے موجود ہیں۔ یہ ٹشو پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے اور مضبوط، لچکدار پروٹین کے جال کی مدد سے ایک نیٹ ورک تشکیل دیتا ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 1 کے انجیکشن کے خاتمے میں پیشرفت
انسولین انجیکشن کے بغیر ذیابیطس ٹائپ ون کے شکار افراد کی زندگی مکمل نہیں ہوتی مگر سائنسدانوں نے ایسی دوا تیار کرلی ہے جو انجیکشن کی ضرورت ختم کرسکتی ہے۔ جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں سائنسدانوں نے انسولین دوا کی تیاری کا اعلان کیا جو مریض کے معدے میں سخت ایسڈز کی مزاحمت کرتے ہوئے ادویات کو چھوٹی آنت تک پہنچاتی ہے۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق ابھی اس کی آزمائش جانوروں پر ہورہی ہے مگر امید ہے کہ بہت جلد اسے لوگوں پر بھی آزمانے کی اجازت مل جائے گی۔
مردہ ڈونر کی بچہ دانی سے بچے کی پیدائش
طبی دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ رواں سال ایک مردہ خاتون ڈونر سے ملنے والی بچہ دانی یا رحم کی پیوند کاری کرانے والی خاتون نے صحت مند بچی کو جنم دیا، یہ پیوند کاری ستمبر 2016 میں ہوئی تھی اور طبی جریدے دی لانسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع مقالے کے مطابق اس آپریشن میں مردہ ڈونر کی بچہ دانی کو مریض کی رگوں، جوڑوں اور دیگر جسمانی حصوں سے منسلک کیا گیا تھا۔
اس سے قبل اس طرح کے مردہ ڈونرز کے ٹرانسپلانٹ کے 10 کیسز امریکا، چیک ریپبلک اور ترکی میں ہوئے تھے مگر کسی بھی خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش نہیں ہوئی۔ تاہم برازیلین خاتون اس معاملے میں خوش قسمت رہیں، جنہوں نے آپریشن کے ذریعے صحت مند بچی کو جنم دیا۔ ساﺅ پاﺅلو یونیورسٹی ہاسپٹل ڈینی اجزنبرگ نے اس طبی ٹیم کی قیادت کی اور ان کا کہنا تھا کہ اس کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تیکنیک قابل عمل ہے اور خواتین کے بانجھ پن کے مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔