• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سال 2018: پانی کے مسائل، اقدامات اور قوم کا مستقبل

ملک میں پانی کے بحران کے حل کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان 2025 تک خشک سالی کا سامنا کرسکتا ہے۔
شائع December 22, 2018 اپ ڈیٹ December 25, 2018

مملکت خداداد پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں قدرت کی ہر نعمت موجود ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان نعمتوں سے انصاف نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ آج ملک مختلف بلکہ یوں کہیں کہ ان گنت مسائل کا شکار ہے۔

ان مسائل میں تعلیم، صحت، روزگار، معیشت، بجلی، گیس اور دیگر مسائل شامل ہے، تاہم 2018 میں پانی کے مسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا۔

پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے، کرہ ارض پر زندگی، زراعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہون منت ہی ہے لیکن بدقسمتی سے زندگی کی اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم نے کبھی توجہ نہیں دی۔

اگرچہ کئی مرتبہ پانی کے مسائل حل کرنے کی بات تو ہوئی لیکن بعد ازاں یہ باتیں تعصب، صوبائیت اور دیگر تنازعات کے بنیاد پر بے نتیجہ ختم ہوگئیں، آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں آبی وسائل انتہائی کم رہ گئے ہیں۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود کاشت کے لیے کسانوں کو پانی میسر نہیں ہوتا، پینے کے پانی کے لیے شہروں اور قصبوں میں لوگ طویل قطاریں لگائے نظر آتے ہیں، دیہی علاقوں میں پانی کے 2 مٹکوں کے حصول کے لیے خواتین کو کئی گھنٹے چلنا پڑتا ہے۔

مختلف بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان تیزی سے ایک ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے کہ جہاں آنے والے وقت میں اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان آنے والے 7 برس مطلب 2025 تک پانی کی شدید قلت کا شکار ہوسکتا ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کرنے کی صورت میں مستقبل میں خشک سالی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے سال 2018 میں پانی کے مسئلے کو حل اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے حکومت، متعلقہ اداروں نے کچھ فیصلے اور اقدامات کیے، جن میں پاک بھارت آبی تنازع کا حل، قومی آبی پالیسی، دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر، ڈیم فنڈز سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں، اگر ان فیصلوں پر عمل درآمد ہوجائے تو ملک میں پانی کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔

پاک-بھارت آبی تنازع

1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازع چلتا آرہا ہے اور اسی تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان 1960 میں سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) ہوا تھا۔

اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا جبکہ مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔

مغربی دریاؤں میں دریائے جہلم، چناب اور سندھ جبکہ مشرقی حصے میں ستلج، راوی اور بیاس شامل ہیں۔

پاکستان اور بھارتی وفود نے آبی تنازع پر مذاکرات کیے—فوٹو: اے پی پی
پاکستان اور بھارتی وفود نے آبی تنازع پر مذاکرات کیے—فوٹو: اے پی پی

تاہم 2018 میں بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی اس وقت دیکھنے میں آئی، جب بھارت نے اپنے زیر تسلط کشمیر میں دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا۔

اس افتتاح پر اسلام آباد کی جانب سے اس خطرے کا اظہار کیا گیا کہ اس ڈیم سے اس کا پانی کا حصہ کم ہوگا، یہ نیلم اور جہلم دریاؤں کے ایکو سسٹم کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

پاکستان کی جانب سے اس ڈیم کے ڈیزائن کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا گیا اور اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جس کے بعد عالمی بینک نے بڑھتے ہوئے پاک-بھارت آبی تنازع کو حل کرنےکے لیے ثالت کا کردار ادا کیا۔

اس سلسلے میں پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان 4 نکات پر مشتمل مذاکرات کا دور بھی ہوا تھا، لیکن پاکستان کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملنے پر مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان کی جانب سے دریائے چناب پر بھارت کے پکوال دل اور لوئر کلنائی منصوبوں کے ڈیزائن پر بھی اعتراض اٹھایا گیا تھا۔

پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے گزشتہ برس مارچ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ ان منصوبوں کے ڈیزائن میں رد وبدل کرکے پاکستان کے تحفظات دور کرے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

بعد ازاں اس معاملے پر بھی پاک بھارت وفود میں مذاکرات کا دور ہوا تھا، جس کے اختتام پر یہ طے پایا تھا کہ 1000 میگا واٹ پکوال دل اور 48 میگا واٹ لوئر کلنال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستانی ماہرین بھارت کا دورہ کریں گے۔

قومی آبی پالیسی

پاک بھارت آبی تنازع پر مذاکرات کے بے نتیجہ اختتام کے بعد پانی کی کمی کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے قومی آبی پالیسی تیار کی گئی۔

اس پالیسی کا تیار ہونا ایک قابل تعریف عمل تھا اور یوں کہیں کہ 70 برس بعد پانی کے مسئلے کے سنگین ہونے کا صحیح اندازہ لگایا گیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں آبی پالیسی پر دستخط کیے گئے—فائل فوٹو
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں آبی پالیسی پر دستخط کیے گئے—فائل فوٹو

تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے اس پالیسی کو سابق دور حکومت میں مشترکہ مفادات کونسل میں منظور کیا گیا جبکہ پالیسی سے صوبائی سطح پر پانی کی تقسیم بہتر بنانے، آبی ذخائر میں اضافے مثلاً ڈیموں کی تعمیر پر زور دیا گیا۔

اس کے علاوہ کم از کم ایک کروڑ ایکڑ فٹ کی گنجائش کے 2 نئے ڈیموں کی تعمیر کو جنگی بنیادوں پر تعمیر کرنے پر بھی زور دیا گیا۔

اسی طرح یہ بھی طے کیا گیا کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک نیا ادارہ نیشنل واٹر کونسل کے نام سے نیا ادارہ قائم کیا جائے گا۔

قومی آبی پالیسی میں اس حقیقت کا ادراک کیا گیا کہ 2025 تک ملک میں دستیاب پانی کی فی کس مقدار 860 مکعب میٹر تک کم ہوجائے گی۔

پانی کی قلت پر ازخود نوٹس

جون 2018 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پانی کی قلت کا ازخود نوٹس لیا اور نہ صرف اسلام آباد بلکہ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور رجسٹریز میں بھی پانی کی قلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لیا—فائل فوٹو
چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لیا—فائل فوٹو

چیف جسٹس کی جانب سے یہ ریمارکس سامنے آئے کہ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آج سے ہماری ترجیحات میں سب سے اہم پانی ہے اور ہم پانی کے معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے بھارت کی جانب سے نئے ڈیم کی تعمیر پر تشویش کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ اس ڈیم سے دریائے نیلم اور جہلم خشک ہوگئے۔

ڈیموں کی تعمیر

سپریم کورٹ کی جانب سے پانی کی قلت پر لیے گئے از خود نوٹس کی ہی روشنی میں سب سے بڑا قدم جولائی میں دیکھنے میں آٰیا۔

جولائی 2018 میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیامربھاشا اور مہمنڈ ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیا گیا اور چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے صوبائی سطح پر بھی ڈیموں کی تعمیر کے معاملات دیکھے اور پنجاب حکومت کو ڈھڈھوچہ ڈیم کی تعمیر کا حکم دیا۔

دیامر بھاشا اور مہند ڈیم کی ضرورت ہی کیوں؟

کالا باغ ڈیم کی طرح ان ڈیموں کی تعمیر پر زیادہ تنازع دیکھنے میں نہیں آیا اور تمام صوبوں نے ان کی تعمیر پر رضا مندی ظاہر کی۔

ان ڈیموں کے محل وقوع کی بات کی جائے تو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے گلگت بلتستان کے چھوٹے سے علاقے چلاس سے تقریباً 40 کلومیٹر دور ’تھور‘ کے گاؤں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا یہ ڈیم خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحد پر تعمیر کیا جائے گا، اگر نقشے سے اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس ڈیم کی ذخیرہ گاہ کا 98 فیصد گلگت بلتستان جبکہ اس کے پاور ہاؤس خیبرپختونخوا میں تعمیر کیے جائیں گے۔

دیامر بھاشا ڈیم کی کل لاگت کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا ہے—فائل فوٹو
دیامر بھاشا ڈیم کی کل لاگت کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا ہے—فائل فوٹو

دیامر بھاشا ڈیم کے اس منصوبے میں 4 ہزار 5سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی جبکہ یہاں 64 لاکھ (6.4 ملین) ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔

مہمند ڈیم کی بات کی جائے تو یہ ڈیم ضلع مہمند میں دریائے سوات پر تعمیر کیا جائے گا اور اس میں تقریباً 12 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوگی۔

اس ڈیم سے 800 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ڈیم کا بنیادی مقصد سیلاب سے بچاؤ بھی ہوگا۔

واضح رہے کہ سال 2011 کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا تھا لیکن ان منصوبوں پر کوئی قابل قدر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی، جس کی وجہ سے منصوبوں کی لاگت کا تخمینہ بھی بڑھ گیا۔

واپڈا حکام کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 12 ارب ڈالر (تقریباً 15 سے 16 کھرب روپے) کی ضرورت ہے، جس میں سے 5 ارب ڈالر انفرااسٹرکچر جبکہ بقیہ 7 ارب ڈالر بجلی کی پیداوار کےلیے استعمال ہوں گے۔

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز اپریل 2020 میں متوقع ہے اور یہ منصوبہ 9 برس میں اپریل 2029 تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔

اسی طرح مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز 2019 میں متوقع ہے جو 6 سال کے عرصے میں 2025 تک پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا، آئندہ ماہ جنوری میں وزیر اعظم عمران خان، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مہمند ڈیم منصوبے کا آغاز کریں گے۔

ڈیمز فنڈ

اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کےلیے خصوصی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا۔

چیف جسٹس کی جانب سے اس فنڈ کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی طرف سے 2 لاکھ روپے اس فنڈ میں جمع کروائے گئے اور تمام پاکستانیوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس فنڈ میں دل کھول کر عطیات جمع دیں۔

چیف جسٹس کی جانب سے اس فنڈ کے قیام کے ساتھ ہی عوام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک بھر کے بینکوں میں ڈیمز فنڈ کے لیے اکاؤنٹس کھول دیے گئے۔

معزز عدلیہ کے اعلیٰ ترین جج کے اس جذبے کو دیکھتے ہوئے اور ملک کو آبی مسائل سے نجات دلانےکے عزم کے ساتھ پاک فوج، سرکاری ملازمین، قومی کرکٹ ٹیم، نجی اداروں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ڈیمز فنڈ میں عطیات جمع کرانا شروع کردیے۔

ڈیم فنڈ میں اب تک جمع ہونے والی عطیات—اسکرین شاٹ
ڈیم فنڈ میں اب تک جمع ہونے والی عطیات—اسکرین شاٹ

ڈیمز فنڈز کی اس مہم میں اہم تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب ستمبر 2018 میں وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں پاکستانیوں سے ڈیمز فنڈ میں بھرپور حصہ ڈالنے کی اپیل کی۔

وزیر اعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خصوصی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فنڈ میں ڈالر بھیجیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ڈیم بنانا ملک کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے، ماہرین کے مطابق اگر ہم نے ڈیم نہیں بنائے تو پاکستان میں 7 برسوں میں یعنی 2025 میں خشک سالی شروع ہوجائے گی۔

عمران خان نے کہا تھا کہ اس معاملے پر چیف جسٹس سے بات کی ہے اور ان کے فنڈ کے ساتھ سی جے اور پرائم منسٹر فنڈ کو اکٹھا کریں گے۔

عمران خان نے اس خطاب کے بعد اسی ماہ سپریم کورٹ نے نے ڈیم فنڈ کا اکاؤنٹ ٹائٹل ’ سپریم کورٹ وزیر اعظم فنڈ برائے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم‘ رکھنے کی منظوری دی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے بعد ڈٰیمز فنڈ میں بہت تیزی دیکھنے میں آئی اور تقریبا ایک ہی روز میں ایک ارب سے زائد کی رقم عطیہ کی گئی اور یہ عطیات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

ڈیمز فنڈ میں بیرون ملک پاکستانیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ارب روپے بیرون ملک سے بھی عطیہ کیے گئے۔

آبی کانفرنس

ملک میں پانی کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس کی ہدایت پر پاکستان لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام پہلی آبی کانفرنس منعقد کی گئی۔

چیف جسٹس کی ہدایت پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا—فائل فوٹو
چیف جسٹس کی ہدایت پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا—فائل فوٹو

اس کانفرنس میں ملکی اور غیر ملکی آبی ماہرین نے شرکت کی، کانفرنس کا مقصد ملک میں پانی کے مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور نئے ذخائر کی تعمیر کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا۔

آبی کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں زور دیا گیا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنا مقدمہ بین الاقوامی فورم پر پیش کرے اور اپنے حصے کے پانی کے حصول کےلیے اقدامات کرے۔

اس کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت داری سے بڑے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق کیا گیا جبکہ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو پانی کے استعمال کے لیے مناسب نرخ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تاکہ لوگ اس قیمتی وسیلے کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوسکیں۔

زیر زمین پانی پر ازخود نوٹس

رواں سال ڈٰیم کی تعمیر کے حکم کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے زیر زمین پانی نکالنے پر ازخود نوٹس بھی لیا گیا۔

پانی کی قلت کے باعث شہری قطاروں میں لگ کر پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں—فائل فوٹو
پانی کی قلت کے باعث شہری قطاروں میں لگ کر پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں—فائل فوٹو

اس دوران چیف جسٹس کی جانب سے بڑی بڑی منرل واٹر کمپنیوں کو نوٹس اور ان کے فرانزک آڈٹ کا بھی حکم دیا گیا۔

اس کیس کی سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ کمپنیاں ماہانہ اربوں لیٹر پانی نکالتی ہیں اور اس پر کسی قسم کی ادائیگی نہیں کرتی ، جس کے باعث زیرزمین پانی کی سطح خشک ہورہی ہے۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے تمام صوبوں کو حکم دیا کہ وہ پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کریں اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کریں۔

ڈیمز فنڈ تشہیری مہم اور دورہ برطانیہ

سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کی جانب سے ڈیم مہم کے اعلان کے بعد عوام میں شعور اجاگر کرنے کےلیے ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔

ٹی وی چینلز پر پبلک سروس میسج کے طور پر اشتہار نشر کیے جارہے ہیں جس میں پانی کے مسائل اور ڈیم کی ضرورت کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔

چیف جسٹس ڈیمز فنڈ ریزنگ کیلئے برطانیہ بھی گئے—فائل فوٹو
چیف جسٹس ڈیمز فنڈ ریزنگ کیلئے برطانیہ بھی گئے—فائل فوٹو

ان اشتہار میں ڈیمز فنڈز کی تفصیلات بھی فراہم کی جارہی ہیں جبکہ قومی نغمے چلا قوم میں ڈیم کی تعمیر کا جذبہ پیدا کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب پانی کے مسئلے اور ڈیمز فنڈ کے لیے برطانیہ کا دورہ بھی کیا اور وہاں فنڈ ریزنگ تقریبات میں شرکت کی جبکہ کچھ ٹی وی چینلز نے فنڈنگ ٹیلی تھون کا انعقاد بھی کیا۔

گاڑیوں کو پائپ سے دھونے پر پابندی سے متعلق آگاہی مہم

رواں سال کے آخر میں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ملک میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے حکم جاری کیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو گاڑیوں کو پائپ سے دھونے پر پابندی سے متعلق آگاہی مہم چلانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ کہ گاڑی دھونا مقصود ہو تو رہائشی بالٹی میں پانی بھر کر دھوئیں۔

پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے قوم نے بھی کردار ادا کرنا ہوگا—فائل فوٹو
پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے قوم نے بھی کردار ادا کرنا ہوگا—فائل فوٹو

عدالتی حکم نامے میں ہدایت کی کہ پنجاب حکومت پانی کے ضیاع کو روکنے اور محفوظ بنانے سے متعلق اقدامات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرے۔

2 بڑے ڈیموں میں پانی کی تیزی سے کمی

علاوہ ازیں سال کے اختتام سے چند روز قبل ہی ملک کے 2 بڑے ڈیموں میں پانی کی تیزی سے کمی کا خدشہ منڈلانے لگا۔

نجی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے پانی کی کمی پر خبردار کیا اور بتایا کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی موجودہ سطح ایک ہزار 4سو 16 فٹ رہ گئی ہے جبکہ منگلا ڈیم میں یہ سطح ایک ہزار ایک سو 13 فٹ پر آگئی ہے۔

ارسا حکام نے بتایا کہ منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ڈیڈ لیول سے 63 فٹ اوپر جبکہ تربیلا ڈیم میں ڈیڈ لیول سے 30 فٹ اوپر رہ گیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث دونوں ڈیم میں پانی مکمل نہیں بھر سکا ہے اور ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہی صورتحال رہی تو آنے والے وقتوں میں ملک کو مزید پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر اقدامات اور ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کے بے جا استعمال کو روک کر خود سے اسے محفوظ بنانے کے طریقہ کار کو اپنا کر ہم نہ صرف اپنا بلکہ آنے والی نسل کا مستقبل بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں، ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ @MBilalKhan_ ہے۔