• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

صنفی مساوات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار

شائع December 19, 2018

اسلام آباد: عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کی عالمی سطح پر صنفی تفاوت کے حوالے سے پیش کی گئی فہرست برائے سال 2018 میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان صنفی مساوات کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بدترین ملک اور 149 ممالک کی فہرست میں 148ویں درجے پر موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق مصر، سعودی عرب، یمن اور پاکستان دنیا کے وہ 4 بدترین کارکردگی والے ممالک ہیں جہاں انتظامی عہدوں پر براجمان خواتین کی تعداد سب سے کم ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں سب سے نچلے درجے پر فائز پاکستان میں مجموعی طور پر صنفی مساوات کی شرح 55 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش اور سری لنکا ، جو خطے میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے ممالک ہیں، میں یہ تناسب بالترتیب 72 اور 68 فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صنفی تفاوت کے اعتبار سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

جینیوا میں موجود ادارے کی سالانہ رپورٹ میں 149 ممالک کے 4 شعبہ جات کا جائزہ لیا گیا جس میں تعلیم ، صحت، اقتصادی مواقع اور سیاسی اختیارات شامل تھے۔

عالمی رپورٹ برائے صنفی تفاوت —فوٹو: اے ایف پی
عالمی رپورٹ برائے صنفی تفاوت —فوٹو: اے ایف پی

ان میں پاکستان کی درجہ بندی اقتصادی شراکت داری اور مواقعوں کے لحاظ سے 146ویں، صحت اور بقا میں 145ویں جبکہ سیاسی اختیارات کے لحاظ پاکستان 97 نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق خوش آئند بات یہ ہے کہ ذیلی درجات میں پاکستان میں مساوی تنخواہ اور تعلیم کے حصول کے حوالے سے خاصی بہتری دیکھنے میں آئی ہے، تاہم فہرست کے نچلے درجے میں موجود ممالک کی تیزی سے بہتر ہونے کی صلاحیت کے اعتبار سے پاکستان میں اس بہتری کی رفتار غیر تسلی بخش ہے۔

مزید پڑھیں: ‘صنفی عدم مساوات ختم کرکے جی ڈی پی میں بہتری لائی جاسکتی ہے’

عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ تعلیم، صحت اور سیاسی نمائندگی میں جدت آنے کے اتنے سالوں بعد بھی ان تینوں شعبوں میں خواتین اس سال پیچھے دکھائی دیں اور صرف اقتصادی مواقع کے سلسلے میں صنفی فرق کچھ بہتر ہوتا دکھائی دیا لیکن یہ اتنا بہتر بھی نہیں کہ جس پر خوش ہوا جائے۔

دوسری جانب عالمی سطح پر اس وقت بھی مرد اور خواتین کی تنخواہوں میں اب بھی تقریباً 51 فیصد کا فرق موجود ہے جبکہ صنفی فرق جو 32 فیصد ہے اسے بھی ختم کرنا باقی ہے۔

ڈبلیو ای ایف کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی کے شعبہ جات میں ملازمتوں کے بڑھتے مواقعوں کے باوجود خواتین کی نمائندگی میں کمی ہے بالخصوص مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں خواتین کی تعداد انتہائی کم یعنی کل ملازمین کا محض 22 فیصدہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کے لیے معاشی مساوات کا خواب لگ بھگ ناممکن

رپورٹ کے مطابق دنیا کے 149 ممالک میں سے صرف 17 میں خواتین ریاست کی سربراہ ہیں جبکہ 18فیصد خواتین وزرا کے عہدوں پر کام کررہی ہیں اور عالمی سطح پر پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی 24 فیصد ہے۔

اسی طرح جن ممالک کے اعدا د و شمار میسر ہیں ان میں 34 فیصد انتظامی عہدوں پر خواتین فائز ہیں جبکہ بدترین کارکردگی دکھانے والے 4 ممالک پاکستان، سعودی عرب، یمن اور مصر میں یہ شرح محض 7 فیصد ہے۔

عالمی سطح پر خطے میں صنفی مساوات کے لحاظ سے جنوبی ایشیا دوسرے کم ترین درجے پر موجود ہے جس کے بعد مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور سب سہارا افریقہ کا خطہ ہے۔

مزید پڑھیں: صنفی برابری: رویے تبدیل کرنے ہوں گے

دوسری جانب یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں جنوبی ایشیا میں دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کی کارکردگی سب سے تیز ہے جس کے 7 ممالک میں سے 4 نے گزشتہ برس کے مقابلے میں اپنی درجہ بندی بہتر بنائی جبکہ دیگر 3 ممالک کے درجے میں کمی واقع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024