پاکستانی ’حلال‘ فوڈ اسٹال نیویارک میں توجہ کا مرکز
وہ دن گزرگئے جب نیویارک میں مقیم مسلمان تارکین وطن حلال کھانا کھانے سے متعلق پریشان ہوتے تھے۔
آج نیویارک میں حلال کھانے کا کاروبار ترقی کررہا ہے، حلال کھانا اتنا مشہور ہے کہ یہ کھانا کھانے والے اکثر افراد لفظ ’ حلال‘ کے معنی بھی نہیں جانتے۔
ایک امریکی دوست نے مجھے بتایا کہ ’ آج میں دوپہر میں حلال کھانا کھانا چاہتاہوں‘۔
ان کے لیے حلال کھانا صرف کھانے کی ایک اور قسم ہے۔
اگر آپ نیویارک میں ہاٹ ڈاگ خرید رہے ہیں تو اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ آپ اسے حلال فوڈ اسٹال سے ہی خریدیں گے، جن میں سے ایک ’ سیمیز حلال کارٹ ‘ بھی ہے۔
یہ تبدیلی ایک رات میں نہیں آئی، 2007 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نیویارک کے رہائشی ہاٹ ڈاک کے بجائے شہر مں موجود حلال کھانے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک دہائی بعد اس آرٹیکل میں بتائے گئے ہاٹ ڈاگز تقریباً ختم ہوگئے ہیں اور اب حلال کھانے کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
محمد عدنان عارف نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا کہ’ آپ کیا کھانا پسند کریں گے؟‘۔
پاکستانی تارکین وطن عدنان لگ بھگ تیس برس کے ہیں اور حلال اسٹال پر دن میں کام کرنے والے 2 افراد میں سے ایک ہیں۔
وہ 1995 میں امریکا آئے تھے۔
ان کے قیام کے دوران نیویارک میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اب تک یہیں مقیم ہیں۔
وہ پورا دن اسٹال میں رہتے ہیں اور صرف ریسٹ روم استعمال کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے باہر آتے ہیں۔
غروب آفتاب کے وقت انہیں اسٹال کے باہر مغرب کی نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ ایک ڈبے کو جائے نماز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
عدنان کے کام کا طریقہ انہیں نیویارک کو منفرد طریقے سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔
وہ مختلف قسم کے افراد سے رابطہ کرتے ہیں جن میں عقیدت مند مسلمان بھی شامل ہیں۔ خصوصاً اس لیے کہ گوشت کے لیے ذبح کیسے کیا جاتا ہے، نشے میں دھت کالج کے طلبا جو صرف رات بھر پارٹی کے بعد فوری طور پر کچھ کھانا چاہتے ہیں۔
عدنان عارف ک طرح سیمیز حلال اسٹال کے مالکان بھی پاکستانی ہیں۔
عدنان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے افراد کے لیے کام کرنا پسند کرتے ہیں جو ہمارے ثقافتی اور مذہبی پس منظر اور ضررویات سے تعلق رکھتے ہیں۔
جب انہیں کام کے دوران تھوڑا وقت ملتا ہے تو وہ پاکستان میں اپنی اہلیہ اور بچوں کو فون کرتے ہیں۔
یہ تصاویر ’ فوٹوگرافنگ نیویارک‘ گروپ شو کے لیے لی گئی تھیں اور اب نیویارک یونیورسٹی آرتھر ایل کارٹر جرنلزم انسٹیٹیوٹ میں ان کی نمائش جاری ہے۔