2018: ٹرمپ کے متنازع بیانات، اقدامات کا ایک اور سال
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا ماضی اور حال متنازع واقعات، بیانات اور اقدامات سے مزین ہے اور انتخابی مہم ہو یا اقتدار کے منصب پر فائز ہونے کے بعد کا عرصہ، آئے روز ڈونلڈ ٹرمپ کی کوئی نہ کوئی بات ہنگامہ برپا رکھتی ہے۔
صدر بننے سے قبل انہوں نے امیگریشن قوانین سخت کرنے، مسلمانوں پر پابندی لگانے، گوانتانوموبے فعال کرنے جیسے وعدے کیے اور منصب سنبھالنے کے بعد انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔
سال 2018 امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سال کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے ہوا کہ پاکستان کو امداد دے کر غلطی کی جبکہ اس کا اختتام انہی کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے کی گئی درخواست سے ہورہا ہے، جس میں انہوں نے پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون طلب کیا تھا۔
پاکستان کی امداد میں کٹوتی
سال 2018 کے آغاز پر ہی پہلے دن یکم جنوری کو امریکی صدر کا پاکستان کے خلاف سخت ترین مؤقف پر مبنی بیان سامنے آیا جس کے لیے انہوں نے اپنے پسندیدہ سماجی رابطے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور ٹویٹ کیا کہ امریکا نے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر سے زائد امداد دے کر بے وقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا جبکہ وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے‘
جس پر پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے خاصے غصے کا اظہار کیا گیا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی برہمی کو خاطر میں لائے بغیر 2 دن بعد 3 جنوری کو پاکستان کی دی جانے والی عسکری امداد میں 25 کروڑ ڈالر سے زائد کی کٹوتی کردی جس کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فراہم کی جانے والی امداد تقریباً آدھی رہ گئی تھی۔
جنوری میں ہی امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سخت مؤقف اپنایا کہ میرا خیال ہے کہ ہم اس وقت مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتے، وہ لوگ معصوم شہریوں کو قتل کررہے ہیں’، انہوں نے کہا تھا کہ مذاکرات کے لیے وقت آئے گا لیکن وہ وقت بہت دور ہے’۔
گوانتاناموبے دوبارہ فعال
اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانوموبے فعال کرنے کا عندیہ دیا تھا جبکہ باراک اوباما اسے بند کرنے کے خواہشمند تھے چناچہ 31 جنوری کو انہوں نے بدنام زمانہ جیل کو دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ایگزیکٹو آردڑ پر دستخط کردیے.
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ‘وہ کیوبا میں قائم گوانتانامو بے جیل کو ‘برے لوگوں’ سے بھر دیں گے، یہ فیصلہ درست ہوگا، امریکا کے خلاف دہشت پھیلانے والوں کو اس جیل میں بھیج کر ٹرائل کیے جائیں گے’۔
جوہری معاہدے سے دستبرداری
عالمی منظر نامے میں بحران اس وقت دیکھنے میں آیا جب اعلان کیے گئے وقت کے مطابق امریکی صدر نے مئی میں عالمی جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا، 2015 میں کیے گئے اس معاہدے میں ایران کو جوہری تجربات سے روکنے پر پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں اور مالی امداد بھی فراہم کی گئی تھی۔ امریکا کے دستبرداری اعلان کے باوجود معاہدے میں شامل دیگر ممالک نے معاہدے کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا ۔
سفارت خانہ یروشلم منتقل
امریکی صدر کا ایک اور انتہائی متنازع اقدام اس وقت دیکھنے میں آیا جب امریکا نے دسمبر 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے مئی میں اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کے اعلان پر عملدرآمد کیا جس کے لیے ان کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور داماد جیرڈ کشنر خصوصی طور پر اسرائیل گئے۔
اسی دوران ان کا ایک اور متنازع فیصلہ منظر عام پر آیا اور انہوں نے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی سربراہ کے طور پر جینا ہسپیل نامی ایسی خاتون کو نامزد کیا جو قیدیوں پر بدترین انسانی تشدد کے حوالے سے مشہور تھیں۔
ٹرمپ کا یوٹرن
امریکی صدر یوٹرن لینے میں کسی سے کم نہیں، 12 جون کو انہوں نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن سے تاریخی ملاقات کی جن کے ساتھ ان کی زبانی جنگ چلتی رہتی تھی، ملاقات کو انہوں نے خاصا خوشگوار قرار دیا اور پھر اچانک ہی چند دن بعد شمالی کوریا پر عائد پابندیوں میں توسیع بھی کردی۔
بعد ازاں وہ چین کے ساتھ بھی تنازع میں الجھ گئے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ کا آغاز ہوگیا جس کے تحت امریکا نے چینی مصنوعات پر ٹیرف عائد کیا جس کے جواب میں چین خاموش نہیں رہا اور اس نے بھی ردعمل کے طور پر ٹیرف میں اضافہ کیا۔
مواخذے کا خطرہ
اپنے جارحانہ رویے اور ہٹ دھرمی میں مشہور ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مواخذے کا خطرہ ہے اور ان کے ماتحت کام کرنے والے افراد کی جانب سے لکھی گئی کتابوں میں سامنے آنے والے انکشافات پر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر میرا مواخذہ کیا گیا تو امریکی معیشت تباہ ہوجائے گی۔
فلسطینی امداد میں کٹوتی
اپنی پالیسیوں میں امریکا کو فوقیت دینے والے صدر کسی نہ کسی کو دھمکی دیتے اور سنگین اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں، ایسے ہی ایک اقدام میں انہوں نے فلسطینی مہاجرین کے لیے جاری اقوامِ متحدہ کے پروگرام میں کٹوتی کرتے ہوئے 20 کروڑ ڈالر مالیت کی امداد روک دی اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ہدایت کی کہ اس رقم کو زیادہ ترجیحی منصوبوں میں خرچ کیا جائے۔
اس کے ساتھ انہوں نے پاک فوج کے لیے دہائیوں سے جاری تربیتی پروگرام میں بھی کٹوتی کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران امریکا جا کر خصوصی تربیت حاصل کرتے تھے۔
پناہ گزینوں سے امریکی صدر کی پرانی دشمنی
ایک پناہ گزین خاتون کے شوہر ہونے کے باوجود امریکی صدر شروع دن سے ہی امریکا میں آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف سخت ترین رویہ رکھتے ہیں لیکن میکسیکو سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے امریکا میں داخل ہونے والے خاندانوں سے ان کے بچے علیحدہ کرنے کے معاملے سے پوری دنیا میں ان کے خلاف غصے کی لہر دوڑ گئی حتیٰ کے خاتونِ اول بھی اس اقدام پر خاموش نہ رہ سکیں۔
بعد ازاں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ نے مذکورہ عمل کو ختم کیا لیکن اس معاملے پر ان کی سختی کسی صورت کم نہ ہوئی اور اکتوبر میں ان کا اعلان سامنے آیاکہ وہ پناہ گزینوں کی اولادوں کا پیدائشی حقِ شہریت ختم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ امریکا کا آئین انہیں یہ حق فراہم کرتا ہے لیکن امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر دھونس جماتے ہوئے کہا کہ وہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اسے ختم کر سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور خواتین
خواتین کے ساتھ ان کی بدسلوکی کے واقعات نے اس وقت بھی انہیں بھی تنازعات میں گھیرے رکھا جب انہوں نے صدارت کا منصب نہیں سنبھالا تھا لیکن صدر بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ تھم نہیں سکا اور انہوں نے ایک ایسے شخص کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کردیا جس پر خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا، اس حوالے سے سوال پوچھنے پر انہوں نے خاتون صحافیوں کی تذلیل کی اور ان کے سوالات کے جواب میں انتہائی توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔
دوسری جانب امریکی خاتون اول گویا دنیا کے سب سے طاقتور صدر کو خاطر میں ہی نہیں لاتیں، گزشتہ برس ایسی کئی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جب ٹرمپ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے میلانیا ٹرمپ نے ان کا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا لیکن کچھ عرصے پہلے دیے گئے ایک انٹریو میں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کسی اختلاف کی تردید مگر انٹرویو لینے والے صحافی کا کہنا تھا کہ میلانیا ٹرمپ انٹرویو کے دوران مضطرب نظر آئیں۔
جمال خاشقجی کا معاملہ
ماہ اکتوبر میں امریکی اخبار سے وابستہ اور شاہی خاندان کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشفجی ترکی میں قائم سعودی قونصل خانے میں شادی کے لیے دستاویزات حاصل کرنے گئے اور پھر کبھی نہیں لوٹے، ترکی نے دعویٰ کیا کہ انہیں قتل کردیا گیا لیکن سعودی عرب نے کہا کہ وہ وہاں سے واپس چلے گئے تھے۔
اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کا شدید ردعمل سامنے آنے کے بعد بالآخر سعودی حکومت نے یہ تسلیم کرلیا کہ جمال خاشقجی قونصل خانے میں عملے کے ساتھ ایک جھگڑے کے دوران قتل کردیے گئے، جس پر ایک عالمی رائے سامنے آئی کہ مذکورہ قتل کا حکم مبینہ طور پر ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا۔
لیکن امریکی صدر نے اس طرح کی ہر قسم کی رپورٹ کو مسترد کیا اور قتل کا اعتراف سامنے آنے کے باوجود سعودی عرب کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام سے گزیر کیا،ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کے بارے میں نرم مؤقف کی ایک بڑی وجہ سعودی عرب کی طرف سے بھاری مالیت کے امریکی اسلحے کی خریداری ہے۔
ٹرمپ اور میڈیا کی سرد جنگ
میڈیا کے ساتھ ٹرمپ کی جنگ پرانا معاملہ ہے، امریکی صدر گاہے بگاہے میڈیا پر غلط رپورٹنگ کرنے اور جھوٹ بولنے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں لیکن حال میں انہوں نے سی این این کے ایک صحافی کو تارکین وطن کے بارے میں سوال پوچھنے پر امریکا کا دشمن، گھٹیا آدمی اور بدتمیز قرار دیا اور صحافی کے وائٹ ہاؤس میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔
امریکی صدر کے اس اقدام کو الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تاہم انہوں نے بعد میں سی این این کے صحافی پر عائد پابندی اٹھالی تھی مگر صحافی نے اس معاملے پر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ کردیا تھا۔
قبل ازیں ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو ’عوام کا دشمن‘ قرار دیا تھا جبکہ امریکی صدر کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ نے اپنے والد کے دیے گئے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مذکورہ بیان پر اقوامِ متحدہ کی تنقید بھی سامنے آئی تھی جس میں ٹرمپ کے بیان کو صحافیوں کے لیے خطرناک قرار دیا گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کا امریکی صدر کو دیا گیا جھٹکا
سال کے اختتامی لمحات تک ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع فیصلوں اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے جس کے لیے وہ زیادہ تر ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہیں، ایسی ہی ایک ٹوئٹ میں حسبِ معمول انہوں نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم پاکستان کو اربو ں ڈالر نہیں دیں گے کیوں کہ پاکستان امریکا سے ڈالرلے کر کچھ نہیں کرتا۔
لیکن اس بار ان کے بیان پر انہیں ایسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے لیے بھی یقیناً حیرت کا باعث ہوگا، کیوں کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے انہیں امداد اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے اٹھائے گئے نقصان کا حساب کتاب بتادیا تھا، عمران خان نے اپنے ایک بیان میں صاف کہہ دیا کہ پاکستان امریکا کے لیے کرایے کی بندوق نہیں بنے گا۔
پاکستان کی جانب سے فوری اور موثر ردعمل کے بعد ڈونلڈٹرمپ کے مؤقف میں نرمی دیکھنے میں آئی۔ ہمیشہ پاکستان کو ڈومور کہنے والے اور ہدایت جاری کرنے والے ملک نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے درخواست کی کہ افغانستان کا مسئلہ پرامن طور پر حل کرنے کے لیےتعاون کریں جس پر پاکستانی حکومت نےمثبت ردعمل دیا اور پاکستان کی معاونت سے افغان طالبان کے ساتھ امریکا کے مذاکرات شروع ہوگئے۔
لکھاری ڈان ڈاٹ کام کی اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ @bia_siddiqui ہے