ہواوے کی گرفتار خاتون افسر پر امریکا سے دھوکے کا الزام
اسمارٹ فونز تیار کرنے والی دنیا کی تیسری بڑی چینی کمپنی ’ہواوے‘ کی کینیڈا میں گرفتار کی گئی چیف فنانشل افسر (سی ایف او) مینگ وانژو پر امریکا سے دھوکے کرنے کا الزم عائد کردیا گیا۔
مینگ وانژو کو رواں ماہ کے آغاز میں کینیڈین پولیس نے امریکی درخواست پر حراست میں لیا تھا، تاہم ان کی گرفتار 6 دسمبر کو ظاہر کی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے بتایا تھا کہ امریکی حکام کو شبہ ہے کہ مینگ وانژو نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔
ابھی یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ مینگ وانژو نے کس طرح خلاف ورزی کی، تاہم 7 دسمبر کو انہیں کینیڈا کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف امریکا کے ساتھ دھوکے کے الزام کے تحت سماعت کی گئی۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے اپنی خبر میں بتایا کہ مینگ وانژو کے خلاف لگائے گئے الزامات پر کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کی سپریم کورٹ نے 5 گھنٹے تک طویل سماعت کی، تاہم عدالتی کارروائی کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوگئی۔
مینگ وانژو کو اسی عدالت میں اگلی سماعت پر پیش کیا جائے گا اور اگر ان پر امریکا کے ساتھ دھوکے اور ایران کو فائدہ دینے کا الزام ثابت ہوگیا تو انہیں کم سے کم 30 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہواوے ایگزیکٹو گرفتار، چین اور امریکا کے تعلقات میں پھر کشیدگی
رپورٹ کے مطابق عدالت میں پہلی سماعت کے دوران عدالت نے بتایا کہ مینگ وانژو نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورژی کی اور انہوں نے 2009 سے 2014 کے درمیان ایک فرضی کمپنی بنا کر ایران کے ساتھ معاملات طے کیے۔
عدالت کے مطابق مینگ وانژو نے اسکائے کام نامی کمپنی بناکر ہواوے کو فائدہ دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسکائے نام ایک الگ ادارہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوران سماعت مینگ وانژو کو ہتھکڑیوں کے بغیر ہی پیش کیا گیا اور انہوں نے سبز رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔
کینیڈین حکام کا کہنا ہے کہ مین وانژو پرامریکی قوانین کی خلاف ورزیوں اور مالی بدعنوانیوں کا الزام ہے۔
مینگ وانژو کی گرفتار کے بعد امریکا اور چین کے درمیان پہلے سے کشیدہ تجارتی تعلقات میں مزیدہ کشیدگی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
مینگ وانژو ہواوے کمپنی کے بانی کی بیٹی ہیں اور وہ کینیڈا میں خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔