• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

روپے کی قدر میں کمی پر ایف آئی اے سے رپورٹ طلب

شائع December 8, 2018
حالیہ دنوں میں روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی تھی—فائل فوٹو
حالیہ دنوں میں روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی تھی—فائل فوٹو

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمٰن ملک نے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رپورٹ طلب کرلی۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ روپے کی قدر مسلسل گرنے پر ایف آئی اے جامع رپورٹ 22 دسمبر تک کمیٹی کو جمع کرائے، ساتھ ہی غیر ملکی زرمبادلہ ایکٹ کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز سے تفتیش کرے۔

رحمٰن ملک نے کہا کہ ایف آئی اے تفتیش کرے کہ روپے کی قدر میں اچانک کمی اور اس میں مسلسل گراوٹ کی کیا وجوہات ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافے کے بعد کمی کا رجحان

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ یہ پریشان کن بات ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو روپے کی قدر میں کمی کا پہلے سے علم نہ ہو، اگر وزیراعظم و وزیر خزانہ کو روپے کی قدر میں کمی کا علم نہیں ہوتا تو پھر کون سے عناصر و عوامل ملوث ہیں۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر گرنے میں غیر ملکی ایکسچینج ایجنٹس کا کیا کردار ہے، معلوم کیا جائے کہ کہیں ڈالر کی قلت اس کی قیمت بڑھانے کے لیے مصنوعی طور پر تو پیدا نہیں کی جارہی کیونکہ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ کچھ ایجنٹ مل کر مارکیٹ سے ڈالر غائب کرکے مصنوعی قلت پیدا کرتے تھے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے کہا کہ ڈالر غائب ہوجانے کے بعد اسٹیٹ بینک کو کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ڈالر مہنگے داموں لینا پڑتا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کون اور کتنے وقت میں روپے کو گرانے کا فیصلہ کرتا ہے؟ کیا روپے کی قدر گرانے سے کسی خاص گروپ نے تو فائدہ نہیں اٹھایا؟

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ کیا روپے کی قدر کم کرتے وقت اس کی رازداری کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ 17 جولائی کو ڈالر کی قیمت اچانک 107 سے 128 روپے ہوئی اور پھر 128 سے 134 جبکہ 30 نومبر کو یہ قیمت مزید بڑھتے ہوئے 144 روپے تک پہنچ گئی۔

رحمٰن ملک نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے وعدوں اور معاہدوں کو سامنے لائے اور ایف آئی اے روپے کی قدر گرنے میں غیرملکی زرمبادلہ، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے کردار کو دیکھے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم، آئندہ چند ماہ میں بہتری کی امید

ان کا کہنا تھا کہ وقت کی ضروت ہے کہ روپے کی قدر گرنے کے پیچھے عوامل معلوم کیے جائیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں روپے کی قدر میں اچانک 8 سے 10 روپے کمی ہوئی تھی اور ڈالر 134 سے بڑھ کر 142 سے 144 تک ٹریڈ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسٹیٹ بینک نے اس معاملے میں مداخلت کی تھی اور ڈالر کی قیمت میں کچھ حد تک کمی ہوئی تھی اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 137 سے 139روپے تک پہنچ گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024