• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’انتخابات 2018 میں امیدواروں سے آن لائن بدسلوکی کی شکایات موصول ہوئیں‘

شائع December 8, 2018

کراچی: انتخابات کی نگرانی سے متعلق ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے ڈیجیٹل انتخابی مہم کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ پر عام انتخابات 2018 کو غلط معلومات اور جعلی خبروں سے متاثر کیا گیا، خاص طور پر خواتین سے آن لائن بدسلوکی کی شکایات موصول ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی جانب سے ’پاکستان کے عام انتخابات 2018 میں خواتین سیاستدانوں کی نمائندگی‘ کے عنوان سے رپورٹ جاری کی گئی۔

ڈی آر ایف رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین سیاستدانوں کو زیادہ تر ایسے تبصرے ملے جو ذاتی نوعیت کے تھے جبکہ مرد سیاستدانوں کو جس بدسکلوکی کا سامنا کرنا پڑا وہ سیاسی نظریات کے گرد مرکوز تھی۔

مزید پڑھیں: عام انتخابات 2018 ماضی کے تینوں انتخابات کی نسبت بہتر اور شفاف تھے، فافن

رپورٹ میں 7 بڑی سیاسی جماعتوں کی 43 خواتین سیاستدانوں کے فیس بل صفحات سے 43 ہزار 3سو 72 تبصروں کا جائزہ لیا گیا، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ بدتمیزی اور ناپسندیدہ دونوں تبصروں کی اکثریت سیاسی انتقام کے طور پر (49 فیصد) تھی، جس میں 25 فیصد تبصرے جنسی نوعیت، 23 فیصد ذاتیات، 2 فیصد دھمکیوں اور 1 فیصد نسل پرستی کے تھے۔

اگرسماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر متحرک خواتین سیاست دانوں کی بات کی جائے تو اس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنی مخالف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ(ن) سے آگے رہی، تاہم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ پی ٹی آئی سے خواتین سیاستدان کم تعداد میں آن لائن متحرک تھی لیکن فالوورز اور پوسٹس پر ردعمل کے لحاظ سے دوسری جماعتوں کی خواتین کے مقابلے میں ان کی آن لائن مصروفیات زیادہ تھی۔

ڈی آر ایف کی رپورٹ میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) پاکستان مسلم لیگ(ق) اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین سیاستدانوں کو بڑی تعداد میں ناپسندیدہ تبصرے موصول ہوئے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کی کوئی نگرانی نہیں کی گئی اور الیکشن کے لیے بنایا گیا ضابطہ اخلاق پارٹیوں کی آن لائن سرگرمیوں پر لاگو نہیں ہوا۔

ڈی آر ایف کی 24 جولائی کی نگرانی میں یہ بات سامنے آئی کہ مختلف بڑی سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا مہم اس روز متحرک تھی اور پی ٹی آئی، مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتون کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس اپنے آفیشل پیجز پر مہم کے حوالے سے مواد پوسٹ کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عام انتخابات میں ووٹنگ شرح 53.3 فیصد رہی، فافن

رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے 23 اور 24 جولائی کی درمیانی شب انتخابی مہم ختم کرنے کی ڈیڈ لائن کے بعد پی ٹی آئی کا اسنیپ چیٹ اکاؤنٹ (pti.imrankhan) متحرک تھا۔

اس کے علاوہ مہم کا وقت ختم ہونے کے باوجود حلقہ این اے 131 کے ووٹرز کو پی ٹی آئی کی جانب سے ایس ایم ایس موصول ہوا جبکہ 24 جولائی کی دوپہر تک سیاسی جماعتیں یوٹیوب اکاؤنٹ سے لائیو اسٹریمنگ کرتی نظر آئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی آر ایف کی جانب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے 89 فیس بک اشتہارات کی نگرانی کی گئی، جس میں 36 فیصد اشتہار پی ٹی آئی کے فیس بک پیج، 32 فیصد شہباز شریف کے فیس بک پیج اور 12 فیصد مسلم لیگ (ن) کے آفیشل پیج سے کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024