معاشی حالات مرغی اور انڈے سے بڑھ کر اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں
آج کل پاکستانی سیاست میں سنجیدہ ترین مسائل پر بھی بحث کے بجائے تمسخر اُڑانے اور کسی بات کا بتنگڑ بنانے کا رواج عام ہوگیا ہے، جسے میں سیاسی جگت بازی کہتا ہوں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے کے بعد اس سیاسی جگت بازی میں کافی اضافہ ہوگیا ہے، کیونکہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کے وزرا اور اراکینِ اسمبلی خود ہی اس کا موقع فراہم کیے چلے جارہے ہیں۔ ایسے میں سب سے مشہور سیاسی جگت بازی تو وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے اس وقت لگائی جب انہوں نے ہیلی کاپٹر کے فی کلو میٹر سفر کا خرچہ محض 55 روپے بتایا، پھر تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی نئی جگت میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہی رہی۔ اس جگت بازی میں بعض اچھے کاموں پر بھی ایسی ایسی جگتیں لگائی جاتی ہیں کہ اللہ معافی!
پی ٹی آئی نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح 100 روزہ پلان پیش کیا، لیکن اس میں منفرد یہ ہے کہ یہ پہلی حکومت ہے جس نے یہ مدت مکمل ہونے پر اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی جاری کرنے کی کوشش کی۔ یہ رپورٹ کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں پیش کی گئی، جس میں پی ٹی آئی کے پُرجوش کارکنان کی بھرمار تھی، تقریب کیا جلسہ کہیے جناب۔
توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان اپنی تقریر میں اُن 6 اہم ترین نکات کا احاطہ کریں گے جو حکومت میں آنے سے قبل پی ٹی آئی نے اپنے ایجنڈے میں شامل کیے تھے۔ ان نکات میں تعلیم، صحت، احتساب، سی پیک میں تبدیلی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، معیشت اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
ہم تو یہ بھی سوچ بیٹھے تھے کہ تقریب میں وزیرِاعظم عمران خان معیشت کو درپیش میکرو اکنامک چیلنجز اور اس حوالے سے اپنی حکومت کی ترجیحات کا ذکر بھی کریں گے۔ مگر انہوں نے غربت میں خاتمے کے حوالے سے اپنی اور اپنی حکومت کی ترحیجات کو بیان کرنے میں زیادہ وقت صَرف کیا۔
عمران خان کی حکومت قائم ہونے سے قبل برائلر مرغی کی فی کلو گرام قیمت 200 روپے سے کم تھی جو اب 300 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کی وزیرِاعظم عمران خان نے انڈا، مرغی اور چوزے کا فارمولا پیش کردیا۔
یہ فارمولا ایسا کچھ غلط بھی نہیں تھا مگر ناجانے کیوں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی یہ منصوبہ مذاق بن کر رہ گیا جس کا ذکر عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں بھی کردیا۔ فیس بک ہو یا ٹوئٹر یا پھر وٹس ایپ، ہر طرف مرغی انڈے اور چوزے کا تذکرہ ہرطرف عام ہے۔ عمران خان نے تو اپنی تقریر میں کٹے (گائیں یا بھینس کا بچھڑا) کا بھی ذکر کیا تھا، اسے تو کسی نے بھی تمسخر کا نشانہ نہیں بنایا البتہ مرغی اور انڈے کے ذکر پر محفل ضرور زعفران زار ہوئی۔
عمران خان کے حمایتی اس حوالے سے تاویلیں گڑھ گڑھ کر لا رہے ہیں اور اس سلسلے میں بل گیٹس کے منصوبے کا حوالہ ضرور دیا جارہا ہے۔
مرغی اور انڈے کے کاروبار سے انکار نہیں، بلکہ یہ ایک اچھا پہلو ہے اور اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ بل گیٹس دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہیں۔ بل گیٹس نے سافٹ ویئر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ یہ کمپیوٹر جس پر میں نے یہ تحریر ٹائپ کی ہے، چاہے کسی بھی ملک میں یا کسی بھی کمپنی نے بنایا ہو، اسے چلانے والا نظام یا آپریٹنگ سسٹم بل گیٹس کی کمپنی مائیکروسافٹ کا ہی تیار کردہ ہی ہے۔ ظاہر ہے بل گیٹس کی دولت کے چرچے تو آپ لوگوں نے سن رکھے ہوں گے۔
مگر کیا انہوں نے اپنی یہ دولت مرغی اور انڈے سے حاصل کی ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ اب وہ اپنی دولت کے ذریعے دنیا میں غربت کے خاتمے کے حوالے سے پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ بل گیٹس کے متعدد منصوبے بھارت سمیت افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے غریب ملکوں میں چل رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی بل گیٹس نے پولیو کے خاتمے کے حوالے سے خطیر رقم کی معاونت کی ہے۔
بل گیٹس نے غریب ملکوں اور خطوں کے لیے مرغبانی کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کردہ ویڈیو کے مطابق بل گیٹس کا کہنا ہے کہ چوزے اور مرغی کو پالنے کے لیے کسی قسم کی سرمایہ کاری کی ضروت نہیں ہے، لائیو اسٹاک ایک دلچسپ شعبہ ہے اور لوگوں کو غربت سے نکال سکتا ہے۔
اگر کسی خاندان کو ابتدائی کٹ فراہم کردی جائے، جس میں ایک مرغا اور چند مرغیاں ہوں تو یوں وہ مرغیوں کی پرورش کریں گے اور مرغیوں کے انڈوں کے ذریعے مزید چوزے بھی حاصل کرسکیں گے۔ بل گیٹس کے مطابق مرغی اپنا کھانا خود تلاش کرلیتی ہے اور انسانی کھانے کے فوڈ سورس پر انحصار نہیں کرتی بلکہ مرغی کی خوراک گھاس اور کیڑے مکوڑے ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں مرغبانی کی صنعت موجود ہے بھی یا نہیں یا پھر اس صنعت کو گھریلو مرغبانی کے ذریعے ترقی دی جاسکتی ہے؟
اگر پاکستان میں پولٹری کی صنعت پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک مضبوط صنعت کے طور پر ملک میں موجود ہے۔ اس صنعت نے گزشتہ 30 سال میں کافی ترقی کی ہے۔ آپ جس دعوت یا شادی بیاہ یا کسی بھی نوعیت کی تقریب میں چلے جائیں، اکثر و بیشتر مرغ کھانے ہی پیش کیے جاتے ہیں۔ مگر آج سے 30 سال قبل صورتحال ایسی نہیں تھی، بلکہ یہ مثال مشہور تھی کہ اگر کسی کے گھر مرغی پکی ہے تو یا تو کوئی بیمار تھا یا مرغی بیمار تھی۔
جس وقت مرغبانی کی صنعت شروع ہوئی تو پاکستان میں مرغی کا گوشت بکرے اور گائیں کے گوشت سے مہنگا تھا۔ پھر بتدریج بہتری آتے آتے پہلے مرغی بکرے کے گوشت سے سستی ہوئی اور پھر گائے کے گوشت سے۔ اس وقت مرغی کا فی کلو گرام گوشت 300 روپے میں دستیاب ہے، گائیں کا گوشت 500 روپے تک اور بکرے کا گوشت ایک ہزار روپے کے قریب قریب دستیاب ہے۔ یہ قیمتیں ایسی ہیں کہ 15 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا مہینے میں چند کلو گرام گوشت کھانے سے بھی قاصر ہے۔
اس وقت ملک میں پروٹین فراہم کرنے میں پولٹری کی صنعت سب سے آگے ہے۔ پولٹری ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں مرغ بانی یا پولٹری صنعت کا سالانہ کاروباری حجم 750 ارب روپے ہے، اور اس سے ایک کروڑ 50 لاکھ افراد کا رزق وابستہ ہے۔ یہ شعبہ 10 سے 12 فیصد کی شرح سے ترقی کررہا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں اور شہروں کے مضافات میں 20 ہزار پولٹری فارمز موجود ہیں۔ ان پولٹری فارموں میں مرغبانی کی گنجائش 5 ہزار سے 5 لاکھ تک ہے۔
مرغی پاکستان میں پروٹین کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہونے کے علاوہ ملک میں گوشت کی 45 فیصد تک کی ضروریات بھی پوری کرتی ہے۔ پولٹری کی صنعت سالانہ 18 ارب سے زائد انڈے اور 2 ارب کلو گرام سے زائد گوشت فراہم کرتی ہے۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ پولٹری کی صنعت پاکستان میں کافی مستحکم ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں پروٹین کی کمی ہے جس کو دُور کرنے کی ضرورت ہے، شاید اسی وجہ سے عمران خان نے اپنی تقریر میں مرغبانی کا ذکر کیا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بل گیٹس کے بعد پاکستان میں صرف عمران خان ہی ہیں جنہوں نے اس منصوبے پر عملدرآمد کا اعلان کیا ہے؟ شاید نہیں۔
عمران خان کی تقریر سے ان کے اندر موجود اپنے فیصلوں کے دفاع کا عنصر بھی جھلکتا ہے۔ وہ بار بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ احمد بزدار کو مخاطب کرتے رہے اور انہی کی تعریف یا سپورٹ کرتے نظر آئے۔ لیکن شاید عمران خان یہ بھول گئے تھے کہ خیبر پختونخوا میں بھی انہی کی حکومت ہے جبکہ بلوچستان میں ان کی جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ پھر جن پائلٹ منصوبوں کا بھی اعلان ہوا وہ بھی صوبہ پنجاب میں شروع کیے گئے تھے۔
عمران خان نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ تمام کام اور پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز ان کی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں کے میں ہی ہوا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ نیب کے زیرِ حراست سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور موجودہ قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے سال 2016ء میں اس منصوبے پر کام شروع کردیا تھا، لیکن عمران خان کیا کریں وہ تو کسی اپوزیشن لیڈر کا نام لینے کو تیار ہی نہیں، ایسے میں بھلا وہ ان کے کیے گئے ایسے کام جو اچھے تھے انہیں کیسے سراہتے۔
لڑکیوں میں پروٹین کی کمی دُور کرنے کے لیے شہباز شریف کے شروع کردہ پروگرام میں ایک ہزار اسکولوں کی طالبات کو مرغبانی کے لیے وسائل فراہم کیے تھے کیونکہ پاکستان میں پروٹین کے حوالے سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ گھر میں اگر گوشت یا انڈا وغیرہ پکایا گیا ہو تو اس میں اولیت مرد کو دی جاتی ہے اور اس کے بعد خواتین کی باری آتی ہے۔ ویسے تو مجموعی طور پر اکثر پاکستانیوں میں پروٹین کی کمی پائی جاتی ہے مگر خواتین میں مردوں کی نسبت یہ کمی کافی زیادہ ہے۔
اس منصوبے میں ایک ہزار سرکاری اسکولوں کی طالبات کو ایک مرغا، 4 مرغیاں اور پنجرہ دیا گیا اور ان لڑکیوں کو مرغیوں کو پالنے کے بارے میں بھی آگاہی دی گئی۔
پاکستان میں فی کس گوشت کی سالانہ کھپت 7 کلو گرام ہے جبکہ فی کس انڈوں کی سالانہ کھپت 65 سے 70 ہے۔ خوشحال ملکوں میں یہ تناسب سالانہ 40 کلو گرام گوشت اور فی کس 300 انڈے سالانہ ہے، پاکستان میں غربت کے خاتمے اور عوام میں پروٹین کی کمی دور کرنے کے لیے مرغبانی اور مویشی پروری پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ نہ صرف پاکستان گوشت کی مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ اس میں ہونے والے اضافی پیداوار کو بیرون ملک بھی فروخت کیا جاسکے۔
دنیا بھر میں حلال گوشت کی مارکیٹ ایک ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور پاکستان گوشت برآمد کرنے والے ملکوں میں 19ویں نمبر پر ہے۔ اگر اس شعبے پر توجہ دی جائے تو پاکستان جلد ہی اپنا مقام بہتر بناسکتا ہے۔
آخر میں اہم ترین بات یہ کہ سیاست میں طنز و مزاح نوک جھونک اور ہلکی پھلکی لفظی جھڑپ تو چلتی ہی رہتی ہے، مگر معیشت کو اس وقت بڑے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے مرغی، انڈے اور کٹے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا اور یہ اس وقت تک شاید نہیں ہوسکے جب تک سب سیاسی طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوجاتیں۔
لہٰذا ایسی صورت میں جب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود میثاق معیشت کی تجویز اسمبلی میں پیش کرچکے ہیں تو اب حکومت کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس تجویز پر عملی اقدامات بھی شروع کردینے چاہیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حالات کا تقاضہ تو یہ بھی ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے اسی طرح ایک قومی پالیسی بنائی جائے جس طرح گزشتہ حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کی خاطر اپوزیشن کے اشتراک سے نیشنل ایکشن پلان کی صورت بھرپور پالیسی بنائی تھی۔