• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

بحریہ ٹاؤن راولپنڈی نظرثانی اپیل: سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی طلب

شائع December 3, 2018 اپ ڈیٹ December 4, 2018
پرویز الٰہی موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں—فائل فوٹو
پرویز الٰہی موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ہیں—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کی نظرثانی درخواست پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے فیصلے پر دائر نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ موضع تخت پڑی اور موضع ملکھیتر میں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ناجائز قبضے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل کی تھی۔

اس درخواست پر آج سماعت ہوئی، جس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اعتزاز احسن پیش ہوئے، جنہوں نے بتایا کہ عدالت نے سروے جنرل کو جنگلات کی زمین کی حدود کے تعین کا حکم دیا تھا، جس کی رپورٹ ایک ہفتے میں آجائے گی۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن عدالت پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دے، سپریم کورٹ

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہی نہیں، رپورٹ آنے پر عمل درآمد بینچ بنا دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جنگلات کا رقبہ طے ہوچکا، صرف حدود کا تعین باقی ہے، جنگلات کا رقبہ 2210 ایکڑ تھا۔

اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف عدالتی فیصلے میں ایک جج نے اختلاف کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکثریتی فیصلے کا ہی اطلاق ہوتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل اعتزاز احسن سے ازراہ تفنن پوچھا کہ آپ کو جج بننے کی پیشکش ہوئی تھی، آپ جج نہیں بنے کیوں کہ آپ کو پیسے پیارے تھے۔

اس پر اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ میں نے سی ایس ایس بھی چھوڑا تھا کیونکہ مجھے پیسے پیارے تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں نہیں پیارے تھے، اس لیے جج بن گئے۔

دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ آپ درختوں کی بات کریں گے، جنگل کی بات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کیس: ’زمین کی الاٹمنٹ میں بدنیتی نکلی تو پورا ڈھانچہ گر جائے گا‘

اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ قانون سے ناواقفیت کی بنا پر ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے قانون سے ناواقفیت پر ہوگیا؟ اختلافی نوٹ لکھنے والے جج نے بھی فیصلے پر دستخط کیے ہیں۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ جنگلات کے رقبے کے حوالے سے آپ بحث کرچکے ہیں۔

ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دعوے کے مطابق رقبہ ایک ہزار 7سو 41 ایکڑ تھا جبکہ سپریم کورٹ اس دعوے کو مسترد کرچکی ہے، اصل رقبہ 2 ہزار 2 سو 10 ایکڑ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے 2 ہزار 2 سو10 ایکڑ رقبہ معلوم شدہ ہے، یہاں سے جتنا جنگل کاٹا گیا وہ غلط کاٹا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بینچ نے تو سول کارروائی کا حکم دیا تھا، ہم فوجداری قانون کے تحت کارروائی پر غور کرے گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرویز الٰہی کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کس قانون کے تحت بحریہ ٹاؤن کو زمین دی گئی، چوہدری شجاعت، ان کے بیٹے سالک اور بیوی کے نام منتقل ہوئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو نوٹس کرتے ہیں کہ کیسے زمین وزیر اعلیٰ کے بھائیوں کو چلی گئی۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے محکمہ جنگلات کی سمری منظور کی تھی، اسی پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے تحت وزیر اعلیٰ کا حد بندی میں کوئی کردار نہیں، صرف ایک مساوی بنیاد پر سارا ریکارڈ بدل دیا گیا۔

سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اعتزاز احسن اس کا مجرم بحریہ ٹاؤن ہے یا اس وقت کی صوبائی حکومت؟

یہ بھی پڑھیں: ’سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کا ہر صورت تحفظ کرے گی‘

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی آگر بتائیں کہ حدبندی کا حکم کیسے جاری کیا، موضع تخت پڑی میں بحریہ ٹاون کے لیے زمین کی حد بندی پرویز الٰہی کے احکامات پر کی گئی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکوت کی زمین بحریہ ٹاون کو چلی گئی جبکہ پنجاب حکومت خود کہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کو حد بندی کی منظوری کا اختیار نہیں تھا۔

بعد ازاں عدالت نے بحریہ ٹاؤن روالپنڈی ںظرثانی اپیل میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو عدالت طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک کیے لیے ملتوی کردی۔

بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کیس

خیال رہے کہ 04 مئی 2018 کو عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں اسلام آباد کے قریب تخت پڑی میں جنگلات کی زمین کی از سر نو حد بندی کا حکم دیا اور کہا کہ تخت پڑی کا علاقہ 2210 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، لہٰذا فاریسٹ ریونیو اور سروے آف پاکستان دوبارہ اس کی نشاندہی کرے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کو جنگلات کی زمین پر قبضے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور مری میں جنگلات اور شاملات کی زمین پر تعمیرات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مزید تعمیرات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کو مزید ہدایت دی گئی تھی کہ وہ راولپنڈی میں غیر قانونی الاٹمنٹ کے معاملے کو دیکھے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024