• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

عمران خان کی حکومت کے 100 دن اور معاشی اعشاریے

پہلے 100 دنوں کی حکومتی کارکردگی اور معیشت کے حوالے سے اقدامات پر سرمایہ کار بھی بہت زیادہ محتاط ہوگئے ہیں۔
شائع November 29, 2018 اپ ڈیٹ November 30, 2018

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو پہلے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں کسی بھی حکومت کے ابتدائی 3 ماہ یا 100 دن کو بہت اہم گردایا جاتا ہے کیونکہ حکومت نے انتخابات نئے نئے جیتے ہوتے ہیں اور اس نے معیشت، سیاست، سماجیات، سفارت کاری، امن و امان اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے جو وعدے عوام سے کیے ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہوتے ہیں۔ حکومت کے پہلے 100 دنوں کی کارکردگی کو برسرِاقتدار جماعت کے منشور اور انتخابی وعدوں کی تکمیل سے متعلق اقدامات سے بھی جانا جاتا ہے۔

مگر پی ٹی آئی کے پہلے 100 دنوں پر عوام، میڈیا اور ناقدین کی نظر کچھ زیادہ ہی گہری ہے، اور کیوں نہ ہوں، پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل ہی اپنے 100 دنوں کا ایجنڈا تحریری صورت میں جاری کردیا تھا۔ اس ایجنڈے میں متعدد شعبوں سے متعلق منصوبہ بندی کو شامل کیا گیا تھا۔ جس میں حکومتی اصلاحات اور گورننس، وفاق کی مضبوطی، معیشت کی بحالی، زرعی شعبے کی ترقی اور پانی کی بچت، سماجی خدمات میں انقلابی تبدیلیوں اور پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت اور ساتھ اس بات کی بھی ضمانت دی گئی کہ اس ایجنڈے پر عمل ہوگا۔

عمران خان کو وزیرِاعظم بنے 100 دن مکمل ہوگئے ہیں اور اس دوران ایجنڈے پر کام، کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے ہر طرف تبصرے جاری ہیں۔ اپوزیشن حکومت کی کارکردگی کی ابتدا کو صفر قرار دے رہی ہے تو حکومت اپنی کارکردگی سے مطمئن نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی کے اس 100 دن ایجنڈے کے معاشی پہلوؤں کا اس تحریر میں جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔

100 دن کے ایجنڈے کے مسودے کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دعویٰ سامنے آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی معاشی ترقی کے دعوے محض ایک فریب اور سراب کے سوا کچھ نہیں اور اعداد و شمار کو غلط طور پر پیش کیا گیا تھا۔

کنزیومر ازم اور کھپت کو فروغ دیا گیا جس سے ملکی قرضہ غیر مستحکم سطح تک پہنچ گیا ہے۔ مگر معیشت کی بنیاد 5 سال بعد بھی اچھی حالت میں موجود نہیں۔ ٹیکس ٹُو جی ڈی پی ریشو، بلواسطہ ٹیکس نظام کی خرابیاں درآمدات میں اضافے، برآمدات میں کمی، زرِمبادلہ ذخائر میں کمی، غیر ملکی قرض میں اضافہ، توانائی کا شعبہ، پی آئی اے اسٹیل ملز میں گورننس کی کمی اور خسارہ اور اس سب کو ٹھیک کرنے کے لیے 10 نکات پیش کیے گئے تھے۔

پیش کیے گئے نکات میں ہنرمند افرادی قوت کی تیاری کے ساتھ ساتھ فوری طور پر ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا، پیداواری شعبہ، صنعت، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی بحالی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، سیاحت کا فروغ، ٹیکس اصلاحات، پاکستان میں کاروبار دوست ماحول کی فراہمی، حکومتی کاروباری اداروں میں اصلاحات، پاکستان کے توانائی کے چیلنجز سے نمٹنا، پاکستان چین اقتصادی راہدری میں اصلاحات اور تبدیلیاِں اور عوام تک مالیاتی صنعت کی خدمات کی فراہمی شامل تھے۔

مگر لگتا تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت بنانے کے ساتھ ہی ان نکات پر عمل کرنے کے بجائے میکرواکنامک اعشاریوں کو ٹھیک کرنے میں لگ گئی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے قائم ہونے کے ساتھ وہ تمام اقدامات اٹھائے جن پر ماضی کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، سوئی گیس کو 134 فیصد تک مہنگا کرنا اور بجلی کے فی یونٹ چارجز میں اضافہ ایسے اقدامات تھے جس سے عوام بلبلا اٹھے۔


مہنگائی کی شرح

انفلیشن یا قیمتوں میں اضافے کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ سال 2015ء سے لے کر 2018ء کے اختتام تک مہنگائی کی شرح یا سی پی آئی انفلیشن کی اوسط شرح 3.8 فیصد رہی ہے۔ جبکہ مالی سال 2016ء میں سی پی آئی انفلیشن 2.9 فیصد کی سطح پر تھا۔

ماضی میں گیس بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے اور ان پر عائد ٹیکسوں کے بوجھ پر کڑی تنقید کرنے والی پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالتے ہی توانائی کے شعبے میں قیمتوں کو بڑھایا جس سے عام صارف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے وقت اگست میں سی پی آئی انفلیشن 5.8 فیصد تھا جو اکتوبر میں بڑھ کر 6.8 فیصد ہوگیا ہے۔ انفلیشن کے نومبر کے اعداد و شمار ابھی آنا باقی ہیں۔


روپے کی قدر

سال 2014ء سے 2017ء کے دوران ڈالر کی قیمت 98 سے بڑھ کر 111 روپے پر جا پہنچی تھی۔ سال 2018ء کے اوائل میں ڈالر 115 روپے کا ہوگیا۔ جولائی 16 سے 20 جولائی کے دوران ڈالر کی قیمت میں 10 روپے تک اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

مگر پاکستان میں انتخابی نتائج کے بعد نہ صرف روپے کی قدر میں گراوٹ کو بریک لگ گئی بلکہ اس کی قدر دوبارہ بحال بھی ہوئی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 131 روپے سے کم ہوکر پہلے 129 پر آئی پھر 127 روپے ہوگئی۔

عمران خان کے بطور وزیرِاعظم حلف اٹھاتے وقت انٹر بینک مارکیٹ میں ایک ڈالر 123 روپے 95 پیسے میں دستیاب تھا۔ مگر 100 دن مکمل ہونے پر ایک ڈالر 134 روپے 10 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اس طرح 100 دنوں کے دوران روپے کی قدر میں 10 روپے 15 پیسے کی کمی دیکھی گئی ہے۔

انٹر بینک مارکیٹ کے اثرات سے اوپن مارکیٹ بھی محفوظ نہ رہ سکی اور ایک ڈالر 122 روپے 50 پیسے سے بڑھ کر 100 دنوں میں 135 روپے 40 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اس طرح روپے کی قدر میں 12 روپے 90 پیسے کی نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

9 اکتوبر کو پی ٹی آئی حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کی اور ایک ڈالر انٹربینک میں 133 روپے 50 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 136 روپے 50 پیسے تک پہنچ گیا۔

مالیاتی صنعت سے وابستہ افراد کو انتخابات کے فوری بعد روپے کی قدر میں اضافے اور ڈالر کو سستا کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات میں کسی گڑبڑ یا پالیسی سازی کی سطح پر کرپشن کی بُو محسوس ہوتی ہے۔ اگر روپے کی قدر میں گراوٹ ہی کرنا تھی تو روپے کی قدر میں بہتری کیوں کی گئی؟ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں روپیہ مہنگا، پھر سستا اور پھر مہنگا کرنے کے پیچھے کوئی سازش نظر آتی ہے۔ روپے کی قدر کو کم کرنے سے زرِمبادلہ ذخائر پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کسی بھی ملک کی کرنسی کی ویلیو ایشن سے متعلق کوئی بھی حکومتی وزیر بیان بازی سے گریز کرتا ہے۔ صرف وزیرِ خزانہ ہی اس معاملے پر بیان دینے کا مجاز ہوتا ہے۔ مگر 9 اکتوبر کو جب روپے کی قدر میں کمی کی گئی اس دن وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی نے ڈالر کی قیمت میں اضافے پر کہا ہے کہ سنا ہے ڈالر 140 روپے تک جا رہا ہے، یہ تھوڑا مشکل وقت ہے قوم اسے برداشت کرلے، آگے بہت اجالا ہے۔

اس بیان پر بھی ایکسپورٹرز اور خصوصاً کرنسی ڈیلرز کو تشویش لاحق ہوئی کہ ابھی روپے کی قدر میں کمی دیکھی جارہی ہے اور وزیر موصوف کس طرح روپے کی قدر سے متعلق بیان دے سکتے ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ انتخابات کے بعد روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے متعلق تحقیقات کرائے۔


زرِمبادلہ کے ذخائر

پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار ملتے ہی معیشت میں بیلنس آف پے منٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان اپنے زرِمبادلہ ذخائر کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ پاکستان کے مالی سال 2015ء-2016ء کے دوران اوسط زرِمبادلہ 23 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ جس میں سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر 18142 کی بلند ترین سطح پر موجود تھے۔

پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے وقت زرِمبادلہ ذخائر 16 ارب 38 کروڑ ڈالر تھے۔ جس میں سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر 18 ارب 14 کروڑ ڈالر تھے۔ اس دوران حکومت کو سعودی عرب سے صرف 1 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں، جبکہ معاہدہ 9 ارب ڈالر کا ہے۔ سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر ملنے کے باوجود مجموعی زرِمبادلہ ذخائر 13 ارب 71 کروڑ ڈالر ہوگئے جس میں سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر 8 ارب 29 کروڑ ڈالر کی سطح پر ہیں۔

وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ متحدہ عرب امارات اور چین سے بھی مالی معاونت مل جائے تاکہ پاکستان کو جولائی 2019ء تک جو 9 ارب ڈالر کی قرض کی ادائیگی کرنا ہے اس کے لیے وسائل پیدا کیے جاسکیں۔ مگر گرتے ہوئے زرِمبادلہ ذخائر ایک تشویشناک صورتحال پیدا کررہے ہیں۔


کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ

یہ وہ شعبہ ہے جس میں وفاقی حکومت نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ جن میں درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کے حوالے سے اقدامات شامل ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی، متعدد اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ کیا گیا ہے۔

جولائی سے اکتوبر 2018ء کے رواں کھاتوں کا خسارہ 4 ارب 84 کروڑ ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ مالی سال کی سہہ ماہی میں یہ خسارہ 5 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات میں کسی قدر اضافہ ہوا ہے، جبکہ درآمدات میں اضافے کی شرح میں کمی ہوئی ہے، مگر مجموعی درآمدات بھی بڑھ گئی ہیں۔

پہلی سہہ ماہی میں مصنوعات اور خدمات کی تجارت کا خسارہ 13 ارب 22 کروڑ ڈالر ہوگیا۔ اس طرح اگر یہی صورتحال برقرار رہے تو مالی سال کے اختتام پر مجموعی تجارتی خسارہ 52 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ اب اگر گزشتہ مالی سال کی بات کی جائے تو یہ خسارہ 42 ارب ڈالر سے زائد رہا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے انڈر انوائسنگ کو روکے جانے کے اقدامات ان 100 دنوں میں نظر نہیں آئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انڈر انوائسنگ پر قابو پالیا جائے تو تقریباً 9 ارب ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔


بجٹ خسارہ

پی ٹی آئی گزشتہ حکمرانوں پر شاہی اخراجات پر کڑی تنقید کرتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے کفایت شعاری اپنانے کا اعلان کیا، جس میں وزیرِاعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی، گاڑیوں اور بھینسوں کی فروخت شامل ہے۔ تاہم یہ کفایت شعاری کے اقدامات بجٹ خسارے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔

موجودہ مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران بجٹ خسارہ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے۔ مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.4 فیصد تک پہنچ گیا، جبکہ پورے مالی سال میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5.1 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

مالی سال 2018ء-2019ء کی پہلی سہہ ماہی میں حکومت کے اخراجات 1644 ارب روپے رہے مگر سال 2017ء-2018ء کی پہلی سہہ ماہی میں یہ اخراجات 1466 ارب روپے تھے۔ اس طرح پی ٹی آئی اور نگران حکومت کی جانب سے تمام تر اخراجات میں کٹوتی کے اعلانات کا اثر بجٹ خسارے پر نہیں ہوا، اور سہہ ماہی کے دوران بجٹ خسارے میں 178 ارب روپے کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے 542 ارب روپے کا قرض لیا جو گزشتہ مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے 101 ارب روپے سے زائد ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ مالی خسارہ ایسے وقت میں بڑھا ہے کہ جب حکومت نے ترقیاتی اخراجات کو تقریباً منجمد کیا ہوا ہے اور نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے علاوہ جاری منصوبوں پر بھی پہلے 100 دنوں میں کام کی رفتار سست رہی ہے۔ جس کی بڑی وجہ فنڈز کا اجرا نہ ہونا ہے۔ ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہوا تو 5.1 فیصد خسارے کے ہدف سے زیادہ بجٹ خسارے کا سامنا ہوسکتا ہے۔


ٹیکس کی وصولی

عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ ٹیکس کی شرح کو کم کرنے کے باوجود زیادہ ٹیکس جمع کریں گے اور اقتدار ملنے کے 2 ماہ کے اندر اندر 8 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کریں گے۔ مگر 100 دنوں میں ٹیکس وصولی کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ اس دعوے سے قطعی میل نہیں کھاتے ہیں۔

مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران ٹیکسوں کی وصولی ایک ہزار 102 ارب روپے رہی جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی سہہ ماہی میں ٹیکسوں کی وصولی 1 ہزار 25 ارب روپے تھی۔ ٹیکس وصولی میں 8 فیصد کے اضافے کے باوجود ٹیکس وصولی ہدف سے 70 ارب روپے کم رہی ہے۔ وفاق ایوان ہائے تجارت وصنعت کے سینئر نائب صدر ناصر مظہر کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کے حوالے سے پالیسی سازی پر بہت کام ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے کئی اقدامات تجویز کیے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ ٹیکس اتھارٹی میں اختیارات کی تقسیم کی جائے گی۔ اس وقت ایف بی آر میں ٹیکس پالیسی، ٹیکسوں کے نفاذ اور شرح کا تعین اور ان کی وصولی، آڈٹ کے نوٹس کا اجرا اور نوٹسز پر فیصلے جیسے تمام کام ایف بی آر کے حکام ہی کررہے ہیں۔ جس سے نظام میں شفافیت نہیں ہے اور ایف بی آر کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہیں۔ نئی ٹیکس پالیسی میں تمام کام الگ الگ کیے جارہے ہیں۔


گھروں کی تعمیر

پی ٹی آئی کے پہلے 100 دنوں کے منصوبے میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے قدامات شامل تھے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے پیش رفت کی گئی ہے مگر اس حوالے سے بھی ہوم ورک مکمل نہیں کیا گیا ہے اور اسکیم کا اجرا کردیا ہے۔

اس وقت پہلے مرحلے کے لیے فارم جمع کرانے کا عمل جاری ہے۔ جس میں ملک کے 7 اضلاع اسلام آباد، کوئٹہ، سکھر، فیصل آباد، سوات، مظفرآباد اور گلگت شامل ہیں۔

اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے کوئی ادارہ یا اتھارٹی قائم نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کے فارمز کی تقسیم اور جمع کرانے کا بوجھ پہلے سے رش کا شکار نادرا پر ڈال دیا گیا ہے۔

تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد جو اس حوالے سے قائم کمیٹی میں بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک پالیسی سازی پر بھی کام شروع نہیں ہوا ہے۔ کمیٹی کے ہر اجلاس میں ایک نئی تجویز آجاتی ہے اور پرانی پیچھے چلی جاتی ہے۔ اس وقت گھر کے لیے زمین، اس کا نقشہ اور ڈیزائین کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔

حکومت کو گھروں کی اسکیم کا اعلان کرنے سے قبل اربن ہاؤسنگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنا ہوگی، جس پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔


کاروباری اعتماد

پہلے 100 دنوں کی حکومتی کارکردگی اور معیشت کے حوالے سے اقدامات پر سرمایہ کار بھی بہت زیادہ محتاط ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے بعض اہم کاروباری شخصیات سے رابطہ کیا کہ وہ حکومت کے ابتدائی 100 دنوں پر اپنا تبصرہ پیش کریں۔ جس پر انہوں نے معذرت کرلی اور کہنے لگے کہ حالات بہت خراب ہیں، پی ٹی آئی کے خلاف بولو تو وہ لوگ بہت ناراض ہوتے ہیں، اس لیے متعدد نامی گرامی صنعت کاروں، بینکاروں اور تجزیہ کاروں نے تبصرہ کرنے سے معذرت کرلی۔

کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول جانچنا ہو تو اسٹاک مارکیٹ سب سے اہم ہوتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا اصول بہت واضح ہے۔ ماضی کی کارکردگی، حال کے دعوے اور مستقبل کے نتائج کی بنیاد پر کمپنیوں کے حصص کی خریداری یا فروخت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر حصص کی فروخت بڑے پیمانے پر جاری ہو تو معاملہ اسٹاک مارکیٹ کا نہیں بلکہ یہ معاشی مستقبل پر سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد کا مظہر ہوتا ہے۔

پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 24 مئی 2017ء کو 100 انڈیکس 53 ہزار کے ساتھ اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا مگر اس کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا عمل جاری نہ رہ سکا۔ عمران خان کے حلف اٹھاتے وقت 100 انڈیکس 42 ہزار 446 پر موجود تھا اور 100 دنوں کے دوران اتار چڑھاؤ کے بعد 27 نومبر کو 40 ہزار 894 پر بند ہوا ہے۔ اس طرح حکومت کے 100 دنوں کے دوران 1 ہزار 552 کی کمی ہوئی ہے۔ یہ کمی اس بات کی غماز ہے کہ سیکنڈری مارکیٹ میں سرمایہ کار پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہیں، تو پھر پرائمری مارکیٹ میں پیسہ کون لگائے گا؟

اب معاملہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض کے معاہدے پر بھی اٹک اور لٹک گیا ہے اور اس نے معیشت کو ایک جمود کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔ سرمایہ کار انتظار میں ہیں کہ آئی ایم ایف سے کن شرائط پر قرض کا معاہدہ ہوتا ہے؟ بنیادی شرح سود جو اس وقت 8.5 فیصد کی سطح پر ہے، میں مزید اضافہ ہوگا یا نہیں؟ روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی یا نہیں؟ گیس، بجلی اور پیٹرول مزید مہنگے ہوں گے یا نہیں؟ ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوگا یا نہیں؟ اسی طرح کے متعدد سوالات کے ساتھ سرمایہ کار بھی اپنی نظریں حکومت اور اس کی آنے والے وقتوں کی کارکردگی پر جمائے بیٹھے ہیں۔

— ہیڈر ایاز احمد لغاری


راجہ کامران گزشتہ 15 سال سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اس وقت نیو ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹر کام کر رہے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔