چین جی پی ایس سسٹم تیار کرنے والا دوسرا ملک بن گیا
چین امریکا سے اپنی مخالفت کو اب خلا میں بھی لے گیا ہے اور کم از کم 9 ارب ڈالرز کی لاگت سے ایسا نیوی گیشن سسٹم تیار کیا ہے جو کہ امریکی ساختہ جی پی ایس پر اس کا انحصار ختم کردے گا۔
جی پی ایس سیٹلائیٹس کو لوکیشن ڈیٹا بیمنگ کے لیے اسمارٹ فونز، گاڑیوں کے نیوی گیشن سسٹمز اور اس طرح کے تمام نظاموں میں کیا جارہا ہے اور ایسے تمام سیٹلائیٹس کو امریکی فضائیہ کنٹرول کرتی ہے اور اب چین دنیا کا دوسرا ملک بن گیا ہے جو اس ٹیکنالوجی کو تشکیل دینے میں کامیاب رہا ہے۔
اس چیز نے چینی حکومت کو عدم اطمینان کا شکار کیا تو اس نے ایک متبادل نظام کی تیار پر کام شروع کیا جسے ایک امریکی سیکیورٹی تجزیہ کار نے چینی تاریخ کے چند بڑے خلائی پروگرامز میں سے ایک قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیں : پاکستان نے مقامی سطح پر تیار کردہ 2 سیٹلائٹس خلاء میں بھیج دیں
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق میری لینڈ یونیورسٹی کے ایرو اسپیس انجنیئرنگ کے پروفیسر مارشل کپلان کا کہنا تھا کہ چینی امریکی جی پی ایس پر انحصار کرنا نہیں چاہتے، وہ ایسی کسی کو نہیں چاہتے جس کو امریکی جب چاہے بند کردیں۔
چین نے اپنے نیوی گیشن سسٹم کو بیدویو کا نام دیا ہے جو کہ اس وقت چین اور اس کے پڑوسیوں کے لیے کام کررہا ہے اور دنیا بھر کے لیے 2020 تک قابل رسائی ہوگا جو کہ چینی صدر کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تھت وہ اپنے ملک کو مستقبل کی ٹیکنالوجیز کا عالمی قائد بنانا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ چین کا انتہائی جرات مندانہ منصوبہ ہے جو کہ اس ملک کے لیے بے مثال کامیابی بھی ہے جو کہ پہلے ہی خلافئی کمرشل پرواز، مصنوعی سورج سے سستی توانائی اور انسانی ساختہ چاند پر بھی کام کررہا ہے۔
چین نے اس نیوی گیشن سسٹم کی تیاری کا کام 90 کی دہائی میں شروع کیا تھا اور اب تک اس پر 8.98 ارب ڈالرز کرچ کرچکا ہے جب تک یہ لاگت 2020 میں 10.6 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔
رواں برس اس منصوبے کے تحت چین نے بڑے سنگ میل کو اس وقت طے کیا جب اس نے 18 سیٹلائیٹس اس مقصد کے لیے خلا میں چھوڑیں جبکہ مجموعی طور پر یہ تعداد 40 سے زائد ہوچکی ہے۔
2020 تک مزید 11 سیٹلائیٹس کو چھوڑا جائے گا۔
اس دوسری عالمی نیوی گیشن سسٹم کے لیے کمپنیوں کو منفرد انفراسٹرکچر، میٹریلز، پرزے اور سافٹ وئیر تیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس حوقالے سے چینی کمپنیاں ایسی ڈیوائسز تیار کررہی ہیں جو بیدویو سے 2020 تک مطابقت پیدا کرسکیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ سالانہ ڈیڑھ کروڑ بیدویو پر کام کرنے والی چپس صرف خودکار گاڑیوں میں ہی استعمال ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: ناسا سیٹلائٹ سے پاکستان میں پانی کا مسئلہ حل؟
اسی طرح بیدویو ان ایبل میپنگ اور پوزیشنگ سروسز سنگاپور حکومت کو رواں سال مہیا کی گئی ہے۔
چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور پرکشش آٹو مارکیٹ ہے اور چینی حکومت چاہتی ہے کہ تمام گاڑیان 2020 میں بیدویو کو استعمال کریں، جس کے لیے بڑی کار کمپنیاں جیسے ٹویوٹا اور واکس ویگن وغیرہ کام بھی کررہی ہیں۔
سام سنگ، ہیواوے اور شیاﺅمی کے اسمارٹ فونز میں بھی اس ٹیکنالوجی کو شامل کرنے پر کام ہورہا ہے جبکہ عالمی سطح پر اسمارٹ فونز چپس تیار کرنے والی امریکی کمپنی کوالکوم کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے چینی جی پی ایس سسٹم کو سپورٹ کررہی ہے۔
چین اس ٹیکنالوجی کو حکومتی طور پر تیار ہونے والے طیاروں کے لیے گزشتہ سال سے استعمال کررہی ہے۔
کچھ سال یہلے یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ پاکستان ایشیا کا پانچواں ملک ہے جو چین کی اس نیوی گیشن سسٹم کو استعمال کررہا ہے۔