سائنسدانوں نے پہلی بار دماغ کا چھپا ہوا حصہ دریافت کرلیا
سائنسدانوں نے دماغ کے ایسے ننھے حصے کو دریافت کرلیا ہے جو صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے اور یہی انہیں دیگر جانداروں کے مقابلے میں منفرد بناتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس حیرت انگیز دریافت سے رعشے کے امراض (پارکنسن) اور موٹر نیورون امراض کے علاج میں مدد مل سکے گی۔
30 سال سے اس تحقیق میں مصروف سائنسدانوں کو شک تھا کہ دماغ میں ایسا حصہ موجود ہے مگر وہ دیکھنے سے قاصر تھے۔
نیورو سائنسز آسٹریلیا کے محققین نے دماغ کے اس چھپے ہوئے حصے کو دریافت کیا۔
انہوں نے اسے Endorestiform Nucleus کا نام دیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ حصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دیگر جانداروں میں یہ کہیں نظر نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دماغ کے بڑے حجم سے ہٹ کر یہ حصہ انسانوں کو دیگر جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔
یہ حصہ دماغ اور اسپائنل کورڈ جنکشن کے قریب دریافت کیا گیا ہے، یہ وہ حصہ ہے جو سنسر اور موٹر انفارمیشن کو جوڑتا ہے جو کہ جسمانی توازن، کھڑے بیٹھنے کا انداز اور موٹر موومنٹ کا کام کرتا ہے۔
محققین کے خیال میں دماغ کا یہ دریافت ہونے والا حصہ فائن موٹر کنٹرول کے میکنزم کا حصہ ہے۔
اس دریافت سے محققین کو پارکنسن اور موٹرنیورون امراض کے علاج تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔
پارکنسن امراض میں مسلز اکڑ جاتے ہیں، حرکت سست، نیند متاثر، شدید تھکاوٹ اور زندگی کا معیار متاثر ہوتا ہے جو بتدریج معذوری کا باعث بن جاتا ہے۔
موٹرنیورون امراض میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے عصبی خلیات ٹھیک طریقے سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔