گزشتہ 2 دہائیوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر و ٹیبلٹس کے بڑھتے استعمال کے باعث کتابیں پڑھنے کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اور جو صاحبِ ذوق افراد اب بھی کتابیں خرید کر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کے لیے ایک اہم مسئلہ اچھی اور نایاب کتابوں کی عدم دستیابی ہے۔
کیونکہ متعدد کلاسک انگریزی ادب کی کتابیں اب نایاب ہوچکی ہیں، جبکہ کئی ممالک میں نئی حکومتی پالیسیوں، بڑھتے ہوئے عدم رواداری، مذہبی و سیاسی اختلافات اور تشدد کے رجحان کے باعث کچھ کتابوں پر پابندی بھی عائد کی جا رہی ہے، جس کی ایک حالیہ مثال کویت میں ہونے والا عالمی ادبی فیسٹیول بھی ہے، جس میں معروف روسی مصنف دوستو وسکی کے ناول 'برادر کرامازوف' سمیت تقریباً ایک ہزار عالمی کتابوں پر پابندی عائد کی گئی۔
واضح رہے کہ دوستو وسکی کا یہ کلاسک ناول خدا کے وجود، انسان کی آزادانہ انتخاب کی خصوصیت اور دیگر اہم اخلاقی اقدار جیسے حساس موضوع پر لکھا گیا ہے، جس میں مذہبی سوچ اور خیالات میں ٹکراؤ کے باعث کویت میں اس پر پابندی عائد کی گئی، جبکہ یہاں گزشتہ 5 سالوں میں تقریباً 4 ہزار کتابوں پر پابندی عائد کی گئی، جن میں جیبریل گارشیہ مارکوئس کا ناول ’ہنڈرڈ ایئرز آف سولی ٹیوڈُ (تنہائی کے 100 سال) اور وکٹر ہوگو کی ’ہنچ بیک آف ناٹری ڈیم‘ جیسی شہرہ آفاق کتابیں بھی شامل ہیں۔
کویت انٹرنیشنل لٹریچر فیسٹیول میں اس قدر سخت سنسرشپ پالیسی کے خلاف بین الاقوامی پبلشرز نے شدید احتجاج بھی کیا، اگرچہ یہ سنسر شپ 2006ء میں پریس اینڈ پبلی کیشن کے لیے بنائے گئے نئے قوانین کے مطابق ہے، تاہم چند دہائیوں پہلے تک کویت کو علاقائی پبلیکیشن میں مرکزی حیثیت حاصل تھی، جہاں سے نہ صرف عربی زبان کی کتابیں کثیر تعداد میں شائع ہوتی تھیں بلکہ سائنس اور انگریزی و دیگر زبانوں کے کلاسک ادب کی کتابیں بھی یہاں با آسانی دستیاب ہوتی تھیں۔
کویت کی طرح دیگر ممالک میں بھی ثقافتی و سماجی تفاوت کے باعث کئی ایسی کتابوں پر پابندی عائد کی جارہی ہے جو دیگر ممالک میں نہ صرف شوق سے پڑھی گئیں بلکہ بیسٹ سیلرز میں بھی شامل رہیں اور ان پر پابندی عائد کیے جانے کی کوئی معقول وجہ بھی موجود نہیں۔
ڈاکٹر ژواگو
جیسے بورس پاسٹر نیک کے نوبل انعام یافتہ ناول ‘ڈاکٹر ژواگو‘ کو ابتدا میں روس میں ہی شائع کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی، کیونکہ اس کی کہانی سوویت یونین کے انقلاب کے گرد گھومتی ہے، اس وجہ سے اس کتاب کو ٹکڑوں کی صورت میں امریکا میں شائع کیا گیا، جہاں بعد ازاں اسے ادب میں نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔
نوبل انعام پر سوویت یونین کی حکومت نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے پاسٹر نیک کو انعام نہ لینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور انہیں سوویت یونین کی مصنفین کی تنظیم سے بھی نکال دیا گیا، مگر پاسٹر نیک کی وفات کے کچھ عرصے بعد گورباچوف کے دور میں اس ناول کو وہاں اشاعت کی جزوی اجازت مل گئی تھی۔
دی گریٹ سول: مہاتما گاندھی اینڈ ہز سٹرگل ٹو انڈیا
2011ء میں شائع ہونے والی جوزف لی لی ویلڈ کی کتاب 'دی گریٹ سول: مہاتما گاندھی اینڈ ہز سٹرگل ٹو انڈیا‘ کو بھارت میں شدید عوامی ردِعمل کے باعث بین کردیا گیا تھا، یہاں تک کے بھارتی ریاست گجرات کی اسمبلی ارکان نے کتاب پڑھے بغیر صرف سنی سنائی باتوں اور تبصروں پر ہی اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔
اس کتاب میں مہاتما گاندھی کو ہم جنس پرست کے طور پر دکھایا گیا ہے، گجرات کے علاوہ بقیہ بھارتی ریاستوں میں اس کتاب پر اب کوئی پابندی نہیں۔
ایلس ایڈونچرز ان دی ونڈر لینڈ
ایسی ہی ایک کتاب 'ایلس ایڈونچرز ان دی ونڈر لینڈ' ہے، لیوس کیرول کا تحریر کردہ یہ ناول 1865ء میں شائع ہوا، جس میں ایک لڑکی لیوس ایک خرگوش کا پیچھا کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے ایک نئی حیران کن دنیا میں داخل ہوجاتی ہے۔ جہاں کی مخلوق اس کی اپنی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔
اس ناول کی خصوصیت یہ تھی کہ ایلس کے ایڈونچرز سے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی متاثر ہوئے اور اس کے اچھوتے آئیڈیاز، کرداروں اور خیالی دنیا نے پاپولر ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے مگر کچھ عرصے پہلے اس ناول کو چین میں صرف اس لیے بین کردیا گیا کہ اس میں جانوروں کو بولتے دکھایا گیا تھا، جس سے انسان اور جانور ایک جیسے یا ایک لیول پر محسوس ہوتے تھے اور دعویٰ کیا گیا کہ اس ناول سے چھوٹے بچوں کے ذہنوں پر بُرے اثرات پڑسکتے ہیں۔
ففٹی شیڈز
‘ففٹی شیڈز’ 3 کتابوں پر مشتمل ٹرائیلوجی ہے، جس کے مصنف ای ایل جیمز ہیں، اس سیریز کا پہلا ناول ففٹی شیڈز آف گرے تھا۔
مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کی سائیکی پر لکھا گیا یہ ناول مخصوص شائقین میں پسند کیا گیا۔ اس سیریز کے دوسرے ناول ‘ففٹی شیڈز ڈارکر‘ اور تیسرا حصہ ’ففٹی شیڈز فریڈ‘ بھی ہیرو کرسچیئن گرے اور ہیروئن انستازیا سٹیل کے تعلقات کے گرد گھومتے ہیں۔
ان تینوں ناولز میں نفسیاتی مسائل اور ماضی کی تلخیوں کے شکار مردوں کے بڑے مسائل کو سامنے لایا گیا ہے، جو عموماً عام افراد کی سمجھ میں نہیں آتے۔ غیر اخلاقی مواد اور جنسیات کا ذکر کثرت سے ہونے کے باعث اس ٹرائی لوجی کو پہلے بھی کئی ممالک کی لائبریریز میں بین کیا جاچکا ہے اور حال ہی میں اس پر بننے والی فلم اور کتاب دونوں پر ہی ملائشیا میں پابندی عائد کی گئی۔
دی ڈا ونچی کوڈ
’دی ڈا ونچی کوڈ‘ کا شمار ڈان براؤن کی بہترین اور بیسٹ سیلر کتابوں میں کیا جاتا ہے، سسپنس اور تھرلر سے معمور، انتہائی ذہانت سے لکھا گیا یہ ناول ایک میوزیم میں ہونے والے قتل اور اس کی تحقیقات میں ہونے والے نئے اور چونکا دینے والے انکشافات کے گرد گھومتا ہے۔
قتل کی یہ واردات آخر میں معروف مصور لیونارڈو ڈا ونچی کی ایک تخلیق سے جا ملتی ہے، مگر اس سے کچھ تاریخی حقائق ہمیشہ کے لیے مسخ ہوجاتے ہیں۔ اسی باعث اس ناول کو لبنان میں بین کردیا گیا، کیونکہ اس میں عیسائی مذہب سے متعلق کچھ اہم حقائق توڑ مروڑ کے پیش کیے گئے ہیں۔
اینڈ ٹینگو میکس دی تھری
‘اینڈ ٹینگو میکس دی تھری’ ایک سچی کہانی پر لکھی گئی بچوں کی کتاب ہے، جس کے مصنف جسٹن رچرڈسن اور پیٹر پارنل ہیں۔
نیویارک سینٹرل ہل پارک کے چڑیا گھر میں رہنے والے 2 پینگوئن کی حقیقی کہانی پر مبنی اس کتاب کو گزشتہ 10 برس کی انتہائی چیلنجنگ کتاب تصور کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر کی لوکل لائبریریوں میں یہ بہت مشکل ہی سے جگہ بنا پائی ہے، کیونکہ اس میں 2 ایسے پینگوئنز کی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں مگر ساتھ رہنے اور خاندان بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور چڑیا گھر میں اپنے محافظ کی مدد سے اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کتاب کو پیچیدہ موضوع کی وجہ سے سنگاپور کی تمام لائبریریوں میں بین کیا جاچکا ہے۔
دی اینیمل فارم
مایہ ناز مصنف جارج اورویل کے کلاسک ناول ’دی اینیمل فارم‘ کو اشاعت کے بعد سے ہی مختلف ممالک میں بین کیا جاتا رہا ہے، جس کی ابتداء روس نے کی کیونکہ اس میں کمیونزم پر خاصی کڑی تنقید کی گئی تھی، کچھ عرصے قبل اس کتاب پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں بھی پابندی عائد کی گئی تھی، جس کی وجہ حکومتی پالیسیز اور کتاب میں درج مواد میں تضادات بتائی گئی تھی جبکہ اس کلاسک ناول پر شمالی کوریا اور ویت نام میں بھی پابندی عائد ہے۔
جناح، انڈیا-پارٹیشن اینڈ انڈی پینڈنس
دنیا بھر کے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی متعدد کتابیں مختلف وجوہات کی بنا پر بین کی جاتی رہی ہیں، جیسے 2009ء میں شائع ہونے والی جسونت سنگھ کی کتاب 'جناح، انڈیا-پارٹیشن اینڈ انڈی پینڈنس' کو بھی تاریخی حقائق مجروح کرنے کے باعث پاکستان میں بین کیا جاچکا ہے۔
صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (20) بند ہیں