چاند کے بعد چین کی 'مصنوعی سورج' کی تیاری
چین عالمی معیشت پر اپنی دھاک بٹھانے کے بعد نہ صرف خلا میں اپنا نام پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اس نے ’مصنوعی چاند‘ بنانے کے بعد اب ’مصنوعی سورج‘ بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے۔
گزشتہ ماہ چین کی جانب سے مصنوعی چاند بنائے جانے کی منصوبہ بندی کا اعلان سامنے آیا تھا، اب اس کے ماہرین ’مصنوعی سورج' کی تیاری میں مصروف ہیں جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ یہ سورج، حقیقی سورج سے کئی گُنا زیادہ گرم ہوگا۔
چین کے ہیفائی انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل سائنسز کے محققین نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک زمینی سورج (ارتھ بیسڈ سن اسٹیمیولیٹر) بنایا ہے، جو 10 کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: چین کا 'مصنوعی چاند' بنانے کا منصوبہ
خیال رہے کہ حقیقی سورج کا درجہ حرارت ایک کروڑ 50 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مصنوعی سورج آئندہ سالوں میں 'نیوکلیئر فیوژن' کا ایک سستا اور بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔
خیال رہے کہ زمین پر نیوکلیئر فیوژن کا عمل شروع کرنے کے لیے کم از کم 10 کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے اور یہ سورج اتنا درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس میں دلچسپ بات یہ ہے چین نیوکلیئر فیوژن سے متعلق تجربات کو ’مصنوعی سورج‘ کا نام دے رہا ہے، تاہم اسے مصنوعی چاند کی طرح خلا میں نہیں بھیجا جائے گا۔
چینی محققین نے 2006 میں 'ایکسپیری مینٹل ایڈوانسڈ سپر کنڈکٹنگ ٹوکاماک (ایسٹ)' فیوژن ری ایکٹر قائم کیا تھا۔
نیوکلیئر فیوژن کے اس طریقہ کار میں 2 ہائیڈروجن ایٹمز ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ماحول دوست توانائی پیدا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 2018 میں دو سیاح چاند پر جائیں گے
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ طریقے سے پیدا کی جانے والی توانائی روز بروز توانائی کے ختم ہوتے ذخائر کا مناسب حل ثابت ہوگی۔
محققین نے جاری کیے گئے حالیہ بیان میں کہا کہ ’نیوکلیئر فیوژن توانائی کے حصول کا بہترین طریقہ ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’نیوکلیئر فیوژن میں خام مال کے طور پر درکار 'ڈی ٹیریم' اور 'ٹریٹیم' سمندر میں وافر مقدار میں موجود ہیں‘۔
نیوکلیئر فیوژن کے علاوہ ڈی ٹیریم اور ٹریٹیم کوئی تابکاری مواد پیدا نہیں کرتے اس لیے یہ ماحول دوست ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں