فیس بک پر سنگین الزامات : نیویارک ٹائمز کی چشم کشا رپورٹ
فیس بک کو 2017 سے شدید بحران کا سامنا ہے جیسے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت، صارفین کی ڈیٹا پرائیویسی، نفرت انگیز مواد اور دیگر۔
ان مسائل نے دنیا کی مقبول ترین سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو مشکلات کا شکار کررکھا ہے اور اس پر غفلت اور کاروباری مفادات کو ترجیح دینے کے الزامات کا سامنا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اس حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا کہ فیس بک کی جانب سے کس طرح ناقدین پر جوابی وار کیے جارہے ہیں۔
معاملات کو التوا میں ڈالنے، تردید اور واشنگٹن میں اپنے حق میں مہم سمیت متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں، اس رپورٹ کے 6 اہم نکات درج ذیل ہیں۔
فیس بک کو روسی مداخلت کا پہلے سے علم تھا
2016 کے اواخر میں مارک زکربرگ نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ یہ ایک مضحکہ خیز خیال ہے کہ ان کی کمپنی نے انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، مگر کمپنی کے سیکیورٹی ماہرین کو اندر کے حقائق کا علم تھا۔
ان ماہرین نے 2016 کے موسم بہار میں دریافت کیا تھا کہ روسی ہیکرز ایسے فیس بک اکاﺅنٹس کے ساتھ جڑے ہیں جو کہ امریکی صدارتی مہم سے منسلک ہیں، کئی ماہ بعد ماہرین نے دیکھا کہ روسی کنٹرول اکاﺅنٹس سے ہیکنگ کے شکار ڈیموکریٹ ای میلز کی تفصیلات شیئر کی جارہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق درحقیقت فیس بک کو روسیوں کی سرگرمیوں کے شواہد ایک سال پہلے مل چکے تھے جس کے بارے میں امریکی انتخابات کے بعد عوام اور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے آگاہ کیا گیا۔
کمپنی کو ٹرمپ کے حامیوں کا ڈر تھا
2015 میں جب ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم تارکین وطن پر پابندی کا مطالبہ کیا تو فیس بک کے ملازمین اور کمپنی سے باہر موجود ناقدین نے کمپنی سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیا۔
مارک زکربرگ نے اس پر غور کیا اور اپنے ماتحتوں سے رائے لی کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے کمپنی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں اور کیا ان کے اکاﺅنٹ کو معطل یا پوسٹ کو ہٹایا جائے۔
اگرچہ مارک زکربرگ ذاتی طور پر اس پوسٹ کے خلاف تھے مگر انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اقدام کو التوا میں ڈال دیا تاکہ ری پبلکنز کے سخت ردعمل سے ہونے والے نقصان کو ٹالا جاسکے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ پوسٹ اب بھی فیس بک پر موجود ہے۔
فیس بک کی جانب سے ناقدین کے خلاف مہم
روسی مداخلت کے فیس بک کے تاخیر سے اعتراف پر تنقید بڑھنے پر کمپنی نے اپنے حق میں ایک مہم شروع کی جس کی نگرانی سی او او شیرل سینڈبرگ نے خود کی، تاکہ ناقدین کا مقابلہ کرکے عوامی غصے کو مخالف ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب موڑا جاسکے۔
فیس بک نے اس مقصد کے لیے امریکی سینیٹر مارک وارنر کے سابق چیف آف اسٹار کی خدمات کو اس مہم کے لیے حاصل کیا۔
شیرل سینڈبرگ نے ذاتی طور پر سینیٹر ایمی کلوبوچر سے رابطہ کرکے ان کی تنقید پر شکایت کی، کمپنی نے ایک پی آر کمپنی کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ اپنے سیاسی ناقدین کے خلاف منفی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے جبکہ گوگل جیسی کمپنیوں پر الزامات عائد کیے جاسکیں۔
ان کوششوں میں ارب پتی ڈونر جارج سوروس کو بھی نشانہ بنایا گیا جو کہ فیس بک مخالف مہم کے پشت پر تھے، جبکہ فیس بک کی تعریف اور گوگل و ایپل کے اوپر تنقید پر مبنی اسٹوریز کو ایک متنازع نیوز سائٹ پر شائع کرایا گیا۔
کیمبرج اینالیٹیکا پر ردعمل
فیس بک کو رواں سال مارچ میں اس وقت دنیا بھر میں تنقید کا سامان کرنا پڑا جب مختلف میڈیا اداروں کی مشترکہ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ کیمبرج اینالیٹیکا نامی کمپنی نے کس طرح کروڑوں امریکی ووٹرز کا ڈیٹا استعمال کیا۔
مگر فیس بک کے اندر عہدیداران کا خیال تھا کہ اس نقصان کی بھرپائی ممکن ہے اور اس مقصد کے لیے کمپنی نے ایک نیا چیف آف امریکن لابنگ تعینات کیا تاکہ کانگریس کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ خاموشی سے کمپنی کے اندر ایک مہم 'وی گیٹ اٹ' کا آغاز کیا تاکہ ملازمین کو یقین دہانی کرائی جاسکے کہ کمپنی 2018 میں ایک بار پھر ٹریک پر واپس آجائے گی۔
تنقید پر جوابی اقدامات
فیس بک کی کمزوریوں کا احساس کرکے کچھ مخالف کمپنیوں نے اسے اپنے برانڈز کی تشہیر کے لیے استعمال کرنا شروع کیا، اس حوالے سے ایپل کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ان کی کمپنی صارفین کے ڈیٹا کو استعمال نہیں کرتی تو یہ بات مارک زکربرگ کے دل پر جاکر لگی۔
اس کے جواب میں فیس بک کے بانی نے اپنی انتظامی ٹیم کو حکم دیا کہ وہ آئی فون کی جگہ صرف اینڈرائیڈ فونز کو استعمال کریں گے، کمپنی کا اصرار ہے کہ اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے صارفین ایپل سے زیادہ ہیں۔
فیس بک کے اب بھی کافی دوست ہیں
سنیئر ڈیموکریٹ اور نیویارک سے سینیٹر چک Schumer نے کانگریس کے دیگر اراکین کے مقابلے میں فیس بک کے ملازمین سے زیادہ فنڈ 2016 کے انتخابات کے دوران حاصل کیے اور وہ کمپنی کی مشکل کے وقت اس کی مدد کے لیے موجود تھے۔
جب فیس بک کی مشکلات میں اضافہ ہورہا تھا تو چک Schumer نے فیس بک کے خلاف مہم چلانے والے سینیٹر مارک وارنر کا سامنا کیا۔
فیس بک کی تردید
دوسیر جانب فیس بک نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کی ہے۔
فیس بک کی جانب سے جاری بیان میں اس بات کی تردید کی گئی کہ اسے روسی سرگرمیوں کا علم 2016 کے موسم بہار میں ہوچکا تھا اور اس نے سیکیورٹی چیف کو اس معاملے پر اقدامات کرنے سے روکا تھا۔
کمپنی کے مطابق اسے روسی مداخلت کا علم امریکی انتخابات کے بعد ہوا اور اس نے متاثرہ اکاﺅنٹس کو بند کیا۔
اسی طرح کمپنی کا کہنا تھا کہ فیس بک ملازمین میں آئی فونز کے استعمال سے روکنے کا کوئی حکم ٹم کک کے بیان کے بعد نہیں دیا گیا، مگر کمپنی کے مطابق 'ہم ملازمین میں اینڈرائیڈ فونز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا موبائل آپریٹنگ سسٹم ہے'۔
ٹرمپ کے حامیوں سے خوف کے بارے میں فیس بک نے کہا کہ وہ بیان کمپنی کے اصولوں کے خلاف نہیں تھا جیسا نیویارک ٹائمز نے بیان کیا، ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار تھے اور ان کا بیان لوگوں کو بحث کا موقع فراہم کرتا ہے۔
کمپنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ شیرل سینڈبرگ نے سینیٹر سے شکایت سیکس ٹریفکنگ قوانین پر کی تھی او اس کا مقصد مخالف کمپنیوں کو برا دکھانا نہیں تھا۔
آخر میں فیس بک نے کہا کہ اس نے پی آر کمپنی کو اس لیے استعمال کیا تاکہ 'فیس بک میں آزادی' کو دیکھا جاسکے۔