• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
شائع November 19, 2018

یہ ایمپریس مارکیٹ ہے یا رام دین پانڈے کی قبر؟

اختر بلوچ

ایمپریس مارکیٹ کا ماضی و حال
ایمپریس مارکیٹ کا ماضی و حال

گزشتہ روز ہمارے ایک دوست نے فون کیا اور کہا کہ، ’آپ مختلف جامعات میں اردو پڑھاتے ہیں، میں ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے مختلف ٹی وی چینلز پر رپورٹیں دیکھ رہا تھا۔ بیشتر پر ہانپتے کانپتے رپورٹر جوشیلی آواز میں کہہ رہے تھے کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے تو کیا تجاوزات جائز بھی ہوتی ہیں؟‘

ہم نے جواباً انہیں کہا کہ، ’کِتابچہ اب ایک معروف نیوز چینل پر کُتا بچّہ بولا گیا ہمیں تو یہ بھی شک ہے کہ کسی دن چنانچہ کو چنا-نچہ نہ بولا جائے، یہ سن کر وہ ہنس دیے پھر کہنے لگے، ’کیا سپریم کورٹ رام دین پانڈے کے ساتھ انصاف کر پائے گی؟‘

رام دین پانڈے کون تھے کیا تھے اور انہیں سپریم کورٹ کیوں انصاف فراہم کرے؟ مزید یہ کہ اس کا ایمپریس مارکیٹ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔

ایمپریس مارکیٹ ایک تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہے اور اس کا 1857ء کی جنگِ آزادی سے بھی تعلق بنتا ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل، ایمپریس مارکیٹ اور اس سے متصل علاقوں میں 90 فیصد آبادی غیر مسلموں کی تھی، جن میں برطانوی راج کے اہلکار اور ان کے اہلِ خانہ اور ان کے علاوہ گوا، مدراس سے یہاں آکر بسنے والے انڈین مسیحی، پارسی اور بمبئی کے مراٹھی آباد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں پارسیوں کی عبادت گاہ ’دار مہر‘، کیتھولک عیسائیوں کے چرچ اور اسکول، پارسیوں کی جانب سے تعمیر کیے گئے پارکس اور ڈسپینسریاں بھی نظر آئیں گی۔

مؤرخ محمد عثمان دموہی کے مطابق تقسیم سے قبل ایمپریس مارکیٹ میں مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق ایمپریس مارکیٹ سے متصل سڑکوں پر وکٹوریہ بگھیاں چلتی تھیں جن پر شام کو برطانوی راج کے اہلِ خانہ سیر سپاٹوں کے لیے سواری کرتے تھے۔ یہ پورا علاقہ نہایت صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔

ابتدائی طور پر 1839ء میں ایمپریس مارکیٹ کو کیمپ بازار کہا جاتا تھا۔ مارکیٹ کا نقشہ انجینیئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے تیار کیا تھا۔ 10 نومبر 1884ء کو اس عمارت کا سنگِ بنیاد گورنر بمبئی سر جیمز فرگوسن نے رکھا۔ یہ عمارت جودھپوری سرخ پتھر سے تعمیر کی گئی ہے، اس کے ٹاور کی اونچائی 140 فٹ ہے، مارکیٹ میں 4 گیلریاں ہیں، اس کا درمیانی حصہ 130 فٹ طویل اور 100 فٹ چوڑا ہے۔

مارکیٹ میں 280 اسٹالز کی جگہ تعمیر کی گئی تھی، لیکن اب اس کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تجاوزات نے عمارت کے حسن کو گہنا دیا تھا۔ وہ ٹاور جس پر ایک بڑا گھڑیال نصب تھا جس کی آواز سے علاقے میں بسنے والے لوگ جو گھڑیوں سے محروم تھے وقت کا تعین کرتے تھے۔ لیکن اب یہ گھڑیال دن میں صرف دو مرتبہ درست وقت بتاتا ہے، یہ وہ وقت ہے جہاں برسوں قبل اس کی گھڑی کے کانٹے ٹھہر گئے تھے۔

اس عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ 3 ٹھیکیداروں کو دیا گیا تھا، ان میں مسٹر ڈلو کیجو، جے ایس ایڈ فلیڈ اور مسٹر ولی محمد جیون شامل تھے اور اس عمارت کی تعمیر پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوئی۔ کمشنر سندھ مسٹر پرچرڈ نے 21 مار چ 1889ء کو عمارت کا افتتاح کیا اور چونکہ اس سال ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی بھی منائی جارہی تھی تو اس مناسبت سے عمارت کا نام ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا۔

ایمپریس مارکیٹ کی ایک پرانی تصویر
ایمپریس مارکیٹ کی ایک پرانی تصویر

ہم ابتداء میں ذکر کرچکے ہیں کہ عمارت کی تعمیر کا تعلق 1857ء کی جنگِ آزادی سے بھی بنتا ہے۔ اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ 1857ء میں کراچی میں مقیم برطانوی فوج کی 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے رام دین پانڈے کی قیادت میں ایک منصوبہ تشکیل دیا، جس کے مطابق ایک رات کو 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے پورے کینٹونمنٹ پر قبضہ کرنا تھا اور انگریز فوجی افسران کو قتل کرکے آزادی کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا، لیکن 21ویں رجمنٹ سے ہی تعلق رکھنے والے کچھ مخبروں نے اس کی اطلاع انگریز سرکار کو دے دی جس کے بعد انگریزوں نے راتوں رات رام دین پانڈے اور اس کے ساتھ منصوبے میں شامل 14 باغی سپاہیوں کو گرفتار کرلیا۔

13 اور 14 ستمبر 1857ء کی درمیانی شب ان باغیوں کو جنگِ آزادی کی حمایت میں حصہ لینے پر ایمپریس مارکیٹ کے مقام پر خالی میدان میں سرِعام پھانسی دی گئی جبکہ رام دین پانڈے سمیت دیگر 3 باغیوں کو توپوں کے مُنہ پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ بعد ازاں ان لاشوں کے ٹکڑے اکٹھے کرکے ایک گڑھے میں پھینک دیے گئے، جن باغیوں کو پھانسی دی گئی تھی اُن کی لاشوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور اسی گڑھے میں پھینک دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق ممکنہ طور پر تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا—تصویر اختر بلوچ
اطلاعات کے مطابق ممکنہ طور پر تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا—تصویر اختر بلوچ

تجاوزات کے خاتمے کے بعد کے منظر—تصویر اختر بلوچ
تجاوزات کے خاتمے کے بعد کے منظر—تصویر اختر بلوچ

معروف محقق گل حسن کلمتی کے مطابق ایمپریس مارکیٹ اسی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ ایمپریس مارکیٹ کی تعمیر کا مقصد لوگوں کو خرید و فروخت کی سہولتیں فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی، ہوا یہ کہ اس واقعے کے بعد مقامی لوگ رات کی تاریکی میں یہاں آتے تھے اور اس مقام پر سرخ پھولوں کے گلدستے رکھ کر چلے جاتے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر انگریز سرکار کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ آہستہ آہستہ شہداء کی یادگار نہ بن جائے، اور کسی نئی بغاوت کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو، اس لیے یہاں ایمپریس مارکیٹ تعمیر کردی گئی اور انگریز اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہا۔

اب معدودے چند لوگوں کے شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ یہ رام دین پانڈے اور دیگر شہداء کی یادگار ہے۔ چند برس قبل سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہاں پر شام کو شمعیں روشن کرکے ان کی یاد منائی تھی اور یہ عہد کیا تھا کہ ہرسال یہ یاد منائی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تمام تجاوزات ختم کردی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا۔ سندھ حکومت اس سے قبل مراد علی شاہ کی رہنمائی میں جہانگیر پارک جیسے ویران اجاڑ مقام کو ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کرچکی ہے۔ اب یہ پارک کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن بنائے یا سندھ حکومت، لیکن کیا اس پارک کا نام رام دین پانڈے پارک رکھا جاسکتا ہے؟ یا پھر اس کے لیے بھی کوئی سرپھرا شہری چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں مفاد عامہ کے حوالے سے درخواست دائر کرکے یہ گزارش کرے گا کہ مجوزہ پارک کا نام رام دین پانڈے پارک رکھا جائے۔

آخر میں ایک اور بات یہ کہ تجاوزات کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن اگر آپ لکی اسٹار کے کونے پر میر کرم علی تالپور روڈ سے کھڑے ہوکر ایمپریس مارکیٹ کو دیکھتے تھے تو اس کی عمارت بہت واضح انداز میں نظر آتی تھی لیکن نہ جانے کس کے مشورے پر ایمپریس مارکیٹ کے بالکل سامنے میر کرم علی تالپور روڈ پر عجیب بدوضع سے شیڈ بنا دیے گئے ہیں جس وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایمپریس مارکیٹ کی پیشانی پر بدنما داغ ہے، یہ شیڈ کسی حکومتی ادارے کی جانب سے بنائے گئے ہیں، ہم نے بڑی کوشش کی کہ شیڈ کے اطراف میں کوئی ایسی تختی تلاش کر پائیں جس پر شیڈ تعمیر کرنے والے ادارے کا کوئی نام ہو لیکن ہم ناکام رہے تو کیا ان سرکاری تجاوزات کو بھی ہٹایا جائے گا؟

ایمپریس مارکیٹ کے بالکل سامنے میر کرم علی تالپور روڈ پر عجیب بدوضع سے شیڈ بنا دیے گئے ہیں—تصویر اختر بلوچ
ایمپریس مارکیٹ کے بالکل سامنے میر کرم علی تالپور روڈ پر عجیب بدوضع سے شیڈ بنا دیے گئے ہیں—تصویر اختر بلوچ

ایمپریس مارکیٹ پر تجاوزات کے خاتمے کا اثر اتنا ہوا کے آس پاس کی شاہراہوں پر بھی تجاوزات کے خاتمے کا آغاز ہوگیا، کچھ تو بلدیاتی عملے نے اپنا کام دکھا اور کہیں لوگوں نے ہی خود سے کام شروع کردیا اور ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ عقل حیران رہ گئی۔

ایک اور عمارت پر فریڈرک کیفے ٹیریا کا خوبصورت سائن بورڈ بھی نظر آیا جس کے بارے میں نامور روشن خیال ماہر تعلیم ڈاکٹر ریاض شیخ کا کہنا ہے کہ اس کیفے ٹیریا میں تقسیم سے قبل مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات یہاں بیٹھ کر سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ سن تعمیر ایک خوبصورت لوہے کی گرل میں کندہ کیا گیا ہے۔

فریڈرک کیفے ٹیریا کا سائن بورڈ—تصویر اختر بلوچ
فریڈرک کیفے ٹیریا کا سائن بورڈ—تصویر اختر بلوچ

سن تعمیر ایک خوبصورت لوہے کی گرل میں—تصویر اختر بلوچ
سن تعمیر ایک خوبصورت لوہے کی گرل میں—تصویر اختر بلوچ

ریگل چوک پر ریگل ٹریڈ اسکوائر کے ساتھ جو دکان مسمار کی گئی اس کے پیچھے ایک نالہ برآمد ہوا اور اس پر ایک سرکاری ٹوائلیٹ بھی نظر آیا۔ ٹوائلٹ کے ساتھ ایک نجی بینک کی عمارت بھی موجود ہے جو نالہ پر ہی بنی ہوئی ہے۔ یہ کب بنی کیوں بنی اور کیسے بنی اس کا ہمیں علم نہیں۔

یہ سب دیکھ کر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ 'ناجائز تجاوزات' میں نہ جانے ایسی کتنی ہی تاریخی عمارتیں دفن ہوں گی جنہیں نکالنے کے لیے مزید کتنے آپریشن کرنے پڑیں گے۔


اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (53) بند ہیں

Mohammed Luqman Habib Nov 15, 2018 04:01pm
Very Informative thanks for acknowledge.
سرور بلوچ Nov 15, 2018 04:09pm
بہت خوب اختر بلوچ کی تحریر پڑھتے پڑھتے پتا ہی چلتا کہ کب تحریر کے آخری سطر پر پہنچ جاتے ہیں سحر انگیز اور معلوماتی تحریریں پڑھ کر اچھا لگتا.. شکریہ
Rehan Zia Nov 15, 2018 05:24pm
بہت دلچسپ تحریر
MUDASSIR BAJWA Nov 15, 2018 06:40pm
مزہ آ گیا
محمد ثاقب اشرف Nov 15, 2018 07:53pm
ماشا ءاللہ معلومات سے بھر پور تحریر
فاروق اعظم صدیقی Nov 15, 2018 09:33pm
بہت عمدہ۔ میر کرم علی تالپور روڈ رپر بنائے گئے سن شیڈ حکومت کے منصوبے کا حصہ ہیں، صوبائی حکومت یہاں فوڈ اسٹریٹ بنانا چاہتی ہے۔
شوکت کورائی Nov 15, 2018 10:05pm
اختر صاحب آپ نے بہت شاندار تحقیقی معلومات پر مبنی آرٹکل لکھا ہے اس بات سے بھی سو فیصد اتفاق ہے کہ اس طرح کا یادگار اور تاریخی مقام کا نام بھی تاریخ میں کردار ادا کرنے والے شخصیات کو منسوب کرنا چاہیے، یہ حق بنتا ہے شہید رام دین پانڈے اور دیگر گمنام شہداء کا ، انہوں انگریز راج کے خاتمے کے لئے اسی مقام پر زندگی قربان کردی، یہ پارک بھی ان کے نام سے منسوب کیا جائے تو بہتر ، لیکن دعا کریں یہ نام رکھنے کا معاملہ جنوری دوہزار انیس کے بعد ہی آئے تو بہتر ہو گا
Ali Nov 15, 2018 10:06pm
واہ!!!بہت خوب۔
Ali Nov 15, 2018 10:06pm
واہ!!!بہت خوب۔
Malik USA Nov 15, 2018 11:15pm
Baloch Sb. Credit goes to you that if someone starts reading your article, he/she can not leave reading unless its finished. Congr for these informations. Everywhere we read Impress Market but today we knew the Contribution of Ram Deen Pande.
haris Nov 15, 2018 11:42pm
very informative
haris Nov 15, 2018 11:42pm
best
Khurram Kamran (Karachi) Nov 16, 2018 03:25am
Awesome! Great knowledgeable script. Really enjoyed & loved it. I personally think we should start the movement to put the park name under his (Ram deen pandey) name & i would definitely participate in it. Also we need more intellectuals like yourself for the revival of Karachi city so please never give up. Best regards, Khurram
Riaz Baloch Nov 16, 2018 06:43pm
بہت اچھی تحریر ہے۔ ہم آپ کے مطالبے سے متفق ہیں۔
یمین الاسلام زبیری Nov 16, 2018 07:42pm
کیا بات ہے، کیا کھوج ہے اور کیا تبصرہ ہے۔ اللہ کرے ذور بیاں اور زیادہ۔ اختر بلوچ صاھب ایمپریس مارکٹ سے لے کر ریگل چوک تک پہنچ گئے۔ خوب۔ میں اسکول کے زمانے میں تقریباً روز دن میں دو بار ایمپریس مارکٹ جایا کرتا تھا۔ ایسا تھا کہ نہیں لیکن میں کہا کرتا تھا کہ دنیا کا شاید سب سے لمبا بس اسٹاپ یہیں ہے۔ یہاں بسیں آہستہ خرامی دکھاتی ہوئی چلتی تھیں۔ اور ایمپریس مارکٹ سے لے کر ریگل چوک تک کسی بھی مقام سے مسافروں کو بٹھا لیتی تھیں، یا اتار دیتی تھیں۔ پتا نہیں اب کیا حال ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ فاصلہ جو کوئی پون میل کا ہوگا۔
یمین الاسلام زبیری Nov 16, 2018 07:44pm
@شوکت کورائی میں آپ کے ساتھ ہوں۔
Asif ali Nov 17, 2018 12:02am
Tehreer prhtey prhtey 1857 me ponch gae or Empress Market tower Jesi nayaab Aasaar e qadima ka khiyaal aya, jo hmarey hi shehr Karachi me waqi hai or jisy aatey jaatey daily dekh kr b iski tareekhi aehmiat se nawaqif thy thanks for it
Abbas Syed Nov 17, 2018 04:07am
I moved to Karachi as an eight year old after the death of Mr. Jinnah in 1September 1948. . Later I went to BVS Parsi school on Victoria Raod. I have a good memory of that grand old Empress Market that Mr. Baluch has described and provided its photographs from the archives. Thanks Mr. Baluch and Dawn for taking me down the memory lane .
tokeer akhtar Nov 17, 2018 06:16am
I enjoyed this a beautiful article on this market and the background history. Thank you.
tokeer akhtar Nov 17, 2018 06:18am
Beautifully put together the background history of this market and the gratitude over due for those who gave their lives for freedom.
Mumtaz Ahmed Shah Nov 17, 2018 07:57am
An excellent article and in formative material for a young generation .(Texas)
سراج بلوچ Nov 17, 2018 09:16am
بہت ہی عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے
joe Nov 17, 2018 09:36am
Make Pakistan Great Again
Irfan Nov 17, 2018 10:04am
very informative. & very well written... congrats.. That park should be named after the historical personalities.
ZIAUDDIN Nov 17, 2018 10:18am
This is very knowledgeable article for new generation to know about Karachi. Awaiting your valued articles reading time to time on other topics. Once again congratulate for these information.
Jalaluddin S. Hussain Nov 17, 2018 11:07am
Thanks for the research, Baloch Sahib. From Quebec, Canada, with love!
Abdul Ghaffar Nov 17, 2018 01:04pm
تاریخی معلومات کے لیۓ ڈان اور مسٹر احتر حسین بلوچ کا شکریٕہ ۔۔۔۔
Zain Nov 17, 2018 02:41pm
Maza agaya, I really want that the name should be raam din panday
منظور حسین Nov 17, 2018 03:22pm
اتنی مفید اور تاریخی معلومات عوام تک پہنچانے کا شکریہ
Rohoni Nov 17, 2018 04:17pm
آج ہمیں پتہ چلا کہ کوئی رام پاندے بھی تھے جو جھنگ آزادی کے لیئے شہید ہوئے۔ اور ایمپریس مارکیٹ کی تاریخ سے یہ نام جدا ھوا ھےا ہوا ہے۔
Sam Nov 17, 2018 04:59pm
@Khurram Kamran (Karachi) i have visited that market many times 20 years ago, miss that place, hope to visit it soon
Dr Abdul Qadeer Nov 17, 2018 07:09pm
Zabardast information Magar Islami riast men Ram Din Pande kele shayed koie Gunjaish abhe baqee na hoo
Saeed Baloch Nov 17, 2018 07:29pm
Excellent Akhtar Baloch Writeup is full of history with great information I really Enjoyed to read it.
Erum Sajid Nov 18, 2018 12:49am
ہمارے ملک میں تاریخ اور تاریخی حوالوں کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ جس طرح مسخ کیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی...
Shahid Syed Nov 18, 2018 12:20pm
very good and very informative article. as you always write thank you
Abdul Hafeez Nov 18, 2018 12:38pm
اختر صاحب اپ کی خوبصورت تحریر وہ تحقیق پڑھ کر یے محسوس ھوا کے اپ نے کراچی کی امپریس مارکیٹ کے باطنی چہرہ کے ساتھ لوگون کو اس کے روح سے بے واقف کردیا. یے ھے ھماری سندھ کی خوبصورت چہرہ کی خوبصورت تاریخ.
فاروق احمد خان Nov 18, 2018 12:39pm
جِس طرح "رام باغ" "آرام باغ" ہو گیا، اُسی طرح اِس نئے باغ کا نام "آرام دِین پانڈے باغ" ہوسکتا ہے!!!
Nazir Ahmed Nov 18, 2018 12:52pm
I LIKED VERY MUCH AKHTAR BALOCH THIS ARTICLE AND IT IS VERY INTERESTING INFORMATION'S AND WOULD BE AWARE EVERYONE ABOUT THESE KIND OLD HERITAGE BUILDINGS AND CONSTRUCTIONS.THANKS BALOCH SB.
Abdul Hafeez Nov 18, 2018 12:55pm
اختر بلوچ صاحب. اپ کی خوبصورت تحقیق وہ تحریر پڑھ کر مزہ اگیا سر اپ نے کراچی کی امپیریس مارکیٹ کے اصل چہرہ کے ساتھ ساتھ لوگون ان کے روح سے بے واقف کردیا کے ھماری سندھ کا چہرہ کے ساتھ روح بےکتنا خوبصورت ھے.
مصطفی جتوٸی Nov 18, 2018 01:43pm
عارف حن صاحب نے ڈان میں لکھا تھا کہ یہاں پر جن لوگوں پھانسیاں دی گٸی تھی ان کا تعلق چنیسر گوٹھ سے تھا۔ کیا اس میں صداقت ہے؟اگر یہ سچ ہے تو کیا ان کا تعلق چنیسر گوٹھ کی خاصخیلی قومیت سے تھا۔
Raheem uddeen Nov 18, 2018 05:57pm
Excellent contribution.
Ahmed Azeem Nov 18, 2018 09:04pm
Informative and interesting.
Iftikhar A Baig Nov 19, 2018 01:04am
We really don't know much about the history of our country, It is a very informative post for the people. I would be very thankful if you please send me old pictures and historic informations of our country & please if I can get the contact number of Mr. Akhter Baloch saheb. Thanx
Nusrat Hussain Nov 19, 2018 05:00am
Beautifully written, a treasure trove of knowledge about Empress Market which I never knew. Bravo! Balouch Sahib.
Faisal Nov 19, 2018 07:57am
@Dr Abdul Qadeer Y'NOT
Yasir Ali Shah Nov 19, 2018 08:40am
WOW:) Glories of Karachi! Please share history on other historical building in same vicinity (Saddar).
alla ditta Nov 19, 2018 09:18am
Excellent, Appreciate your write up, Keep good articles coming.
حیدر جونیجو Nov 19, 2018 02:51pm
اختر بلوچ صاحب نے امپریس مارکیٹ کی معلومات کو تمام بہتر انداز میں تحریر کیا ہے، جس کو پڑھ معلومات میں اضافے کے ساتھ پڑھنے میں بھی مزہ آگیا۔ بہت اعلیٰ جناب
ندیم تابانی Nov 19, 2018 03:51pm
معلومات افزا مضمون ، ساتھ ہی تحریر میں روانی اور چاشنی بھی !
Dilip kumar Nov 20, 2018 01:19pm
Very nice historical knowledge about old Karachi well-done Akthar Baloch
میر تنویر وگن Nov 20, 2018 09:04pm
سئیں بھوت خوبصورت تحریر پورانے یادگاریں تازہ ہو گئی ہیں آپسے ایک ریکوسٹ ہیں کبھئ ملیر کینٹ پر تحریر لکھے۔۔ ملیر کینٹ کراچی نواب آف بہاولپور کا "الشمس" محل جہاں بانی پاکستان نے ریاست بہاولپور کو پاکستان میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی. مکمل تباہی کے دہانے پر. چند دنوں میں اسے گرا دیا جائے گا "
Shakir Albaloushi Nov 22, 2018 12:14am
Very Informative for New Generation..! Intresting.
Salim sh Nov 22, 2018 11:50am
Well reminded, however, need not to protect the influential.