• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کراچی: گمشدہ صحافی عدالت میں پیش، ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام

شائع November 12, 2018
—فوٹو: ٹویٹر
—فوٹو: ٹویٹر

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے انتظامی جج نے گمشدہ صحافی نصراللہ خان چوہدری کا مبینہ طور پر ممنوعہ لٹریچر رکھنے پر محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی حراست میں دو روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے تفتیشی افسر کو ہدایت کہ نصراللہ خان کو 13 نومبر کو پیش کریں اور اگلی سماعت پر چارج شیٹ بھی جمع کرادیں۔

روزنامہ 'نئی بات' سے منسلک سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے نفرت انگیز میٹریل چھاپنے کی دفعہ 11- ڈبلیو ون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

صحافی برادری نصراللہ خان چوہدری کو 10 اور 11 نومبر کی درمیانی رات کو ان کے گھر کے باہر سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے عہدیداروں کی جانب سے حراست میں لینے کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی کے سینئر صحافی کو گھر سے اٹھالیا گیا، صحافتی تنظیمیں

صحافتی تنظیمیں اور گروپس اس عمل کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداروں کی جانب سے 9 نومبر کو کراچی پریس کلب میں غیر قانونی مداخلت کو جواز دینے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

تفتیشی افسر نے زیرحراست صحافی کو انتظامی جج کے سامنے پیش کیا اور تفتیش کے لیے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی۔

سی ٹی ڈی کے تفتیشی افسر انسپکٹر سید علی حیدر کا کہنا تھا کہ زیرحراست مشتبہ شخص القاعدہ کے دہشت گرد خالد مکاشی کی ‘سہولت کاری’ میں ملوث تھے اور انہیں 11 نومبر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اداریہ: کراچی پریس کلب پر حملہ

انہوں نے مزید کہا کہ عہدیداروں نے 2011 میں شائع ہونے والے نوائے افغان جہاد سے بھرا ہوا ایک بیگ بھی برآمد کرلیا ہے، جو پاکستان اور اس کی حکومت کے خلاف تشدد اور مذہبی نفرت پر اکساتے تھے۔

تفتیشی افسر نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار صحافی کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کی حراست میں دیا جائے تاکہ مزید تفتیش اور دیگر قانونی معاملات کو مکمل کیا جائے۔

نصراللہ خان چوہدری کے وکلا محمد فاروق اور سید حیدر امام رضوی نے تفتیشی افسر کی سی ٹی ڈی کی حراست میں ریمانڈ کی درخواست کی یکسر مخالفت کر دی۔

وکلا صفائی نے موقف اپنایا کہ ان کے موکل ایک شریف النفس اور بے گناہ شخص ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے عہدیداروں نے 10 اور 11 نومبر کی درمیانی شب کو سندھ گورنر ہاؤس کے باہر صحافیوں کے احتجاج میں شرکت کے بعد واپسی پر ان کے گھر کے باہر سے اٹھا لیا، جو کراچی پریس کلب میں ‘غیر قانونی’ کارروائی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی پریس کلب: سادہ لباس مسلح اہلکاروں کی صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش

وکلا نے مزید کہا کہ سینئر صحافی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے عہدیداروں نے غیرقانونی طور پر حراست میں لیا، تاکہ کراچی پریس کلب میں کی گئی ان کی غیر قانونی کارروائی کو جواز فراہم کیا سکے۔

نصراللہ چوہدری کے وکلا نے جسمانی ریمانڈ کی تفتیشی افسر کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سینئر صحافی کی جھوٹے مقدمے میں گرفتاری کی خبر عالمی میڈیا میں شائع ہوئی، جو پاکستانی صحافیوں سمیت ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

جج نے دلائل سننے کے بعد کہا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے مبینہ طور پر ممنوعہ لٹریچر برآمد ہونے پر 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کا مطالبہ بلاجواز نظر آتا ہے۔

جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے دو ہفتوں کی جسمانی ریمانڈ کی تفتیشی افسر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے دو روزہ ریمانڈ دے دیا اور تفتیشی افسر کو ہدایت کردی کہ ان کے خلاف 13 نومبر کو چارج شیٹ جمع کرا دیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024