• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پنجاب کے کرتب بازوں کا روزگار کیوں ختم ہو رہا ہے؟

بہار علی کہتے ہیں کہ جب تک ہمارے لیے تالیاں بجانے والے لوگ موجود ہیں، ہم یہ کام جاری رکھیں گے۔
شائع November 10, 2018

بہار علی 5 سال کے تھے جب ان کے بڑے بھائی اور چچا نے انہیں کرتب باز بننے کے لیے تربیت دینی شروع کی۔ لاہور کی جنوبی جانب ملتان روڈ کے ساتھ قائم کچی آبادی میں ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’وہ تیل سے میرے پٹھوں کی مالش کرتے اور مجھ سے مختلف ورزشیں کرواتے تاکہ میرا جسم لچکدار بن جائے‘۔

بہار علی کے بھانجے کا بندر
بہار علی کے بھانجے کا بندر

انہوں نے حال ہی میں ایک کرتب ختم کیا ہے اور ان کا سفید کرتا پسینے میں بھیگا ہوا ہے۔ ان کی آواز دھیمی ہے اور بمشکل سنائی دے رہی ہے۔ وہ اتنے تھک چکے ہیں کہ بس گھر جاکر سو جانا چاہتے ہیں۔ ’انسان جیسے جیسے بوڑھا ہوتا ہے، وہ چیزوں میں آسانی چاہتا ہے‘۔

اس کے برعکس یہ والا کرتب بہت ہی مشکل تھا۔ بہار علی جو اب 60 کے پیٹے میں ہیں، انہیں اس کے لیے وہ چالیں چلنی پڑیں جو انہوں نے 15 سال سے نہیں کی ہیں۔ اپنے بیٹے اور بھتیجے کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک فٹ قطر کے ایک اسٹیل کے چھلّے سے گزرنے کی کوشش کی مگر یہ ویسا نہیں رہا جیسی کہ امید تھی۔ کرتب باز اس چھلّے کے اندر پھنس گئے اور صرف پاس کھڑے لوگوں کی مدد سے ہی باہر نکل سکے۔

بہار علی (جو درمیان میں موجود ہیں) لاہور کے ملتان روڈ پر موجود ایک پاسمندہ علاقے میں اسٹیل کے چھلّے سے گزرنے کی کوشش کررہے ہیں
بہار علی (جو درمیان میں موجود ہیں) لاہور کے ملتان روڈ پر موجود ایک پاسمندہ علاقے میں اسٹیل کے چھلّے سے گزرنے کی کوشش کررہے ہیں

قلندر یا بازی گر والی بہار علی کی خانہ بدوش برادری میں اس بات پر اتفاق ہے کہ چھلّے میں سے گزرنا مشکل ترین کام ہے۔ یہ عموماً پورے تماشے کا آخری کرتب ہوتا ہے اور اس سے پچھلے کرتب صرف اس کی پیش بندی کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر یہ انسانی جسم کی لچک کا امتحان لے لینے والے ان کرتبوں میں سے صرف ایک ہے جسے ان کے بڑے معمول کے مطابق انجام دیا کرتے تھے، مثلاً انسانی مینار بنانا۔

اپنے بڑوں کی طرح لچکدار اور ماہر نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کئی اب اپنے تماشوں کے لیے بندروں اور بکریوں کا استعمال کرتے ہیں۔ بہار علی نے بھی یہی کیا مگر ان کے تمام بندر 3 سال قبل مر گئے اور ان کے پاس کرتب خود دکھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس وقت تک ان کے بیٹوں میں سے 2 جسم کو مروڑنے کے کرتب سیکھنے کی عمر سے آگے نکل چکے تھے اس لیے انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے احمد علی کو اپنے ساتھ کرتب دکھانے کی تربیت دینی شروع کی، مگر کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ، کیونکہ اس کے لیے بچے کو اسکول چھڑوانا پڑا۔ بہار علی اپنے 13 سالہ بیٹے کی جانب دیکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’اسے اپنے گھرانے کے لیے قربانی دینی پڑی‘۔

بہار علی کرتب دکھاتے ہوئے
بہار علی کرتب دکھاتے ہوئے

احمد کو تربیت حاصل کرنے میں تقریباً 3 سال لگے اور اب وہ تقریباً 5 سالوں سے کرتب بازی کر رہے ہیں۔ ان کا پسندیدہ کرتب جس پر انہیں سب سے زیادہ تالیاں اور ستائش ملتی ہے، وہ، وہ ہے جس میں وہ دو آہنی اسٹولز پر کھڑے ہوتے ہیں اور کسی سسپنشن برج کی طرح اپنی کمر کو گھما کر زمین پر پڑے 10 روپے کے نوٹ کو اپنے منہ سے اٹھا لیتے ہیں۔

اس کرتب کی تربیت طویل اور مشکل تھی۔

جب احمد علی چھوٹے بچے تھے تو ان کے والد انہیں چارپائی پر کھڑا کرکے پیچھے مڑنے کی تربیت دیتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مڑنے کے لیے بالآخر چھوٹے، تاروں سے بنے اسٹول پر 2 اینٹوں پر کھڑا ہونا شروع کیا۔

والد اور بیٹے کی جوڑی کرتب دکھانے سے قبل تماشائیوں کی توقعات عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔ بہار علی تماشائیوں میں سے عموماً احمد علی جتنے قد کے ہی کسی بچے سے اسٹول پر کھڑا ہونے کے لیے کہتے ہیں۔ بچہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام ہوجاتا ہے کیونکہ یہ شکستہ سے اسٹول ناہموار زمین پر متوازن انداز میں موجود نہیں ہوتے۔

بہار علی پھر بچے سے پوچھتے ہیں کہ آیا وہ زمین پر جھک کر اپنے منہ سے نوٹ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔

بچہ فوراً نفی میں جواب دیتا ہے۔

بہار علی کہتے ہیں: ’ہاں، یہ ایک مشکل کام ہے‘۔ پھر وہ احمد علی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’مگر یہ بچہ آپ کو بتائے گا کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے‘۔

احمد علی اپنے گلے سے سریے کو موڑنے کا کرتب دکھا رہے ہیں
احمد علی اپنے گلے سے سریے کو موڑنے کا کرتب دکھا رہے ہیں

احمد علی فوراً اسٹولز پر چڑھ جاتے ہیں۔

والد بیٹے سے پوچھتے ہیں: ’10 روپے کا یہ نوٹ تم اپنے ہاتھ سے اٹھاؤ گے یا منہ سے؟‘

بیٹا جواب دیتا ہے: ’اپنے منہ سے۔‘

باپ خبردار کرتا ہے: ’مگر یہ مشکل کام ہے۔‘

بیٹا اعتماد سے جواب دیتا ہے، ’میں یہ کرلوں گا۔‘

احمد علی اپنے کندھے جھٹکاتا ہے اور خود کو اس کام کے لیے تیار کر لیتا ہے۔ جب ایک دوسرا کرتب باز ڈھول بجانے لگتا ہے تو وہ اپنی کمر موڑنے لگتے ہیں، مڑتے جاتے ہیں مڑتے جاتے ہیں، مگر زمین تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ سیدھے ہوجاتے ہیں۔

احمد علی اپنے جسم کو پیچھے کی طرف موڑ کر ماچس کی تیلیوں اٹھا رہے ہیں
احمد علی اپنے جسم کو پیچھے کی طرف موڑ کر ماچس کی تیلیوں اٹھا رہے ہیں

بہار علی ان سے کہتے ہیں، ’میں نے کہا بھی تھا کہ یہ کام مشکل ہے۔‘

احمد علی ایک اور کوشش کرنے سے پہلے کہتے ہیں، ’اگر یہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اور کرنا چاہیے۔‘

ڈھول دوبارہ بجنا شروع ہوتا ہے۔ لوگ کھلے منہ اور ٹکٹکی باندھ کر نوجوان کو دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ لڑکا پیچھے کی جانب مڑنا شروع کرتا ہے، اس کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گرنے شروع ہوتے ہیں۔ اس کے چہرے کے پٹھے تناؤ سے کھنچ جاتے ہیں اور یوں وہ زمین تک پہنچتا ہے، نوٹ اپنے منہ سے اٹھاتا ہے اور اسٹول پر واپس کھڑا ہوجاتا ہے۔

تماشائی خوش ہوجاتے ہیں اور زمین پر مزید پیسے اچھال دیتے ہیں۔ ڈھول بجانے والا شخص اٹھتا ہے اور یہ پیسے اکھٹے کر لیتا ہے۔

احمد علی نے جب یہ کرتب پہلی بار فیصل آباد ضلع کے قصبے جڑانوالہ میں ایک میلے میں کرکے دکھایا تھا تو وہ گر پڑے تھے اور ان کے سر میں چوٹ لگی تھی مگر اب انہیں یہ سوچ کر مزہ آتا ہے۔ وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ کرتب مزیدار لگتا ہے‘۔

بچے کرتب دیکھ رہے ہیں
بچے کرتب دیکھ رہے ہیں

جڑانوالہ کا میلہ جو ہر سال موسمِ بہار میں ہوتا ہے وہ بہار علی کے سال کا سب سے اہم موقع ہوتا ہے۔ پنجاب کے کئی حصوں سے کرتب باز یہاں اکھٹے ہوتے ہیں اور اپنی مہارت اور اپنے تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ احمد علی میلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہاں پینے اور نہانے کے لیے کافی پانی ہوتا ہے‘۔

کچھ عرصہ قبل تک قلندر اور بازیگر کہلانے والے یہ لوگ پورے وسطی پنجاب میں گھوما کرتے، کھلے علاقوں میں بستیاں بساتے اور طرح طرح کے کرتب دکھاتے تھے جن میں جمناسٹک، آگ اگلنا اور نظر کا دھوکہ دینا شامل ہوتا۔ ان میں سے کئی اب شہروں اور قصبوں میں مقیم ہوگئے ہیں کیونکہ اب وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔

شیخوپورہ کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے مانانوالہ میں قلندروں کی ایک بڑی بستی ہے جنہوں نے اب اپنا خانہ بدوش طرزِ زندگی چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ لکڑیوں پر تنے پرانے کپڑوں کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ چند دیگر جنہوں نے اچھے وقتوں میں پیسے جوڑ لیے تھے وہ اب اینٹوں اور گارے سے بنے مکانات میں رہتے ہیں۔

احمد علی اپنے منہ سے زمین پر پڑے 10 روپے کے نوٹ کو اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں
احمد علی اپنے منہ سے زمین پر پڑے 10 روپے کے نوٹ کو اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں

راقب علی اور ان کا خاندان دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کسرتی جسم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبردست جسمانی ورزشیں کرچکے ہیں۔ وہ آسانی سے اپنی ٹانگیں بلند کرکے اپنے ہاتھوں پر چل سکتے ہیں۔ وہ اپنے سر پر ایک شخص کو، اپنی رانوں پر دوسرے کو، اور اپنے کندھوں پر ایک اور شخص کو اٹھا سکتے ہیں۔

راقب، جو کچھ عرصے میں 30 سال کے ہونے والے ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ ان کرتبوں سے نسبتاً زیادہ خطرناک ہیں جو میرے والد اور ان کے والد کیا کرتے تھے‘۔ مشکل کرتب سیکھنے میں دلچسپی کی کمی کے باعث نوجوان کرتب بازوں کے پاس وہ ہنر و مہارت نہیں جو ان کے پرکھوں نے صدیوں کی محنت کے بعد حاصل کی تھی۔ راقب علی کہتے ہیں کہ ’ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کرتب کس طرح کیے جاتے ہیں۔‘

کچھ دیگر کرتب اس لیے نہیں کیے جاتے کیونکہ انہیں کرنے کے لیے درکار جگہ میسر نہیں ہوتی۔ جلتے ہوئے دائروں سے چھلانگ لگانے یا پھر تنی ہوئی رسی پر ہوا میں چلنے اور کرتب دکھانے کے لیے بڑی اور کھلی جگہوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ دیہات میں فصلوں اور قصبوں و شہروں میں سڑکوں اور کمرشل و صنعتی سرگرمیوں نے لے لی ہے۔

بہار علی 3 گیندوں سے کرتب دکھا رہے ہیں
بہار علی 3 گیندوں سے کرتب دکھا رہے ہیں

راقب علی کے خاندان کا اپنا ایک سرکس تھا مگر انہیں تقریباً ایک دہائی قبل وہ بند کرنا پڑا۔ ان کے بھائی اب لاہور جاچکے ہیں جہاں وہ تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ خود بھی سال بھر چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے ہیں اور صرف اسکولوں یا میلوں میں کرتب دکھاتے ہیں، وہ بھی تب جب انہیں مدعو کیا جائے۔

سرکس بند کرنے کی وجہ وہ سیکیورٹی وجوہات کو قرار دیتے ہیں۔ مانانوالہ کے ایک اور کرتب باز خالد حسنین کہتے ہیں کہ ’ہمیں اکثر سیکیورٹی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بااثر سیاستدانوں کے پاس جانا بھی اس بات کی گارنٹی نہیں کہ حکام کسی تماشے کی اجازت دیں گے‘۔

عمر کی تیسری دہائی میں موجود حسنین ان چند قلندروں میں سے ہیں جو ابھی تک کام کے لیے سفر کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے کے ساتھ وہ گاؤں سے گاؤں اور میلے سے میلے تک جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو محظوظ کیا جائے۔

ایک نوجوان ایک پہیے والی سائیکل چلا رہا ہے
ایک نوجوان ایک پہیے والی سائیکل چلا رہا ہے

سفر پر ان کے بیٹے کو ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ گرفتار نہ کر لیے جائیں۔ ’میرے والد ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے کم عمری کی مشقت کروانے کے لیے گرفتار کرلیے گئے تھے چنانچہ جب بھی میرا بیٹا کوئی پولیس اہلکار دیکھتا ہے تو وہ ڈر جاتا ہے کہ کہیں پولیس مجھے گرفتار نہ کرلے‘۔

ان کا ماننا ہے کہ خانہ بدوش سرکسوں کے بند ہونے اور میلوں پر مذہبی اور انتظامی پابندیوں کی وجہ سے ان کا پیشہ روبہ زوال ہے۔

بہار علی ایک اور چیز کی نشاندہی کرتے ہیں یعنی جدید ٹیکنالوجی۔ ان کے مطابق موبائل فونز اور ٹی وی نے عوامی تفریح کے تصور کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے۔ اب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے اپنے اسمارٹ فونز کے ذریعے اپنی تفریح کا انتظام کرسکتے ہیں، وہ بھی جب چاہیں، جہاں چاہیں۔

مگر بہار علی یہ کام جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ’جب تک ہمارے لیے تالیاں بجانے والے لوگ موجود ہیں، ہم یہ کام جاری رکھیں گے۔‘


انگلش میں پڑھیں۔

ایمل غنی

لکھاری ہیرالڈ میگزین کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔