سردار پٹیل کو اپنا ہیرو ماننے والے مودی ان کی بات کیوں نہیں مانتے؟
لاہور میں اٹل بہاری واجپائی نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا حوالہ نہیں دیا تھا۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو نواز شریف کے ساتھ ان کی سربراہی ملاقات کارگل تنازعے کی وجہ سے برباد ہونے سے پہلے ہی برباد ہوجاتی۔
اس کے بجائے انہوں نے پڑوسیوں کے بارے میں سردار جعفری کی ایک نظم پڑھی، بھلے ہی اس میں سے وہ ہمالیہ سے آنے والی تازہ ہوا کے بارے میں ایک تنقیدی شعر سے کترا گئے۔
سردار پٹیل کو نہیں لگتا تھا کہ پاکستان چل پائے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی حامی کے بغیر تقسیمِ ہند کا تصور نہایت مشکل ہوتا، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ جوش میں آکر اور نتیجے تک نہ پہنچنے کے باعث بھری گئی تھی۔ واجپائی نے لاہور میں اس قومی اہمیت کے مینار کا دورہ بھی کیا جس سے پٹیل کی پاکستان کی تباہی کے بارے میں پیشگوئی بھی متنازع ہوگئی۔
کچھ دن قبل ٹائمز آف انڈیا میں ایک مضمون کے مطابق پٹیل نے 1946ء میں مسلم لیگ کے ساتھ پریشان کن تجربے کے بعد پاکستان کے تصور کو قبول کرلیا تھا۔ وائسرائے کی کابینہ میں لیگ اور کانگریس دونوں شامل تھیں۔ پٹیل وزیرِ داخلہ تھے، لیاقت علی خان وزیرِ خزانہ اور جواہر لال نہرو وزیرِ اعظم۔ جلد ہی سردار پٹیل نے جان لیا کہ وہ لیاقت کے دستخط کے بغیر ’ایک چپراسی تک نہیں بھرتی کروا سکتے تھے۔‘
لیگ سے علیحدہ ہونے کے فیصلے پر ان کی آبائی ریاست گجرات کے ہندو صنعتکاروں نے بھی خاصا اکسایا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا میں سوامی ناتھن آئیر لکھتے ہیں کہ ’وہ لیاقت علی خان کی "سوشلسٹ" بجٹ تجاویز سے تنگ آچکے تھے اور انہوں نے پٹیل کو بتایا کہ یہ تجاویز ان کے مستقبل کے لیے خوش آئند نہیں ہیں۔‘
لیگ پر مسلم بورژوا طبقے کے اثر و رسوخ کے بارے میں معقول حد تک اچھی تحقیق موجود ہے مگر کانگریس کو لیگ سے دور لے جانے میں ہندو کاروباری شخصیات کے کردار پر کم ہی بات کی جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لیاقت علی خان کا صنعتوں پر عائد کیا گیا ٹیکس کا بوجھ مشترکہ طور پر مسلمان اور پارسی کاروباری شخصیات میں بھی تقسیم تھا۔
پٹیل کے بارے میں میرا ابتدائی تاثر اس عمومی نظریے پر قائم تھا کہ وہ ایک ہندو انتہاپسند تھے اور یہی حقیقت مبینہ طور پر ان کی انتہائی سیکولر مزاج نہرو کے ساتھ مخاصمت کی بنیاد ہے۔ یہ بدگمانی کچھ حد تک کو پاکستان میں اس وقت ختم ہوگئی جب ایک انکل نے بتایا کہ ان کی زندگی پٹیل کی مرہونِ منت تھی۔
عابد بھائی اس وقت آگرہ میں طالبعلم تھے جب گاندھی کو قتل کیا گیا۔ عابد بھائی نے مجھے ان بدگمانیوں کے بارے میں بتایا جو ان کے ہندو اور سکھ ساتھی طلبا ان کے بارے میں اپنی سرگوشیوں میں چھپائے رکھتے تھے جبکہ کچھ دیگر ان کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے رہتے۔ پٹیل کا ریڈیو پر یہ اعلان کہ ایک ہندو برہمن نے گاندھی کو قتل کیا ہے، نے کئی جانیں بچا لیں۔
عابد بھائی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’سردار کے پیغام نے کئی مسلمانوں کو یقینی موت سے بچا لیا۔‘
پٹیل کا ریڈیو اعلان سردار جعفری کے لیے بھی ایک نعمت تھا۔ اگر پٹیل نے یہ اعلان نہ کیا ہوتا تو ان کی شادی اپنی لکھنؤ یونیورسٹی کی محبوبہ سلطانہ سے نہ ہوئی ہوتی، کم از کم اس دن تو بالکل نہیں جس دن ان کی بمبئی میں شادی ہوئی۔ میں نے سلطانہ جعفری کا ایک انٹریو پڑھا، مگر کچھ شبہے کے ساتھ۔
"30 جنوری 1948ء [جس دن گاندھی قتل ہوئے] کو سردار اور میں لوکل بس پر سوار ہوئے اور میرج رجسٹرار کے دفتر جا پہنچے۔ دولہا، یعنی سردار کی جیب میں 3 روپے تھے۔ کرشن چندر، کے اے عباس اور عصمت چغتائی ہماری کورٹ میرج کے لیے گواہان تھے۔ بعد میں عصمت موقع کا جشن منانے کے لیے ہمیں آئس کریم کے لیے باہر لے گئیں۔"
یاد رکھیں کہ گاندھی کو دہلی میں ان کی صبح کی پوجا کے دوران قتل کیا گیا تھا اور خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ بمبئی میں شادی کے اجتماع میں موجود کم از کم 2 کمیونسٹ شخصیتیں یاد کرتی ہیں کہ اس دن صبح بسیں چلنا ناممکن تھا۔‘
پارٹی رکن مرحوم منیش نارائن سکسینا یاد کرتے ہیں کہ ’شہر ایسا لگ رہا تھا جیسے آسیب زدہ ہو، سڑکیں خالی تھیں، ایک بھی انسان نظر نہیں آ رہا تھا۔‘
اس افسوسناک خبر کے پھیلنے سے قبل بھی منیش کے لیے اپنے دوست ایس ایم مہدی کے لیے ٹیکسی ڈھونڈنا مشکل کام تھا۔ لکھنوی لہجے میں خوبصورت اردو بولنے والے ہندو ملحد منیش ایک بغیر استری کی شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ منیش یاد کرتے ہیں کہ ’ہمیں مہدی کو ٹیکسی دلوانے کے لیے ایک مسلم کامریڈ مل گیا جو بالکل ہندو لگ رہا تھا کیونکہ ہندو ڈرائیور مجھے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔‘ جب ہم [ممبئی کے مرکزی ریلوے اسٹیشن] وکٹوریا ٹرمینس پہنچے تو ہم نے پایا کہ تمام ٹرینیں منسوخ ہوچکی تھیں اور پلیٹ فارم خالی پڑے تھے۔ اندوہناک خبر آ پہنچی تھی۔‘
دونوں کسی نہ کسی طرح واپس محفوظ مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہے اور منیش یاد کرتے ہیں کہ کس طرح پارٹی دفتر سے کامریڈز کو بھیجا گیا کہ وہ خالی سڑکوں پر چونے سے اعلان تحریر کریں کہ گاندھی جی کو ایک ہندو نے قتل کیا ہے۔ صرف تناؤ میں کمی آنے پر ہی عصمت چغتائی نوبیاہتا جوڑے اور ان کے چوٹی کے دانشور باراتیوں کو آئس کریم کھلانے لے جا سکتی تھیں۔
سردار پٹیل کے اس نامعقول حد تک بڑے مجسمے کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے جس کی تعمیر کا حکم وزیرِاعظم نریندرا مودی نے دیا تھا اور جس کا افتتاح 31 اکتوبر کو کیا گیا۔ یہ پٹیل کی سالگرہ کا دن تھا مگر اس دن ملک افسوس کے ساتھ 1984ء کے کشت و خون میں جان سے جانے والے سکھوں کو بھی یاد کرتا ہے۔
اندرا گاندھی کے حامیوں کو اس صبح ان کا قتل یاد ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ پٹیل کے مجسمے کے لیے زمین مقامی آدی واسیوں (قبائلی) سے ہتھیائی گئی تھی جبکہ ریاستی تیل کمپنیوں نے مبینہ طور پر اپنے 'سماجی ذمہ داری کے فنڈز' سے کئی ملین ڈالر اگل دیے تھے جن میں سے ایک چینی گروپ کو ایک حصہ دیا گیا تاکہ اس ڈھانچے کو کھڑا کیا جاسکے۔ اس کی وجہ مودی کا اونچائی اور چوڑائی سے والہانہ لگاؤ ہے، بشمول 56 انچ سینے کے ان کے دعوے کے، جس سے اس بات کا ذرا بھی ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے اس ہیرو سے تھوڑی سی دانائی بھی حاصل کی ہو۔
مودی کی عادات کے برعکس جب 1949ء میں ایودھیا میں بابری مسجد پہلی مرتبہ قانونی تنازعے کا شکار ہوئی تو پٹیل نے مسلمانوں کے لیے فوراً مداخلت کی۔
پٹیل نے اتر پردیش کے تجدید پسند وزیرِ اعلیٰ کو یاد دلایا کہ ’اس طرح کے معاملات پُرامن طریقے سے صرف تب حل ہوسکتے ہیں جب ہم مسلمان برادری کی بلا جبر رضامندی حاصل کریں۔‘ دائیں بازو کے ہندوؤں کی انتہائی مخالفت کے باوجود انہوں نے یہ بھی یقینی بنایا کہ آئین میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہو، جس کا واضح مطلب مذہب تبدیل کرنے کا حق تھا۔
تو پھر یہ مجسمہ سردار پٹیل کے کون سے چہرے کا عکاس ہے؟ ان کے ہم نام سردار جعفری نے ایک مرتبہ شیلے کے اوزیمینڈیاس (ایک طاقتور حکمران جس کے تباہ حال مجسمے نے افسوسناک کہانی سنائی) کا جواب خود کو مرکزی کردار بناتے ہوئے دیا تھا۔
’پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا، سردار کہاں ہے محفل میں‘
یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔