گوگل کے شریک بانی سمیت اعلیٰ افسران پر خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام
انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کمپنی گوگل پر اگرچہ صنفی تفریق اور مرد و خواتین ملازموں کی تنخواہوں اور مراعات میں فرق جیسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔
تاہم اب اس کمپنی میں خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور انہیں نشانہ بنانے والے اعلیٰ مرد افسران کو محفوظ راستہ دیے جانے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔
سامنے آنے والے معاملے کے مطابق گوگل کے تین اعلیٰ افسران خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے میں ملوث پائے گئے۔
تاہم کمپنی نے ان مرد حضرات کو کمپنی چھوڑنے کے لیے محفوظ راستہ دینے سمیت انہیں لاکھوں ڈالر بھی ادا کیے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گوگل کے سابق ملازم اور ‘اینڈرائڈ‘ کے خالق اینڈی ربن، سینیئر نائب صدر امت سنگھال اور گوگل کی تنظیم کیپیٹیل جی کے سربراہ ڈیوڈ ڈرومنڈ کی جانب سے خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ گوگل کے شریک بانی سرگی برن بھی ایک شادی شدہ ملازم خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے میں ملوث پائے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوگل کے اعلیٰ افسران کی جانب سے گزشتہ ایک دہائی کے اندر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے معاملات سامنے آئے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملازمین کی جانب سے خواتین کو ہراساں کیے جانے کے معاملات سامنے آنے کے بعد کمپنی نے ان کے خلاف تحقیقات بھی کیں، جس میں افسران ملزم پائے گئے، جس وجہ سے ہی انہیں کمپنی کو چھوڑنا پڑا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گوگل کی سماجی تنظیم کیپیٹل جی کی چیئرمین ڈیوڈ ڈرومنڈ کے بھی ایک خاتون ملازم کے ساتھ کافی عرصے تک جنسی تعلقات رہے، نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اس خاتون نے 2007 میں ان کے ایک بیٹے کو جنم دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افسران کو گوگل نے کمپنی چھوڑنے کے بعد نہ صرف محفوظ راستہ دیا، بلکہ انہیں لاکھوں ڈالر کی ادائیگی بھی کی۔
رپورٹ کے مطابق گوگل نے صرف اینڈرائڈ کے بانی اینڈی ربن کو ہی کمپنی چھوڑنے پر 9 کروڑ ڈالر کی رقم ادا کی، جس کی آخری قسط انہیں آئندہ ماہ تک ادا کردی جائے گی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گوگل کے شریک بانی سرگی برن بھی 4 سال قبل 2014 میں ایک شادی شدہ خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات میں ملوث پائے گئے۔
تاہم دوسری جانب گوگل نے امریکی اخبار کی رپورٹ پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
گوگل نے الزامات کو مسترد کردیا
امریکی میگزین ‘فورچون’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد گوگل نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ کمپنی میں خواتین کو ہراساں کرنے والے کے لیے کوئی بھی جگہ نہیں۔
رپورٹ کے مطابق گوگل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کی جانب سے جاری بیان میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کمپنی نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں ملوث پائے جانے والے افراد کو محفوظ راستہ نہیں دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کمپنی نے گزشتہ 2 سال میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے 48 افراد کو ملازمت سے فارغ کیا گیا۔
گوگل کے مطابق جن ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، ان میں 13 افراد اعلیٰ عہدوں پر تعینات تھے اور انہیں کوئی بھی اضافی پیکیج یا محفوظ راستہ نہیں دیا گیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق گوگل نے معاملہ سامنے آنے کے بعد بتایا کہ اب کمپنی نے اپنی پالیسی میں تھوڑی سی ترمیم بھی کی ہے اور ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔
رپورٹ کے مطابق اب تمام اعلیٰ اور ان کے ماتحت افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر ان کے کسی بھی ساتھی ملازم کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات ہیں، وہ اس حوالے سے کمپنی کو آگاہ کریں۔