علامتی بادشاہ، حقیقی شاعر بہادر شاہ ظفر
تاریخ کے منظرنامے پر 1857ء کی جنگِ آزادی کے مناظر جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ اس میں سے ایک منظر کی لوح پر ’بہادر شاہ ظفر‘ لکھا ہے۔ وہ مغل سپوت، جس کے ہاتھ سے بیاض لے لی گئی اور حالات نے سر پر تاج پہنا دیا۔ وہ مغل روایتوں کا امین تھا، مروت اور طرح داری آڑے آئی، انقلاب سے غدر تک آتے ہوئے، اس سے ایک ایک کرکے سب کچھ چھین لیا گیا۔
پہلے تاج و تخت، پھر اس کی نسل کے وارث اور آخر میں وہ سرزمین بھی، جو اسے پرکھوں سے ورثے میں ملی تھی، نہ چھینی تو زندگی نہ چھینی۔ اس ناتواں شاعر کی زندگی کے آخری برس چکّی کی وہ مشقت تھی جس کو آخری سانس تک اس نے نبھایا۔ اس کی شاعری میں حرف حرف لہو یوں ٹپکا کہ آج تک تاریخ کے اس حصے میں سرخ رنگ گویا غالب ہے۔ آج بھی اس منظرنامے پر ان کے بیٹوں اور پوتے کے بریدہ سر طشتری میں رکھے ہوئے ہیں اور پس منظر میں انگریزی فوج کے سپہ سالار کا قہقہہ گونج رہا ہے۔
دہلی کے راستے، بازار، دریچے، یادیں، آہیں اور سسکیاں جمع کیے، ان غموں سے وہ ایک ایسا شعری دیوان تخلیق کرتا ہے جس نے اسے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھا۔ وہ مغل بادشاہ نہیں، ربط و ضبط کا شاعر تھا۔ وہ ایک ایسا انسان بھی تھا جسے آزادی کا لگان دینا پڑا۔ آزادی کی شاہراہ پر اس کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سنہری دور میں پرورش پانے والے شاعرِ ناتواں نے اپنے سارے درد شاعری ہی میں غرق کردیے، چاہے وہ غمِ جہاں تھا یا غم دل و جاں۔ وہ لفظوں کے تابوتوں میں احساسات کے لاشے رکھتے ہوئے خود بھی رخصت ہوا، آج کے دن اسی شاعرِ ناتواں کا جنم دن ہے، یعنی اس کو یاد کرنے کا دن۔
بہادر شاہ ظفر کا پورا نام ’ابو ظفر سراج الدین محمد بہادرشاہ‘ تھا۔ اردو زبان میں ’ظفر‘ تخلص کرتے تھے۔ وہ معین الدین اکبر ثانی کی راجپوت ہندو بیوی ’لال بائی‘ کے بطن سے 24 اکتوبر 1775ء کو پیدا ہوئے۔ والدین کی اولین اولاد ہونے کی وجہ سے آنکھوں کا تارا تھے۔ ابتدائی تعلیم شہزادوں کی طرز پر ہی ہوئی، جو ہونا طے تھی۔ ان کے پہلے اتالیق حافظ ابراہیم تھے، جن سے فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ دادا اور والد سے ورثے میں شعر کہنے کا ہنر ملا تھا۔ شہزادگی کے زمانے سے ہی شعر کہتے تھے، شاعری کی ابتدائی تعلیم و اصلاح شاہ نصیر اور کاظم علی سے حاصل کی، ان کے بعد ذوق اور غالب کی شاگردی میں بھی رہے۔ شاعری کے علاوہ خطاطی کا بھی اشتیاق رکھتے تھے۔ انہوں نے جب شاعری کے لیے ہوش سنبھالا تو میر تقی میر بھی موجود تھے لیکن بہت ضعیف ہوچکے تھے، جبکہ مرزا مظہر جاں جاناں، میر درد، مرزا رفیع سودا کا دور گزر چکا تھا۔ وہ ذوق اور غالب کے زیرِ سایہ شاعری کی تربیت پارہے تھے۔
تمام تر بے سر و سامانی کے باوجود انگریز سرکار کی طرف سے بادشاہ کی علامتی حیثیت اور دربار کا مصنوعی وقار قائم تھا۔ وہ 30 ستمبر 1837ء کو 63 سال کی عمر میں تخت پر براجمان ہوئے تھے۔ دہلی پر شب خون مارے جانے کے بعد جنگِ آزادی کا نعرہ مستانہ، دربار کی سازشیں، انگریزوں کا دوبارہ اقتدار پر قبضہ اور ان پر چلنے والے مقدمے میں سزا کے طور پر جلا وطن کرنے کا فرمان، ایک پورا عہد ہے جس کو بیان کرنے کے لیے الگ دفتر درکار ہے۔
برصغیر پاک و ہند سے مغل خاندان کے وارث اپنے وطن سے بے دخل کردیے گئے، وہ برما کی اجنبی زمین پر زیادہ دنوں تک نہ جی سکے۔ ان کے جسم سے سانس رخصت مانگنے لگی اور شاعری میں زندگی کا چراغ روشن ہونے لگا۔ انہوں نے شاعری میں صنف غزل کے ذریعے شہرت حاصل کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی، جن میں رباعی، قطعہ، ٹھمری، دوہہ، مسدس، مرثیہ، سلام، نعت، حمد اور دیگر شامل ہیں۔
بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے جن کا شمار اب کلاسیکی شاعروں میں ہوتا ہے۔ انہیں بدقسمتی سے وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حق دار تھے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو نہ پہچاننے کی ایک وجہ ادبی نقاد بھی تھے۔ اردو تنقید کے 2 بڑے نقاد اور ایک دوسرے کے ہم عصر مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی تھے، جنہوں نے بہادر شاہ ظفر کو بطور شاعر نظر انداز کیا۔ رام بابو سکسینہ کی تاریخِ اردو میں بھی بہادر شاہ ظفر کا تذکرہ نہیں ملتا البتہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے تاریخ ادب اردو میں ان کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔
بعض نقادوں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا کیونکہ وہ ان کے کلام کی اصلاح کرتے تھے لیکن کئی نے اس امکان کو مسترد بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بہادر شاہ ظفر کی شاعری کو ان کی آپ بیتی کی مانند قرار دیا، جس کا اندازہ ان کی شاعری میں درج مضامین سے بھی ہوتا ہے جس میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔
معروف ادبی محقق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر کے 5 دیوان تھے، ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا جو باقی 4 محفوظ رہ گئے انہیں لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔ اب تو پاکستان اور ہندوستان میں کئی ادارے ان کا مکمل اور جامع دیوان شایع کرچکے ہیں۔
زبان سے رغبت اور تصوف سے محبت کے نتیجے میں ان کے نام سے دیگر 2 کتابیں بھی منسوب کی جاتی ہیں، جس میں سے ایک کا نام ’تالیفات ابو ظفری‘ جبکہ دوسری ’خیابان تصوف‘ ہے۔ یہ ان کی 2 نثری تصنیفات تھیں جن میں سے پہلی کتاب تاریخ کے اوراق میں گمشدہ ہے۔ پاک و ہند میں ان کے کلام پر کام جاری ہے، ان پر ہندوستان اور آسڑیلیا میں ہونے والی 2 ڈاکٹریٹ کے علاوہ ان کی شخصیت پر دنیا بھر میں بہت ساری عمدہ کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے چند ایک بہت مشہور ہیں، مثال کے طور پر ولیم ڈیلریمپل کی کتاب ’دی لاسٹ مغل‘ جو دنیا بھر میں اس موضوع پر مقبول کتاب ہے۔
بہادر شاہ ظفر کی شاعری کا احاطہ کیا جائے تو ہمیں جذبات کی کئی تہیں نظر آتی ہیں، محسوسات کے ان گنت زاویے، جن کو بازیافت کرنے سے شاعری کی نئی جہتیں اور لفظوں کے نئے معنی پڑھنے والوں پر آشکار ہوتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر ایک بادشاہ سے زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی حسن پرستی، انسان دوستی، مزاج کی تہہ داری سمیت احساسات کی نئی پرتیں کھولنے سے جمالیات اور یاسیت دونوں کے بارے میں تفصیل سے پتا چلتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
چاہیے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
غازیوں میں بُو رہے گی جب تلک ایمان کی
تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندو ستان کی
بہادر شاہ ظفر کے کلام میں سے کچھ کو بہت شہرت ملی، پاکستان و ہندوستان میں مختلف زاویوں سے کام بھی ہوا۔ ہندوستان میں 1960ء کو فلم ’لال قلعہ‘ بنی تھی، ٹی وی سیریز وغیرہ اور اس کے علاوہ کافی کچھ ہے۔ پاکستان میں ان کے کلام کو مہدی حسن نے راگ پہاڑی میں کمپوز کیا، یہ فلم 1968ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’شریک حیات‘ کا حصہ بنی، اس کے چند اشعار کچھ یوں ہیں۔
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اسی طرح معروف گلوکارہ عابدہ پروین نے ان کی ایک غزل کو اپنی آواز میں گا کر سامعین کو مسحور کردیا، جس میں کلام کا حسن اپنے عروج پر ہے۔ چند اشعار دیکھیے۔
یار تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا
لائق پابوسِ جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھا
میں نے پوچھا کیا ہوا وہ آپ کا حسن و شباب
ہنس کے بولا وہ صنم، شانِ خدا تھی میں نہ تھا
اے ظفر دل پر یہ تیرے داغ کیسا رہ گیا
خانہ باغِ یار میں خلقِ خدا تھی میں نہ تھا
بہادر شاہ ظفر بطور شاعر اپنے عہد کی انگریز سرکار کی مجرمانہ سرگرمیوں کو شاعری کے صفحات پر منتقل کرتے رہے۔ انگریزوں کی قید میں تو انہیں قلم دوات بھی میسر نہ تھی لیکن ان کے درو دیوار اور کوئلے کے ٹکڑے ہی ان کی لوح فن تھے۔ وہ ابتدائی زندگی کے زمانوں کی عیش رقم کرتے کرتے حالات کے جبر، سماج کی تلخیوں اور ذات پر بیتنے والے پے درپے سانحات کے ہاتھوں رومانویت سے یاسیت اور درد کے شاعر بن گئے، جلاوطنی نے اس کو مزید توڑ دیا، جس پر انہوں نے وہ کلام لکھا جس میں آہیں اور سسکیاں محسوس کی جاسکتی ہیں کہ کس طرح مغل سلطنت اس منظر نامے پر دم دے رہی تھی۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے، میں وہ ایک مشت غبار ہوں
حوالہ جات:
کتاب: بہادر شاہ ظفر، بادشاہی سے جلاوطنی تک: مرتب ،فرخ سہیل گوئندی۔ پاکستان
کتاب: دی لاسٹ مغل، ولیم ڈیلریمپل۔ انڈیا
کتاب: ڈاکٹرجمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو۔ پاکستان
مضمون: منشی امیر احمد علوی۔ انڈیا
مضمون: فیصل حنیف۔ قطر
مضمون: اردو ریسرچ جنرل، دہلی۔ انڈیا
مضمون: ادبی تجزیات، ڈاکٹر محمد یحییٰ صبا۔ انڈیا
مضمون: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی۔ پاکستان
ویب سائٹ: ۔شاعری کی آن لائن ادبی ویب سائٹ ریختہ،دہلی۔ انڈیا
ویب سائٹ: پاکستانی فلم ڈیٹابیس۔ پاکستان
تبصرے (2) بند ہیں