سعودی شاہی خاندان میں بے چینی اور بڑی تبدیلیوں کے اشارے
جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب پر عالمی دباؤ اس قدر ہے کہ اس صورتحال کو نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا جارہا ہے۔ سنگینی کا عالم یہ ہے کہ سعودی شاہی نظام اتھل پتھل کا شکار ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع محمد بن سلمان کے ہٹائے جانے کی خبریں دے رہے ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان کو نائب ولی عہد بنائے جانے کی اطلاعات ہیں جو اس وقت امریکا میں بطور سعودی سفیر کام کررہے ہیں۔ ریاستی امور سے لاتعلق ہوجانے والے شاہ سلمان کو ایک بار پھر معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پڑگئے ہیں کیونکہ سلمان خاندان اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھ رہا ہے۔
یمن میں جنگ کا آغاز، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنوں کی گرفتاری سمیت محمد بن سلمان کے کئی فیصلوں پر بین الاقوامی میڈیا نے شور مچایا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل تو یمن پر شور مچاتی رہ گئی لیکن امریکا سمیت کسی عالمی طاقت نے اس پر کان نہ دھرا، لیکن ایک قتل پر اس قدر شور مچا کہ سرکش شہزادے کا مستقبل ہی داؤ پر لگ گیا ہے۔
صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والی صورت حال اور عالمی دباؤ سے پریشان شاہ سلمان نے اپنے معتمد خاص گورنر مکہ پرنس خالد الفیصل کو ترکی بھیجا تاکہ صورتحال کو کسی حد تک بہتر کیا جاسکے، مگر پرنس خالد الفیصل نے واپس آکر شاہ سلمان اور شاہی خاندان کو بتادیا کہ ان حالات سے نکلنا بہت مشکل ہے۔
پرنس خالد الفیصل شاہ سلمان کے معتمد ہونے کے ساتھ ترک صدر طیب اردوان کے بھی دوست شمار ہوتے ہیں۔ ترک حکام نے ان کے ساتھ آڈیو ریکارڈنگ شیئر کی۔ ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد الفیصل شواہد دیکھ کر اس قدر دباؤ میں آئے کہ انہوں نے تعاون کے لیے منت تک کی جو سعودی شاہی خاندان کا شیوہ نہیں۔ پرنس خالد کی شدید پریشانی میں وطن واپسی کے بعد ہی سعودی عرب کو اعترافی بیان پر مجبور ہونا پڑا۔ سعودی عرب اس سے پہلے نہ صرف سختی سے تردید کر رہا تھا بلکہ پابندیوں کی صورت میں جوابی اقدامات کی دھمکی دے رہا تھا۔
شاہ سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کا فوری علم نہ ہوا۔ شاہی خاندان کے کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں سعودی ٹی وی چینلز کی رپورٹس سے علم ہوا جبکہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان کو خود ولی عہد نے آگاہ کیا اور مشکل سے نکلنے کے لیے مدد مانگی۔ 2 ہفتے تردید کے بعد اعترافی بیان نے سعودی مشکل کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے تو اس قتل پر بات کرنے کو تیار نہ تھے پھر اسے ‘بدمعاش قاتلوں’ پر ڈالتے رہے۔ اعترافی بیان کے بعد اسے قابلِ اعتبار بھی کہا لیکن اگلے ہی دن واشنگٹن پوسٹ سے انٹرویو میں شکوک کا اظہار کیا اور کہا کہ اس معاملے میں دھوکہ دیا گیا اور جھوٹ بولے گئے۔ تاہم ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب قابلِ اعتماد اتحادی ہے اور انہیں امید ہے اس قتل کے احکامات ولی عہد نے نہیں دیے ہوں گے۔
شاہ سلمان بادشاہت سنبھالنے سے پہلے گورنر ریاض تھے، ان کی شہرت بحیثیت گورنر یہ تھی کہ وہ سرکش اور بھٹک جانے والے شہزادوں کو قابو کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ سعودی تحقیقات کے نتیجے میں اعلیٰ ترین عہدیداروں سمیت 18 افراد کو ملزم قرار دیا جاچکا ہے۔ تحقیقات کس قدر درست اور جامع ہیں اس بحث میں پڑے بغیر یہ واضح ہے کہ خاشقجی کے قتل کی وجہ سے محمد بن سلمان کی انتظامی صلاحیتوں پر بہت بڑا سوال اٹھ کھڑا ہے۔
شاہ سلمان نے اس مشکل وقت میں معاملات دوبارہ ہاتھ میں تو لے لئے ہیں لیکن کیا وہ اس معاملے کو بالکل اسی طرح سنبھال سکیں گے جیسے وہ بحیثیت گورنر سرکش شہزادوں کو قابو کرتے رہے ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق شاہی محل سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان کی گرتی ہوئی صحت معاملات کے مکمل کنٹرول میں رکاوٹ ہے۔
1932ء سے قائم سعودی ریاست میں کئی مواقع پر شاہی خاندان میں اختلافات ہوئے، قتل و غارت گری بھی ہوئی۔ اندرونی معاملات جیسے بھی رہے سعودی عرب کو کبھی دنیا سے معاملات میں ایسے پیچیدہ اور نازک مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ اس وقت معاملہ اقتدار کی کشمکش سے زیادہ ریاست کے استحکام اور معاشی نزاکتوں کا ہے۔ اس پیچیدگی کے عوامل بیک وقت اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی ناپختگی کی وجہ سے سعودی عرب نے بہت کم عرصے میں اندرونی اور بیرونی محاذ کھولے۔
محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے سے پہلے شاہی خاندان ریاست کے معاملات مشاورت اور اتفاق رائے سے چلاتا تھا۔ شہزادہ محمد بن نائف کو ہٹا کر خود ولی عہد بننے والے محمد بن سلمان نے اس مشاورتی عمل کو تہہ و بالا کیا۔ محمد بن نائف کو ہٹانے کے بعد ان کے ساتھ ملاقات کی ویڈیو ٹی وی چینلز پر دکھا کر محمد بن سلمان نے بہت واضح پیغام دیا تھا کہ جو اختلاف کرے گا یا راہ میں حائل ہوگا اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
محمد بن نائف اس کے بعد کبھی عوام میں نہیں دیکھے گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے محل میں نظر بند ہیں۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کبھی بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات، ڈیل اور بظاہر خاموشی پر مبنی تھی، اور محمد بن سلمان نے یہاں بھی جارحانہ انداز اپنایا۔ یمن جنگ چھیڑی، لبنانی وزیرِاعظم کو یرغمال رکھا، قطر اور کینیڈا کے ساتھ تعلقات توڑے۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کو معاشی سودوں پر استوار کیا اور تشہیر کی خاطر خواتین کو محدود آزادی دی۔
محمد بن سلمان کی صورت میں مغرب کو ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو قدامت پسند ریاست کی پالیسیوں کو یکسر بدل کر مشرق وسطیٰ میں ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ تو جیسے محمد بن سلمان کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے۔ مغرب کے ساتھ ان کے یہ روابط شاہی خاندان میں ان کے مخالفین کو کھٹک رہے تھے۔ شاہی محل پر پہرے بٹھانے سے سینئر شہزادوں کی شاہ سلمان تک رسائی بھی محدود ہو گئی تھی۔ شہزادوں کے تحفظات اور شکایات سننے والا کوئی نہیں تھا۔
ان حالات میں سینئر شہزادوں کے پاس ایک ہی راستہ تھا، یعنی مغرب میں پرانے دوستوں سے رابطے جس کا واحد وسیلہ جمال خاشقجی تھے۔ جمال خاشقجی کا سارا کیرئیر ترکی بن فیصل السعود کی مرہون منت ہے۔ جمال خاشقجی بادشاہت، سعود خاندان یا ریاست پر تنقید سے زیادہ محمد بن سلمان کو نشانے پر رکھے ہوئے تھے۔ اس بنیاد پر شک تھا کہ وہ محمد بن سلمان، ترکی الفیصل اور شاہ عبداللہ کے خاندان میں پائی جانے والی کشمکش کا حصہ تھے۔
جمال خاشقجی اخوان المسلمون کے ہمدرد تھے اور عرب دنیا میں تبدیلی کے لیے مغرب کی برپا کی گئی عرب اسپرنگ کی ناکامی پر دلبرداشتہ تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ چند اصلاح پسندوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ ‘ڈیموکریسی فار عرب ورلڈ ناؤ’ کی تشکیل پر کام کر رہے تھے۔ جمال خاشقجی ترکی میں مستقل سکونت کا ارادہ رکھتے تھے اور اردوان کے قریب تصور کئے جاتے تھے۔ جمال خاشقجی ترکی سے ایک ٹی وی چینل کی لانچنگ کا بھی ارادہ رکھتے تھے اور اس منصوبے کو بھی مبینہ طور پر ترک صدر کی حمایت حاصل تھی جو خود اخوان المسلمون کے ہمدر ہیں۔
ترک صدر اردوان کو جمال خاشقجی کے معاملے پر جب ان کی انٹیلی جنس کے چیف نے بریفنگ دی تو صدر کا اپنے دوست کے قتل پر صدمہ غصے میں بدل گیا۔ ترک صدر نے فوری طور پر سعودی سفارت کاروں کو طلب کرکے ان کے ساتھ شواہد شیئر کرنے کی ہدایت کی۔ 6 اکتوبر کو ترک حکام سے سعودی سفارت کاروں نے پہلی ملاقات کی جو خوشگوار نہیں تھی۔ سعودی سفارت کاروں نے فوری طور پر خاشقجی کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا۔ سعودی سفارت کاروں کی لاعلمی حقیقی بھی ہوسکتی ہے جو استنبول کی بجائے انقرہ میں بیٹھے تھے اور واقعات ان کے علم میں نہیں تھے۔ اس دن نصف رات تک ریاض سے بھی کوئی ردِعمل نہ آیا۔ ترکی نے اپنا پہلا کارڈ کھیلا اور برطانوی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ خاشقجی قونصل خانے کے اندر قتل ہوئے ہیں۔ ترک حکام نے رازداری کی شرط پر تفصیلات شیئر کرنا شروع کردیں اور کہا کہ خاشقجی نہ صرف قتل ہوچکے ہیں بلکہ ان کی لاش کے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ آہستہ آہستہ مزید تفصیلات اور تصاویر بھی چنیدہ میڈیا ہاؤسز کے ساتھ شیئر کی گئیں۔ 10 دن یہی کھیل کھیلا گیا اور سعودی حکومت دباؤ میں آتی چلی گئی۔
جمال خاشقجی کیس میں روز آنے والا نیا موڑ ترک صدر اردوان کی سفارتی مہارت کا عمدہ نمونہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میڈیا کو تفصیلات شیئر کرنے کی ہدایات اردوان ذاتی طور پر دیتے رہے۔ کیا جاری کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ اردوان کے فیصلے تھے۔ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کو بڑا جھٹکا دینے کے بعد اردوان نے مزید تفصیلات کا اجرا روک دیا تھا۔ جب ٹرمپ نے سعودی بیان کو قابلِ اعتماد کہا تو اردوان نے ایک بار پھر نئی تفصیلات افشا کرنا شروع کردیں۔ اب ترک صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ خاشقجی کیس کی تفتیش تمام جزئیات کے ساتھ دنیا کے سامنے لائیں گے۔ کسی طرح کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ صدر اردوان نے شام سمیت مشرق وسطیٰ میں محمد بن سلمان کی پالیسیوں کا بدلہ بھرپور طریقے سے چکایا ہے۔
استنبول آپریشن کے بعد بین الاقوامی ردِعمل پر ناتجربہ کار شہزادہ حیران تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی اتنا بڑا معاملہ کیسے بن گئی۔ خاشقجی کی گمشدگی کے آٹھویں روز 10 اکتوبر کو محمد بن سلمان نے اپنے دوست، ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر کو فون کیا اور سوال کیا کہ اس قدر غصہ کیوں ہے؟ جارڈ کشنر کے ساتھ قومی سلامتی مشیر جان بولٹن بھی موجود تھے، جارڈ کشنر نے محمد بن سلمان کو سخت پیغام دیا اور کہا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق ولی عہد کی پریشانی غصے میں بدل گئی اور ان کا کہنا تھا کہ مغرب نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ وہ اب نئے دوست تلاش کریں گے اور کسی بھی ثبوت سے پہلے اپنے مخالف ہونے والوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کے بعد فوری تحقیقات کے اعلان کے بجائے انٹیلی جنس ایجنسیوں، وزارتِ خارجہ اور سیکورٹی اداروں کی ایک کمیٹی بنائی اور لمحہ بہ لمحہ رپورٹس لیتے رہے۔
محمد بن سلمان نے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان کو واشنگٹن سے واپس طلب کرلیا ہے اور انہیں فوری طور پر انٹیلی جنس چیف بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خالد بن سلمان کی واپسی پر یورپی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس ایک مختلف تصویر کشی کر رہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق یورپی دنیا کے شدید ردِعمل اور پابندیوں کی دھمکیوں کے بعد شاہی خاندان بھی نیا بندوبست سوچ رہا ہے۔ محمد بن سلمان کے مزید اقتدار میں رہنے کے نتائج اور اس کی قیمت کا بھی تعین کیا جارہا ہے۔ محمد بن سلمان کو فوری طور پر ولی عہد کے عہدہ سے ہٹانے کی بجائے خالد بن سلمان کو نائب ولی عہد بنانے کی سوچ پائی جاتی ہے۔
خالد بن سلمان کو نائب ولی عہد بنا کر نقصان پر قابو پانے کے اس منصوبے کی کامیابی مشکوک ہے۔ نائب ولی عہد کا تقرر محمد بن سلمان کی نظر میں ان کے اقتدار پر قبضے کی سازش ہوگی۔ محمد بن سلمان کو شاہی خاندان میں براہِ راست چیلنج کرنے والا ابھی کوئی دکھائی نہیں دیتا سوائے ایک شخصیت کے، وہ ہیں شاہ سلمان، لیکن وہ کس حد تک مؤثر ہوں گے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو، جو سی آئی اے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، محمد بن سلمان کو ولی عہد کے عہدے پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ امریکی صدر اور ان کے داماد جارڈ کشنر محمد بن سلمان کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ نے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ریاض کا جو دورہ کیا اس کا مقصد صرف یہ جاننا تھا کہ محمد بن سلمان کو ہٹانے کی کوئی بات ہو رہی ہے یا نہیں؟ اس طرح کی کسی بھی بحث میں امریکا براہِ راست شامل ہونے کا خواہاں ہے۔
سی آئی اے کے ساتھ وابستہ رہنے والے مشرق وسطیٰ کے ماہر بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ محمد بن سلمان کے ساتھ قطع تعلق ہرگز نہیں کرے گی۔ امریکا شاہی خاندان میں پائی جانے والی بے چینی سے آگاہ ہے۔ امریکی صدر کو محمد بن سلمان کے بارے میں شکوک ہوسکتے ہیں اور وہ اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے ، تاہم مائیک پومپیو جو بھی چاہتے ہوں وہ ٹرمپ کی مرضی کے خلاف نہیں جائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی کا دار و مدار مکمل طور پر محمد بن سلمان پر ہے۔ ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے انہیں سعودی مدد کی ضرورت ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے بھی وہ سعودی عرب کے 110 ارب ڈالر سودے پر آس لگائے بیٹھے ہیں جس کے ذریعے ٹرمپ کے خیال میں امریکا میں ملازمت کے 5 لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔ 110 ارب ڈالر کے دفاعی سودے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اظہارِ دلچسپی کے خطوط تک محدود ہے۔ ابھی تک کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔
امریکا کا سخت ردِعمل جمال خاشقجی کے قتل اور انسانی حقوق سے نہیں بلکہ اس دفاعی سودے سے جڑا ہے جس کی کئی ڈیڈلائنز گزر چکی ہیں۔ امریکا میں 2 طرح کی سوچ ہے ایک سوچ سی آئی اے اور اسٹیبلشمنٹ کی ہے جو محمد بن سلمان کو ولی عہد نہیں دیکھنا چاہتی جبکہ دوسری سوچ ٹرمپ کی ہے جو محمد بن سلمان پر جوا کھیل رہے ہیں۔ سی آئی اے محمد بن نائف کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے جو 24 برس سے زائد عرصہ انٹیلی جنس چیف رہے، امریکا اور یورپ دونوں کی ایجنسیاں ان پر اعتماد کرتی ہیں۔
ان 2 قوتوں کے علاوہ تیسری قوت یا لابی امریکی اسلحہ سازوں کی ہے۔ 110 ارب ڈالر سُن سُن کر وہ تھک چکے اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آرہا۔ امریکی اسلحہ ساز لابی کو شک ہے کہ سعودی بڑے دفاعی سودے کا جھانسہ دے رہے ہیں۔ سعودی دفاعی سودے کی پہلی ڈیڈ لائن اس سال 30 ستمبر کو ختم ہوئی۔ سعودی عرب نے اکتوبر 2017 میں کہا تھا کہ وہ امریکا سے اینٹی ایئر میزائل ڈیفس سسٹم (تھاڈ) کے 7 یونٹ خریدنا چاہتا ہے۔ جس کے ساتھ اضافی راڈار اور لانچرز بھی خریدے جائیں گے۔ یہ 15 ارب ڈالر کا سودا ہے۔ امریکی صدر بھی اس اسلحہ ساز لابی کے سیلز مین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگرچہ اس حوالے سے ری پبلکن پارٹی کے 2 سینیٹرز نے سخت لب و لہجہ اپنایا ہے تاہم سعودی عرب کو امریکا کی دونوں بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ امریکا کی دونوں بڑی جماعتوں کی حمایت کا مطلب بھی اسلحہ ساز لابی کی حمایت ہے۔ سخت لب و لہجہ اپنانے والے سینیٹر لنزے گراہم کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن ان کی انتخابی مہم میں سب سے بڑی ڈونر تھی جس نے 61 ہزار 7 سو ڈالر چندہ دیا۔
سعودی عرب اس مشکل سے نکلنے کے لیے ممکنہ طور پر 2 راستے اپنا سکتا ہے۔
پہلا راستہ نائب ولی عہد کا تقرر ہے جو دنیا کے ساتھ معاملات کرے۔ اس کی وجہ سعودی سرمایہ کاری کانفرنس کی بُری طرح ناکامی ہے۔ دنیا کے بڑے سرمایہ کار اب سعودی عرب اور خصوصا محمد بن سلمان کے ساتھ معاملات سے گھبرا رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں محمد بن سلمان ایک راک اسٹار تھے جن کے ساتھ دنیا کا ہر سرمایہ کار ایک تصویر لینے کو بے چین تھا۔ لیکن اس بار بہت سی کمپنیاں بائیکاٹ کرچکی ہیں اور جو شریک ہو رہے ہیں انہیں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ محمد بن سلمان کے ساتھ ان کی تصویر شائع نہ ہونے پائے ورنہ ان کے لیے یورپ میں مشکلات ہوں گی۔
ان حالات میں سعودی عرب کو ایک نیا چہرہ درکار ہے جو شاہ سلمان اور ان کے خاندان کے نزدیک سب سے پہلی ترجیح خالد بن سلمان ہوں گے۔ خالد بن سلمان مستقبل میں کسی موقع پر ولی عہد کو ہٹا کر خود بھی آگے آسکتے ہیں جیسے محمد بن نائف کو ہٹایا گیا۔ محمد بن سلمان اس کوشش کی مزاحمت کرسکتے ہیں۔ شاہ سلمان کا کردار اس معاملے میں اہم ہوگا۔ خالد بن سلمان کو نائب ولی عہد بنانا قلیل مدتی حل ہے اور محمد بن سلمان کو آگے لانے جیسی غلطی بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب میں کامیاب بادشاہت کا راز شہزادوں کو طویل عرصے تک بادشاہت کے لیے تیار کیا جانا ہے۔ ہر نائب ولی عہد کئی مراحل سے گزر کر ولی عہد بنتا تھا اور اس کے بعد بھی طویل عرصہ بحیثیت ولی عہد تربیتی عمل سے گزرتا تھا۔ محمد بن سلمان کو کڑی تربیت کے بغیر ہی امور سلطنت سونپے گئے اور ولی عہد کی ناتجربہ کاری نے ریاست کو یہ دن دکھائے۔
سعودی عرب کے پاس دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ٹرمپ کی حمایت اور مدد برقرار رکھنے کے لیے 110 ارب ڈالر کے دفاعی سودے کی پہلی قسط فوری طور پر جاری کر دے۔ دفاعی سودے کو آگے بڑھا کر شاہ سلمان سی آئی اے اور امریکی اسلحہ ساز لابی کی سازشوں کے مقابلے کے لیے کچھ مہلت بھی حاصل کرلیں گے۔
ڈاکٹر آصف شاہد 20 سال سے زائد عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ اردو زبان کے مختلف قومی اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد ان دنوں نجی ٹی وی چینل میں انٹرنیشنل ڈیسک کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں