جمال خاشقجی کے معاملے پر امریکا کو کوئی آڈیو ٹیپ نہیں دی، ترکی
انقرہ: ترکی نے لاپتہ اور مبینہ طور پر قتل کیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے پر امریکا کو آڈیو ٹیپ دینے کی تردید کردی۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے کہا کہ استنبول میں سعودی سفارتخانے سے لاپتہ ہونے والے سعودی صحافی کے معاملے پر سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو یا کسی امریکی حکام کو کوئی ٹیپ نہیں دی۔
خیال رہے کہ ترک وزیر خارجہ کی جانب سے یہ بیان امریکی اعلیٰ سفارتکاروں سے ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کی موت کا یقین ہوگیا، امریکی صدر
اس سے قبل ترک حکومت کی حمایت یافتہ میڈیا کی جانب سے رپورٹ کیا گیا تھا کہ ترکی کے پاس ایک آڈیو ریکارڈنگ ہے جو سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے مبینہ قتل اور موت سے قبل تشدد کو ثابت کرتی ہے، تاہم ترک حکام نے اس ٹیپ کی موجودگی کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی تھی۔
دوسری جانب ذرائع ابلاغ میں گردش کردہ رپورٹ میں ترک سینئر حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ مائیک پومپیو نے دورہ ترکی کہ دوران وہ آڈیو سنی اور انہیں ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ دکھائی گئی لیکن مائیک پومپیو نے اس رپورٹ کی تردید کی تھی۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ ’میں نے کوئی ٹیپ یا ٹرانسکرپٹ نہیں دیکھی اور نہ ہی میں کوئی ٹیپ سنی‘۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاپتہ سعودی صحافی کے معاملے پر شدید انتباہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب انہیں یقین ہوگیا ہے کہ جمال خاشقجی مرچکے ہیں اور سعودی عرب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔
علاوہ ازیں ترکی کے حکام نے جمال خاشقجی کی تحقیقات سامنے لانے سے روک دی ہے لیکن اس بات پر زور دیا ہے کہ مقررہ وقت پر اسے دنیا کے سامنے لایا جائے گا۔
جمال خاشقجی کی جنگل میں تلاش
دوسری جانب جمال خاشقجی کی گمشدگی پر ترکی کے تفتیشی حکام نے دائرہ کار بڑھاتے ہوئے جنگل میں انہیں تلاش کیا۔
اے ایف پی کے مطابق ترکی کے مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرنے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ناقد جمال خاشقجی کو یا ان کی لاش کو تلاش کرنے کے لیے جنگل میں بھی تلاش کی گئی۔
واضح رہے کہ ذرائع اورترک حکومت کے حمایتی میڈیا نے جمال خاشقجی کے معاملے پر سعودی عرب کےملوث ہونے کا اشارہ دیا تھا اور کہا تھا کہ اس مقصد کے لیے 15 سعودیوں کی خصوصی ٹیم استنبول بھیجی گئی، تاہم سعودی عرب نے ان تمام دعووں کو مسترد کیا تھا۔
ترکی کے روزنامہ جمہوریہ اور این ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ استنبول کے یورپین حصے میں بیلگریٹ جنگل میں جمال خاشقجی کو سرچ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں ایپل واچ کا کردار
انہوں نے بتایا کہ جنگل ایک وسیع علاقے پر ہے اور عموماً مقامی رہائشی بھی روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ ہوجاتے ہیں اور یہ جنگل سعودی سفارتخانے سے 15 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔
این ٹی وی کے مطابق پولیس کی جانب سے جمال خاشقجی کی گمشدگی کے دن قونصلیٹ سے آنے والی گاڑیوں پر توجہ مرکوز کی گئی اور کم از کم ایک گاڑی ممکنہ طور پر جنگل کی طرف گئی۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے پولیس نے سعودی قونصلیٹ کی 2 مرتبہ تلاشی کی جبکہ سفارتکار کی رہائش گاہ کو بھی 9 گھنٹے تک سرچ کیا گیا جبکہ منگل کو سعودی قونصل محمد القطیبی اچانک استنبول چھوڑ کر ریاض چلے گئے۔
ادھر حکومتی اخبار روزنامہ صباح نے استنبول آنے والی سعودی ٹیم کی کچھ نئی سی سی ٹی وی تصاویر شائع کیں اور رپورٹ کیا کہ ٹیم کے 2 افراد یکم اکتوبر کو استنبول آئے۔
مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے روز 2 نجی طیاروں کے ذریعے 15 افراد ترکی آئے اور یہ بذریعہ مصر اور دبئی ریاض واپس گئے۔
اقوام متحدہ کی تحقیقات کا مطالبہ
دوسری جانب انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے 4 معروف گروپ نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ اس طرح کے مبینہ جرم کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی تحقیقات کرائے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گیوٹررز کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات اس معاملے کو واضح کردے گی۔
جمال خاشقجی کا معاملہ
خیال رہے کہ امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کا مرکز بنے جب 2 اکتوبر کووہ ترکی میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل تو ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے بارے میں خیال کیا جانے لگا کہ انہیں قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی متعدد مرتبہ متنازع ایڈیٹوریل پالیسز پر برطرف ہوئے
تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو سفارت خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل سفارتخانے کی عمارت سے باہر جا چکے تھے۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی، لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔
ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا گیا اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے آفس کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔
ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیگے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔
بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔