ہوتا سُپرمین جو پاکستان میں
اِس وقت ہم ٹسوے بہا اور ایک گانے کے یہ بول گا رہے ہیں، ’جگ نے چھینا مجھ سے مجھے جو بھی لگا پیارا۔‘
بھئی دل درد سے بھر نہ آئے کیوں یہ بھی کوئی بات ہوئی، جو بھی ہمیں پسند ہو وہ نہیں رہتا، نوازشریف وزیرِاعظم نہ رہے، مولانا فضل الرحمٰن اسمبلی میں نہ رہے، ممنون حسین صدر نہ رہے، عمران خان غصے میں نہ رہے، شیخ رشید ٹی وی پروگراموں میں نہ رہے اور مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار کہیں کے نہ رہے اور اب خبر آئی ہے کہ ہمارا من پسند کردار سُپرمین بھی نظروں سے اوجھل ہونے کو ہے، کیونکہ کامک سائنس فکشن فلمیں بنانے والی امریکی کمپنی وارنر برادرز نے آئندہ کئی سال تک ایسی کوئی فلم نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں سُپرمین کا کردار ہو۔
سُپرمین کی جب بھی کوئی فلم دیکھی یہی سوچا کہ کاش ہم بھی اسی طرح اُڑ سکتے، سیڑھیوں پر ہانپ ہانپ کر اور لفٹ میں بجلی بند ہوجانے کے خدشے سے ڈر ڈر کر بلندیوں پر پہنچنے کے بجائے، کھڑکیوں پر قدم رکھتے لمحوں میں اوپر پہنچ جاتے۔ خیر ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ سُپرمین کی طرح اُڑان بھریں اور دیواروں کی سطح پر چہل قدمی کریں، ہم اپنا چال چلن ہی ٹھیک کرلیں تو بہت ہے۔
خود سے مایوس ہوکر ہم نے اس خواہش کا دامن تھام لیا کہ ہمارے ملک میں بھی ایک سُپرمین ہو، آخر اس خواہش نے ’ہٹ بے شرم‘ کہہ کر ایک جھٹکے سے دامن چُھڑایا اور یہ جا وہ جا۔ اب خواہش کی جگہ خواب نے لے لی ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ اگر واقعی سُپرمین پاکستان میں ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا۔ اول تو ہمارے ہاں اس کا نام ہی کچھ اور ہوتا جیسے ’اُڑنے والی سرکار‘، ’اُڑن بابا‘ یا ’اقبال کا ماڈرن شاہین‘۔ نام کچھ بھی ہو لیکن بے چارے کے ساتھ ہوتا بہت بُرا۔
اِدھر کسی کو مصیبت سے بچانے کے لیے سُپرمین زمین سے 10 سے 15 فٹ ہی بلند ہوتا کہ راہ میں آنے والے گھروں میں بھگدڑ مچ جاتی، بی بیاں دوپٹے سنبھالتی گرتی پڑتی صحن اور چھتیں چھوڑ کر کمروں کی راہ لیتیں۔ ہر گھر سے اس طرح کی آوازیں بلند ہوتیں، ’بے شرم اُڑا چلا آرہا ہے، کیسی بے پردگی ہوگئی‘، ’ارے کم بخت! تیرے گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں‘، ’کیسے دیکھتا ہوا جارہا تھا، بدمعاش‘۔
ہمارے غیرت مند معاشرے کے مرد کہاں برداشت کرتے کہ کوئی نامحرم کبوتر بنا گھروں میں تانکتا جھانکتا اُڑا جارہا ہو، سو کوئی پتھر دے مارتا اور کوئی ہوائی فائرنگ شروع کردیتا۔ ایسے میں سُپرمین کو عزت اور جان بچانے کے لیے واپسی کی راہ لینی پڑتی اور وہ بدحواسی کے عالم میں اپنے گھر پہنچ کر چھپ جاتا اور آئندہ کسی کی مدد سے تائب ہوجاتا۔
صورت حال دیکھتے ہوئے حکومت کو اعلان کرنا پڑتا کہ سُپرمین کی پرواز سے پہلے حکومتی اہل کار اس کے ’روٹ‘ پر صدا لگائیں گے ’پردہ کرلوووو، سُپرمین بھائی ٹیک آف کرنے والے ہیں ں ں ں ں‘۔
ممکن ہے سُپرمین کی نیت اور کردار پر شک کرتے اور یہ سوچتے ہوئے کہ راہ میں کوئی ’منظر‘ دیکھ کر وہ اپنا ہدف اور مقصد فراموش نہ کر بیٹھے، اس کی آنکھوں پر گھوڑے کی طرح دائیں بائیں اور نیچے رکاوٹیں لگادی جاتیں۔
ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی سُپرمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ کبھی حکم ملتا،’یہ لو بوتل، اور جھٹ پٹ فلاں اسپتال کے روم نمبر اتنے میں پہنچا دو۔ وہاں داخل مریض کو بڑی زور کی طلب ہورہی ہے‘۔ کبھی ہدایت آتی، ’یار ذرا لاہور سے 4 آزاد ارکان اسلام آباد پہنچانے ہیں، یوں کرو ایک کو پیٹھ پر لادو، 2 کو بغلوں میں دباؤ اور چوتھے کی گردن منہ میں دبا کر اُڑ جاؤ‘۔ پھر سُپرمین کراچی کی بس یا عید کی ٹرین بنا اُڑا جارہا ہوتا۔
یوں بھی ہوتا کہ سُپرمین کو وزارتِ خارجہ سے ہدایت ملتی کہ ’فلاں ملک کے شیخ آئے ہیں، ان کے ساتھ رہو، وہ فضا میں فائر کرتے رہیں گے، تم تیتر پکڑ اور ہوا ہی میں مار کر ان کے قدموں میں ڈالتے رہنا‘۔
انتخابات کے دوران تو سُپرمین کو سر کھجانے کی فرصت نہ ملتی۔ اسے بس ایک کال آتی اور کہا جاتا ’میاں! تم ہوگے سُپرمین، ہم اس ملک کی سُپرپاور ہیں، جو کہیں اس پر عمل کرو، ورنہ کسی دن اُڑتے اُڑتے یوں لاپتا ہوجاؤ گے جیسے قتیل شفائی کا پنچھی اُڑتے اُڑتے دُور اُفق میں ڈوب گیا تھا‘۔ بس پھر انتخابات تک سُپرمین ایک سیاسی جماعت کے پوسٹر گھر گھر گراتا اور اونچی اونچی عمارات اور کھمبوں پر اس جماعت کے پرچم لگاتا نظر آتا۔
سُپرمین اگر کہیں شادی کی ٹھان لیتا تو ہمارے ملک میں یہ بحث شروع ہوجاتی کہ وہ انسانوں میں شمار ہوتا ہے یا پرندوں میں اور علماء سے استفسار کیا جانے لگتا، ’کیا کہیں گے علمائے کرام بیچ اس مسئلے کے کہ ایک اُڑنے والی مخلوق شرعاً انسان سمجھی جائے گی؟ اور نہیں تو کیا اس سے کسی مسلمان خاتون کا نکاح جائز ہوگا؟‘ اس موضوع پر ٹاک شوز ہوتے جن میں مفتیان عظام، سیاستدان اور تجزیہ کار اپنی اپنی رائے دیتے، اور ان شوز میں کسی ریٹائرڈ فوجی کو ضرور بلایا جاتا۔ اب آپ کہیں گے کہ ایک مذہبی اور سماجی موضوع کے شو میں ان کا کیا کام؟ تو بھیا وہ سیاسی شو میں بھی تو ہوتے ہیں!
آخر سُپرمین کے سر پر سہرا سج جاتا، سادگی کا کلچر اپناتے ہوئے شادی پر زیادہ خرچہ نہ کیا جاتا، بلکہ سُپرمین کا معروف سُرخ رومال ہی دلہن کی لال چُنریا بن جاتا۔
اب شروع ہوتی سُپرمین صاحب کی شادی شدہ زندگی۔ ’سُنیے! سالن دَم پر ہے، آلو ڈالنا بھول گئی، ذرا اُڑ کر لے آئیے ناں‘، ’سُنیں، اُٹھیے ناں، خان پور کے پیڑے کھانے کو دل چاہ رہا ہے، لادیں پلیز‘، ’یہ لیں مُنے کو اس کے اسکول چھوڑ دیں اور مُنی کو اس کے اسکول، اور میں کمر پر لد رہی ہوں مجھے شاپنگ مال پر ڈراپ کردیجیے گا اور واپس لینے بھی آجائیے گا‘، ’جی یہ باجی کے بچے ضد کر رہے ہیں خالو کی سواری کرنا ہے، انہیں ذرا ڈیڑھ 2 سو میل کا چکر دلوادیں‘، ’شونو، اٹھیے، مجھے نیند نہیں آرہی، امی یاد آرہی ہیں، مجھے ان کے گھر چھوڑ آئیں پھر سوجائیے گا، ابھی تو صرف رات کے 2 بجے ہیں، آپ کی نیند پوری ہوجائے گی‘۔
آخر ایک روز تھکن سے نڈھال، مشقت سے ہلکان اور پریشان حال سُپرمین کسی ڈاکٹر سے رجوع کرکے دل کا مرض یا کمر کا درد لاحق ہونے کا سرٹیفیکٹ لیتا، علاج کے لیے لندن جاتا اور سیاسی پناہ اور جان کی امان لے کر وہیں بس جاتا۔ اُس کی کہانی مدتوں سیاسی تجزیہ کاروں کی زبان پر ان الفاظ کے ساتھ ہوتی کہ ’دیکھا، ہوا میں اُڑنے کا یہی انجام ہوتا ہے‘۔