ہم بھی سلواکیہ کے دارالحکومت براٹسلاوا گئے تھے
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے 100 کلومیٹر کی دوری پر سلواکیہ نامی ملک کا دارالحکومت براٹسلاوا واقع ہے۔
یہ ملک پہلے چیکو سلواکیہ کا حصہ تھا، یہ چھوٹا سا ملک ہنگری، چیک ری پبلک، آسٹریا، یوکرین اور پولینڈ سے گِھرا ہوا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ایسا دارالحکومت ہے جس کو 2 ملکوں آسٹریا اور ہنگری کی سرحد لگتی ہے۔
ہمارا گزشتہ رات کا قیام ویانا میں تھا، اور ہم نے 100 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے موٹر وے کے بجائے چھوٹی سڑکوں سے عبور کرنے کا ارادہ کیا، اس طرح ہمارا یہ سفر اور بھی دل چسپ ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے آسٹرین اور سلواکیہ کے دیہات سے ہوتے ہوئے ہم اس شہر آ پہنچے جو دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔
مختلف قصبات سے گزرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ گمان غالب تھا کہ سلواکیہ کے دارالحکومت پر بھی سادگی کا رنگ غالب ہوگا، اور تقریباً ایسا ہی تھا۔ ہماری پہلی منزل سلواکیہ کا آئی کون اس کا پرانا قلعہ تھا، اس قلعے کی تاریخ 9ویں صدی عیسوی تک محیط ہے۔ یہ کئی بار بنا اور ٹوٹا، مگر میں نے اس قلعے کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھا۔
سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس قلعے کی سیر کرنے آئی ہوئی تھی، جن میں اکثریت ریٹائرڈ ہوچکے افراد کی دکھائی دی، ایسے لوگ جو زندگی گزارنے کا مطلب اب سمجھے ہیں یا شاید جن کو معاشی آسودگی اور وقت بڑی دیر سے ملا تھا۔ ایسے مقامات پر ایک نوجوان کی صورت میں گھومنا بے اختیار لبوں پر ایک کلمہ شکر لے آتا ہے کہ خدا تعالی نے ہم پر ایسی نوازشیں کیں کہ ہم دنیا گھومنے کی عیاشی اس عمر میں کرسکتے ہیں۔
قلعے سے ملحقہ گلیوں میں پارکنگ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن یہاں سبھی پارکنگ ایریاز ریزرو تھے، قلعے کے نیچے ایک جدید طرز کی پارکنگ بنی ہوئی ہے جس کی فی گھنٹہ فیس 3 یوروز تھی، نا چاہتے ہوئے بھی وہیں پارکنگ کرنا پڑی۔
قلعے کو اندر سے دیکھنے اور اس کے مختلف حصے دیکھنے کے لیے کم و بیش 12 یوروز کا ایک اور ٹکٹ بھی خریدنا ہوتا ہے۔ میرا اس شہر میں قیام 4 سے 5 گھنٹوں پر ہی محیط تھا، اس لیے قلعے کو باہر سے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔
قلعے کے سامنے بنی ہوئی بالکونی سے دریائے ڈینیوب اور شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ دریا پر بنے ہوئے پل کے اوپر ایک آبزرویشن بھی سینٹر بنایا گیا ہے، جہاں سے شہر کا ایک فضائی نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
اب اندر تو جا نہ سکے لہٰذا قلعے کی چاردیواری کے گرد ایک پورا چکر لگایا، برآمدے کو دیکھا اور پھر مرکزی دروازے کے سامنے لگے گھوڑے اور سپاہی کی تصاویر لیں۔ اب وقت تھا اس قلعے کو الوداع کہنے کا، اور پھر ہم شہر کے مرکزی علاقے کی طرف بڑھ گئے۔
شہر کے مرکزی علاقے میں پھر سے وہی مسئلہ درپیش تھا کہ پارکنگ کہاں کی جائے؟
ایک جگہ کچھ عمارتیں اچھی لگیں، سوچا کہ سڑک کنارے گاڑی کھڑی کرکے ایک 2 تصاویر بنا لی جائیں لیکن ابھی گاڑی کھڑی ہی کی تھی کہ ایک شخص نے دور سے اشارہ کیا کہ آپ یہاں گاڑی کھڑی نہیں کرسکتے، اس کے بعد ایک پارکنگ پلازے کا پتہ ڈھونڈا گیا اور گاڑی پارک کی گئی، پارکنگ پلازے کے سامنے ٹاؤن ہال موجود ہے لہٰذا سوچا کہ کیوں کہ وہاں بھی کچھ لمحات گزارے جائیں۔
اس وقت تک ٹاؤن ہال کے سامنے کچھ خاص رش نہ تھا، ٹاؤن ہال کے عین سامنے ایک پرانا محل موجود ہے۔ دونوں عمارتوں کے درمیان ایک احاطہ سا ہے اور اسی احاطے کی ایک طرف شہر کا پرانا ٹاؤن ہال جو اب میوزیم کا درجہ رکھتا ہے، واقع ہے۔ اسی احاطے میں پولیس کا ایک سپاہی بیٹری سے چلنے والی سائیکل پر گشت کر رہا تھا۔
محل کے احاطے سے ہوتے ہوئے ہم اس گلی میں چلے آئے جسے واکنگ اسٹریٹ کہا جاسکتا ہے۔ اسی گلی میں مختلف برانڈز کی دکانیں اور کیفے وغیرہ تھے، لیکن اس گلی میں سیاحوں اور عام عوام کا بہت رش نہ تھا، لیکن پھر بھی اتنے لوگ ضرور تھے کہ شہر شہر سا دکھائی دے۔
اس گلی کے کونے تک چلتے چلتے ہم ایک چوراہے تک آ پہنچے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر ٹرام مختلف روٹس پر چلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہیں پر ہمیں ایک عربی حلال ریسٹورینٹ بھی مل گیا، جہاں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ بھلا ہو ہمارے ترک اور عرب بھائیوں کا جنہوں نے یورپ کے سبھی علاقوں میں حلال کھانے کے مسئلے کو حل کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے وگرنہ کئی روز کے سفر میں سبزی خور بنے رہنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔
کھانے کے بعد ہم شہر کی مختلف گلیوں میں پھرتے پھراتے ٹاؤن ہال کی طرف آ نکلے۔ پرانے ٹاؤن ہال کے سامنے موجود اسکوائر پر شاید کسی فیسٹول کی تیاری ہورہی تھی، موسیقار حضرات اپنی دھنوں کو ابھی ترتیب دے رہے تھے۔ تھوڑا آگے ایک چھوٹا سا میناری طرز کا ایک بازار سا بھی تھا جہاں اکا دکا لوگ نظر آئے۔
کچھ فاصلے پر ایک اور گلی آغاز ہوتا ہے جو یہاں کے مقامی تھیٹر کی طرف جا نکلتی ہے۔ اس گلی میں موجود چائے یا کافی خانوں پر خاصا رش تھا، بلکہ اصل بازار کا سا گماں ہو رہا تھا، تھیٹر کے سامنے پانی کی پھوار چھوڑنے والے فوارے کا انتظام کیا گیا تھا تاکہ شدید گرمی سے ستائے لوگوں کو ٹھنڈک کا تھوڑا سا احساس دلایا جائے۔
واپسی پر اس گلی میں ایک مجسمہ گٹر سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا، اور لوگ دھڑا دھڑ اس کی تصاویر لے رہے تھے، ہم نے بھی دیکھا لیکن بس جانے دیا، بعد میں گوگل کرتے ہوئے پتہ چلا یہ کہ مجسمہ بھی یہاں کی مشہور چیزوں میں سے ایک ہے، ہم پھر اسی پارکنگ پلازہ تک چلے آئے جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔
اس شہر کے مختصر قیام سے بس اتنا ہوا کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھا ہم بھی سلواکیہ کے دارالحکومت براٹسلاوا گئے تھے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں