سانحہ 18 اکتوبر: کس نے کیا دیکھا؟
’پہلے دھماکے کی آواز سن کر ہم سمجھے کوئی پی ایم ٹی پھٹی ہے، لیکن دوسرے دھماکے نے تو جیسے منظر ہی بدل کر رکھ دیا۔ لاشوں پر سے گزر کر زخمیوں کو بچانا اور ہر طرف قیامت خیز مناظر مجھے آج بھی یاد ہیں۔ ہمارے کئی ساتھی آس پاس بکھری لاشوں کو دیکھ کر متلی کرنے لگے مگر کام جاری رکھا۔‘
یہ الفاظ تھے ایک عینی شاہد کے جو 18 اکتوبر کو کارساز پر میڈیا کے ٹرکوں پر ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔
پیپلزپارٹی کے جیالے اور شہداء کمیٹی کے بانی آصف راہی نے بتایا کہ، ’بی بی کے آنے پر جیالے بے حد خوش تھے۔ بینظیر بھٹو کا قافلہ ایئر پورٹ سے براستہ کارساز گزر رہا تھا، ہم نے بھی ان کی آمد کے سلسلے میں خوب تیاری کی ہوئی تھی۔ دھماکہ ہوا مگر لوگ دور نہیں بھاگے بلکہ اپنوں کے قریب آئے، یہی وجہ تھی کہ دوسرے دھماکے سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ دھماکوں کے بعد میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچا تو ان کے لبوں پر حیرت انگیز طور پر یہی سوال تھا، "بی بی سلامت ہیں؟ انہیں کچھ ہوا تو نہیں؟" دراصل وہ جانثاران بے نظیر تھے جو 3 مختلف صفوں میں بی بی کو حصار میں لیے کھڑے تھے۔ سانحے کے بعد کئی لاشوں کی شناخت نہیں ہوپائی، ان کے اعضاء کو ہم سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے ساتھ لاڑکانہ میں دفنا کر آئے، وہ سب شہید بھٹو ہیں‘۔
پڑھیے: بینظیر کا قتل: گہرے پُراسرار سائے برقرار
اس افسوسناک واقعے میں نجی چینل کے ایک کیمرامین عارف خان نے بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جان گنوائی۔ کارساز پر کوریج کرنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ عارف خان کے دل کو دھماکے کی شدت نے شدید متاثر کیا اور وہ زمین پر گر پڑے۔ ایسے ہی بظاہر ٹھیک نظر آنے والے کئی لوگ زمین پر گر کر تڑپ رہے تھے۔ دوسرا دھماکہ 50 سیکنڈ کے وقفے سے ہوا۔ اس سے قبل لوگ قریب ہی گاڑی میں موجود پانی کی بوتلوں کی طرف بھاگے تھے۔ دھماکے سے ایک اور کیمرامین شدید زخمی ہوا مگر اس کی جان بچ گئی۔ میں کوریج سے واپس آرہا تھا تو انسانی اعضاء کو جابجا بکھرا پایا‘۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سے گفتگو ہوئی جنہوں نے ماضی کے دریچوں کو کھول دیا۔ ‘بی بی کو پاکستان آنے سے منع کیا تھا، بتایا تھا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، وہ نہیں مانیں۔ وہ لوٹ آئیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’اگر بی بی اور اپنے درمیان کی ای میل گفتگو نکال لاؤں تو تہلکہ مچ جائے گا۔ 18 اکتوبر 2007ء کو میری ڈیوٹی جلسہ گاہ کے انتظامات سنبھالنا تھی۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ بی بی کو بھی وہاں آنا تھا۔ مجھے فون پر اطلاع ملی کے کارساز پر دھماکے میں لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ میں نے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے بی بی کے آرڈر سے قبل جلسہ گاہ میں دھماکے کی خبر کا اعلان تک نہیں کیا، آہستہ آہستہ لوگوں تک خود بخود خبر پہنچی۔ جلسہ گاہ خالی ہونا شروع ہوا اور میں نے جلسہ ختم کرنے کا اعلان کردیا‘۔
’میں نے بی بی کے واپس آنے پر انہیں کئی بار کہا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، آپ واپس چلی جائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ "کیا میں آپ کو اتنی بُری لگتی ہوں کہ بار بار مجھے بھیجنے کی بات کرتے ہیں؟" یہ سن کر میں خاموش ہوجایا کرتا تھا‘۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’پرویز مشرف 18 اکتوبر 2007ء کے واقعے کو سنجیدگی سے لیتے تو 27 دسمبر کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ بی بی نے جب خود پر منڈلاتے خطرات سے مشرف کو آگاہ کیا تو وہ غصے میں آگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ "آپ ہر بات کو سیاسی بنا دیتی ہیں"۔
’میری بی بی سے زیادہ تر گفتگو بذریعہ ای میل ہوا کرتی تھی۔ ایک بار بی بی کو ای میلز کیں تو 24 گھنٹوں بعد میسج ڈلیور نا ہونے کی ای میل آئی۔ میں حیران ہوا۔ پھر جی میل پر نئی آئی ڈی بنا کر بی بی کو اس سے ای میلز بھیجنا شروع کیں‘۔
’میرے گھر سے بڑے اہم کاغذات چوری بھی ہوئے، بی بی کی شہادت کے روز جب دفتر پہنچا تو الیکشن کے حوالے سے کوئی بے معنی سی میٹنگ جاری تھی۔ اس روز بھی میں نے بی بی کی جان کو خطرے کی بات کی۔ جواب آیا کہ الیکشن کے ڈبے کا ڈیزائن کیسا ہونا چاہیے۔ اسی دوران فون پر اطلاع ملی کے بی بی پر حملہ ہوا ہے وہ محفوظ ہیں۔ اگلے ہی لمحے بی بی سی بتا رہا تھا کہ بی بی ہم میں موجود نہیں رہیں۔ میں نے اپنے لیپ ٹاپ سے بی بی اور اپنے درمیان کی گفتگو بھی یو ایس بیز میں رکھ کر گھر کی الماری میں چھپائی تھیں۔ وہ تک چوری ہوگئیں‘۔
’بینظیر بھٹو بے حد معصوم اور سادہ عورت تھیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ 18 اکتوبر 2007ء کو بی بی کے ٹرک کے قریب ہجوم کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا ایک ننھا بچہ ٹرک کے قریب پہنچا، بچے کا بی بی کے قریب پہنچنا ناممکن تھا۔ کسی جیالے نے اسے ہاتھ سے اوپر کیا۔ بی بی نے اوپر سے ہاتھ ہلا کر اسے پیار کرلیا۔ بچہ واپس ہاتھوں کے ذریعے پیچھے کھڑی پولیس وین تک پہنچا اور بعد ازاں دھماکا اسی بچے کے گدے میں لگے بارودی مواد سے ہوا۔ بی بی کو اس بات پر یقین نہیں آیا، وہ کہتی رہیں کہ کوئی بچے کو کیسے مارسکتا ہے۔ وہ کوئی موم کی گڑیا ہوگی‘۔
پڑھیے: پہلے خط سے آخری ملاقات تک بے نظیر
وہ مزید بتاتے ہیں کہ، ‘18 اکتوبر ہو یا 27 دسمبر، دونوں واقعات میں جائے وقوعہ کو دھودیا گیا تاکہ شواہد مٹائے جاسکیں۔ جبکہ جائے وقوعہ پر چھوٹی سے چھوٹی چیز اہم ہوا کرتی ہے۔ مشرف پر حملے کے بعد پیٹرول پمپ کی چھت سے ملے خستہ موبائل فون کی ایک سم نے ملزمان تک رسائی میں مدد کی تھی۔ لوگ ہم سے کہنے لگے کہ باہر سے تحقیقاتی ٹیمیں بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم نے کہا ہماری اپنی ٹیمیں لیاقت علی خان قتل کیس حل کرنے میں مصروف ہیں۔ اس لیے!‘
سانحہ 18 اکتوبر 2007ء کو 11 سال بیت گئے لیکن واقعے کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ ہر سال 150 سے زائد اپنی جانیں کھو دینے والے افراد کو یاد کیا جاتا ہے۔ کارساز میں یادگار شہدا پر ان لوگوں کی یاد میں دیے جلائے جاتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو کا قتل، آج بھی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
ایک انٹرویو میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ، مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کا پتہ نہ لگ سکا، ٹھیک اسی طرح جس طرح امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے اصل حقائق سے کبھی پردہ نہ اٹھ سکا، کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج خود ان پر ہونے والے جان لیوا حملے اور قتل کی گتھیاں سلجھ نہیں رہیں، لیکن امید کرتے ہیں کہ بے نظیر پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے پیچھے اصل حقائق اور عناصر ایک دن ضرور سامنے آئیں گے اور جمہوریت کی صورت میں انتقام لینے کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو اور سانحہ کارساز میں جانیں کھودینے والوں کے لواحقین کو انصاف ملے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں