جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے 2015ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بنیادی تبدیلیاں شروع کیں۔ ناتجربہ کار اور لاڈلے شہزادے کی نائب ولی عہد اور بطور وزیرِ دفاع تقرری بھی ان میں سے ایک اہم تبدیلی تھی۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی دربار کا کنٹرول کچھ ایسے ہاتھ میں لیا کہ جون 2017ء تک کے مختصر عرصے میں ولی عہدی کے ساتھ اقتصادی کونسل کے سربراہ اور ریاست کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔
شاہ سلمان اپنے لاڈلے کو ذمہ داریاں دے کر یوں بے فکر ہوئے کہ ان کی اقتدار سے بے دخلی تک کی افواہیں عام ہونے لگیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی والدہ کو بھی شاہ سلمان تک رسائی سے روک دیا ہے۔ شاہ سلمان نے دورہ امریکا کے دوران صدر اوباما کو بتایا کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں اور نیویارک کے ہسپتال میں داخل ہیں، بعد میں علم ہوا کہ وہ کسی اسپتال میں داخل ہیں نہ امریکا پہنچیں۔
پڑھیے: وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟
بلاروک ٹوک طاقت و اختیار کے نشے میں محمد بن سلمان نے پہلے یمن پر جنگ مسلط کی، 2017ء میں قطر کا مقاطعہ کیا، ایران کے ساتھ پراکسی وار کو بڑھاوا دیتے ہوئے شام میں باغیوں کی مدد کی، لبنان کے وزیرِاعظم کو ریاض طلب کرکے جبری استعفیٰ لیا، کینیڈا کے ساتھ سفارتی جنگ مول لی۔ اندرونی طور پر طاقتور شہزادوں اور تجارتی شخصیات کو کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار کرکے بیعت لی اور سرمایہ بھی چھین لیا۔
تمام ایڈونچرز میں شہزادہ محمد بن سلمان کو کسی بھی طرف سے بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ کرپشن کے خلاف مہم کو کسی حد تک باقی دنیا کے سیاست دانوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اس کی تعریف بھی کی گئی۔ لیکن ہر معاملے کو طاقت سے حل کرنے کے عادی شہزادے نے شاہی خاندان اور خصوصاً اپنی پالیسیوں کے ناقد صحافی جمال خاشقجی سے نمٹنے میں بنیادی غلطی کی اور یہ سمجھ لیا کہ اس بار بھی کوئی نوٹس نہیں کرے گا۔ جمال خاشقجی سعودی شاہی خاندان کے کئی رازوں کے امین تھے لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے ناقد اور اپنے پرانے محسنوں کے حامی بھی تھے۔
جمال خاشقجی ایامِ جوانی میں اسامہ بن لادن کے دوست تھے۔ صحافتی کیریئر کی اٹھان میں سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کے ممنون تھے۔ سعودی انٹیلی جنس کی مدد سے سی آئی اے سے اجازت لی اور افغانستان میں رپورٹنگ کرتے رہے۔ اسامہ بن لادن اور جمال خاشقجی اخوان المسلمین کے رکن تھے، اگرچہ 1990ء میں جمال کے خیالات تبدیل ہوئے اور وہ عرب دنیا میں جمہوریت اور آزادئ اظہار رائے کے حامی بن گئے۔
1995ء میں سوڈان میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا تو ان کے خیالات سے کھل کر اختلاف کیا۔ اسامہ نے اس ملاقات میں دعوٰی کیا کہ ان کی تحریک امریکا کو عرب دنیا سے نکال باہر کرے گی۔ جمال خاشقجی نے اسامہ بن لادن پر زور دیا کہ وہ دہشتگردی اور تشدد سے بریت کا اظہار کریں۔ جمال نے اسامہ بن لادن سے کہا کہ ان کا یہ بیان اعلانِ جنگ کے مترادف ہے اور اس اعلان سے امریکیوں کو ان کا پیچھا کرنے کا جواز مل جائے گا۔ اسامہ بن لادن نے جمال کے اصرار کے باوجود آن ریکارڈ ایسا کوئی بھی بیان دینے سے انکار کیا۔ بعد میں جمال افغان خانہ جنگی سے شدید مایوس ہوئے اور افغان جنگ کو تباہی قرار دیتے رہے۔
پڑھیے: سعودی عرب کا دنیا کو ایک اور سرپرائز، آخر ہو کیا رہا ہے؟
جمال خاشقجی، شاہ سلمان اور ان کے خاندان کے ناقد تب سے تھے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد جاری تھا اور سعودی عرب بھرپور مالی مدد کر رہا تھا۔ نیویارک یونیورسٹی کے سینٹر آف انٹرنیشنل کوآپریشن کے سینئر فیلو اور افغان امور کے ماہر بارنیٹ روبن کا کہنا ہے کہ 1989ء میں جدہ میں جمال خاشقجی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ خاشقجی نے افغانستان کے تجربات شیئر کیے۔ اُس موقعے پر بھی جمال خاشقجی نے شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز (موجودہ بادشاہ) جو اُس وقت ریاض کے گورنر تھے، پر تنقید کی کہ کس طرح وہ ایک خاص مذہبی طبقے کے مجاہدین کی مالی مدد کرکے جہاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سعودی شاہی خاندان میں جمال خاشقجی کے سرپرست شاہ فیصل کے 2 بیٹے ترکی الفیصل اور سعود الفیصل تھے۔ ترکی الفیصل سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ رہے جبکہ سعود الفیصل طویل عرصہ وزیرِ خارجہ رہے۔ دونوں بھائی سعودی شاہی خاندان کا ترقی پسند چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ جمال خاشقجی فیصل فیملی کے اخبار الوطن کے ایڈیٹر بھی بنے لیکن 2 ماہ بھی نہ چل پائے کیونکہ انہوں نے سعودی مذہبی قیادت پر تنقید شروع کر رکھی تھی۔ فیصل فیملی نے انہیں اخبار کی ادارت سے برطرف تو کیا لیکن ساتھ نہیں چھوڑا۔ ترکی الفیصل اس وقت لندن میں سفیر تھے، انہوں نے جمال خاشقجی کو لندن سفارتخانے میں ملازمت کی پیشکش کی۔ یہ ملازمت جمال خاشقجی کو سعودی عرب سے نکالنے کا ایک بہانہ تھا کیونکہ جمال خاشقجی کی زندگی کو ان کے خیالات کی وجہ سے خطرہ تھا۔ ترکی الفیصل لندن سے واشنگٹن سفیر بن کرگئے تو جمال کو ساتھ لے گئے۔
ترکی الفیصل واشنگٹن میں سفیر بنے تو ان سے پہلے بندر بن سلطان سفیر تھے۔ بندر بن سلطان کے سابق صدر بش کے ساتھ کافی قریبی تعلقات تھے۔ بندر بن سلطان نئے سفیر سے چھپ کر وائٹ ہاؤس میں صدر بش کو ملتے رہے جس پر دونوں شہزادوں میں کشیدگی شروع ہوئی۔ جمال خاشقجی کی ہمدردی اور وفاداری ترکی الفیصل کے ساتھ تھی۔ 2 شہزادوں میں لڑائی جمال خاشقجی کے لیے بطور ترجمان سعودی سفارتخانہ ایک بڑا امتحان بنی رہی۔
2007ء میں ترکی الفیصل کو سفارت سے ہٹا دیا گیا۔ جمال خاشقجی ایک بار پھر سعودی عرب واپس آئے اور دوبارہ سے الوطن کے ایڈیٹر بن گئے۔ اس بار ان کی ملازمت 2010ء تک چلی اور ایک بار پھر انتہا پسند پالیسیوں پر تنقید کی پاداش میں برطرف ہوگئے۔ اس بار جمال کو ترقی پسند شہزادے ولید بن طلال نے سہارا دیا۔ ولید بن طلال نے قطر کے الجزیرہ کے مقابلے میں العرب کے نام سے ٹی وی چینل کا منصوبہ شروع کیا۔ 4 سال کی پلاننگ اور تیاری کے بعد العرب ٹی وی 2015ء میں آن ایئر ہوا۔ نشریات کے پہلے ہی دن العرب ٹی وی نے بحرین کے معروف شیعہ عالم کا انٹرویو نشر کیا جنہوں نے بحرین کی بادشاہت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بحرین کی حکومت نے پہلے ہی دن اس ٹی وی چینل کی نشریات بند کردیں۔
پڑھیے: سعودی عرب کی کینیڈا سے ناراضی، کیا کینیڈا واقعی تنہا رہ گیا؟
جمال خاشقجی ایک بار پھر بیروزگار تھے۔ اس بار انہوں نے لندن کے عرب اخبار الحیات میں کالم لکھنا شروع کیا لیکن جنوری 2015ء ایک بار پھر ان کے لیے بُری خبر لایا۔ شاہ سلمان نے تخت سنبھال لیا اور محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد نامزد کیا۔ محمد بن سلمان نے آتے ہی شاہی دربار پر کنٹرول مضبوط بنانا شروع کیا اور اختلافِ رائے کو دبانے کا عمل بھی تیز ہوا۔
جون 2017ء میں محمد بن سلمان نے ولی عہد محمد بن نائف کو جبری برطرف کروا کر ولی عہد کا منصب سنبھالا اور نومبر 2017ء میں شہزادوں سمیت 200 اہم شخصیات کو ہوٹل رٹز کارلٹن بلا کر گرفتار کرلیا۔ جمال خاشقجی ان اقدامات کے بعد زیادہ محتاط ہوئے اور امریکا منتقل ہوگئے۔ ستمبر 2017ء میں واشنگٹن پوسٹ نے جمال کو گلوبل آن لائن ایڈیشن کے لیے مستقل کالم نگار کی ملازمت دی اور پہلے ہی کالم میں جمال خاشقجی نے اپنا سارا غصہ نکال دیا۔
فیصل فیملی اور ولید بن طلال کے ساتھ تعلق، وفاداری اور جمال کی آزاد سوچ شاہی خاندان کے لیے قابلِ برداشت نہ تھی۔ جمال خاشقجی ترکی میں اپنی منگیتر کے ساتھ شادی کرکے مستقل رہائش کا ارادہ رکھتے تھے اور شادی کی رجسٹریشن کے لیے انہیں سعودی سفارتخانے سے کچھ کاغذات درکار تھے۔ امریکی انٹیلی جنس نے ایک فون کال ٹریس کی جس میں سعودی حکام جمال خاشقجی کو حیلے بہانے سے وطن واپس لانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
جمال خاشقجی کو دوستوں نے سمجھایا کہ سعودی قونصل خانے نہ جائیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ قونصل خانے کے اہلکار ان جیسے عام سعودی ہیں ان سے کیا ڈرنا۔ یہی اعتماد جمال کا خون کرگیا۔ ترک میڈیا نے جمال خاشقجی کے قتل کی پوری پلاننگ، قاتل اسکواڈ کی تصویریں، آمد و رفت کا سارا انتظام اور قونصل خانے کے اندر جمال خاشقجی کے ساتھ ہونے والا سلوک شواہد کے ساتھ بیان کردیا۔
ترک زمین پر جمال خاشقجی کے قتل نے صدر طیب اردوان کو پرانے بدلے چکانے کا موقع دیا۔ صدر اردوان نے اس قتل پر خود کچھ کہنے کے بجائے میڈیا سے کام لیا۔ سعودی قاتل اسکواڈ کی تصویریں، پاسپورٹ، امیگریشن سے لے کر ہوٹل چیک ان تک، قاتل اسکواڈ کے ارکان کی شناخت اور دیگر ثبوت صدر اردوان کے قریبی تصور کیے جانے والے میڈیا ہاؤسز کو دیے گئے۔ سعودی انٹیلی جنس اور فوجی اہلکاروں کے ساتھ فرانزک چیف کی مبینہ قاتل اسکواڈ میں شمولیت نے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ریاست کے ملوث ہونے کے شبہات کو تقویت دی۔
پڑھیے: سعودی شاہی خاندان کے اندرونی جھگڑوں کی داستان
صدر اردوان شام میں کرد باغیوں کو ملنے والی سعودی مدد پر ناراض ہیں۔ قطر کے مقاطعہ پر بھی اردوان اور سعودی عرب آمنے سامنے تھے۔ ایران اور شام کے معاملات پر بھی دونوں میں اختلاف ہے لیکن ترکی سعودی عرب کو اس حد تک ناراض نہیں کرنا چاہتا کہ قطع تعلق ہوجائے۔
ترکی سفارتی محاذ آرائی کا منجھا ہوا کھلاڑی ہے جو حالات کو مرضی کے مطابق بگاڑتا اور سدھارتا ہے۔ اب بھی ترکی نے جمال خاشقجی کے معاملے پر بیک وقت امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ ڈیل کی کوشش کی ہے۔ جمال خاشقجی اپنی زندگی میں حکمرانوں کی کشمکش میں پس رہے تھے اور مرنے کے بعد بھی 3 حکومتوں میں وجہ نزاع ہیں۔
جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے بہت محنت سے خود کو اصلاح پسند کے طور پر متعارف کرایا۔ صدر ٹرمپ کے داماد اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے مشیر جارڈ کشنر کے ساتھ دوستی کی پینگیں اس قدر بڑھائیں کہ دونوں آخری ملاقات میں ساری رات اکٹھے رہے۔ صبح 4 بجے تک مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے خیالات اور منصوبوں پر بات کرتے رہے اور جارڈ کشنر شہزادہ محمد بن سلمان سے اس قدر مانوس ہوئے کہ کلاسیفائیڈ معلومات بھی دے ڈالیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے قریبی رفقاء کو بتایا کہ جارڈ کشنر نے انہیں شاہ سلمان اور خود ان کے باغیوں کے نام بھی بتا دیے جو امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں میں سامنے آئے تھے۔
پڑھیے: کیا سعودی ولی عہد اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں؟
امریکا اور یورپ شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کا ردِعمل سخت ہے۔ امریکی صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان حالات میں اندرونِ ملک بھی محمد بن سلمان مشکلات میں گِھر سکتے ہیں۔
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر بروس ریڈل جمال خاشقجی کے قتل سے پہلے ہی ایک کالم میں انکشاف کرچکے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنی راتیں اب سمندر میں اپنی لگژری کشتی پر گزارتے ہیں جو ایک فٹ بال کے میدان سے بڑی ہے۔ بروس ریڈل کے مطابق اگر شاہ سلمان اچانک دنیا سے چلے جاتے ہیں تو شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے تخت پر پہنچنا مشکل ہوگا اور شاہی خاندان کے اندر خون خرابے کا خدشہ ہے۔
بروس ریڈل کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی شاہی خاندان کے افراد عہدوں اور وسائل پر دست بگریباں رہے ہیں۔ کئی شہزادے بغاوت کرکے ملک سے فرار ہوئے لیکن پُراسرار حالات میں واپس وطن لاکر غائب کردیے گئے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے پیشرو ولی عہد محمد بن نائف کو جس طرح ہٹایا اور کہا گیا کہ محمد بن نائف نشے کی لت میں مبتلا تھے، انہی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
محمد بن نائف بھی ہٹائے جانے سے پہلے بحیثیت وزیرِ داخلہ زیادہ تر وسائل شاہی خاندان کی جاسوسی پر خرچ کر رہے تھے لیکن محمد بن سلمان کے عزائم بھانپنے میں ناکام رہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان سابق بادشاہ عبداللہ کے بیٹوں بشمول شہزادہ متعب کو عتاب کا نشانہ بنا چکے ہیں، جنہیں تشدد اور پھر تاوان ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا۔ شاہ فیصل کے بیٹے بھی کرپشن مہم میں نشانہ بنے اب تک صرف بندر بن سلطان ان کے عتاب سے بچے ہوئے ہیں اگرچہ امریکا اور برطانیہ سے اسلحہ خریداری میں بڑے پیمانے پر کک بیکس کا الزام عرصے سے ان کا پیچھا کر رہا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان 33 رکنی بیعت کونسل کو بھی غیر اہم اور غیر فعال بنا کر ولی عہد بنے لیکن ان کی بادشاہت کو جواز بیعت کونسل ہی بخش سکتی ہے جس کے تمام ارکان شاہی خاندان سے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز کے دور سے بنائی گئی بیعت کونسل کا بادشاہ پر اتفاق ضروری ہے۔ کرپشن مہم میں پکڑے گئے 3 شہزادے بیعت کونسل کے بھی رکن تھے جنہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کی بیعت سے انکار کیا تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کو گزشتہ دنوں اپنے چند بیانات اور فیصلوں پر والد شاہ سلمان کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت ماننے کے بارے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے بیان نے شاہ سلمان کو چپ توڑنے پر مجبور کیا۔ محمد بن سلمان سعودی آرامکو کے 5 فیصد شیئرز مارکیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ شیئرز نیویارک یا لندن مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیے جانے کی کئی ڈیڈ لائنز گزر چکی ہیں اور اب یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ شاہ سلمان نے آرامکو کے شیئرز بیچنے کا فیصلہ منسوخ کردیا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور جارڈ کشنر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جو منصوبہ بنا رہے ہیں وہ شاہ سلمان کو کسی صورت قبول نہیں۔ سعودی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کرنے کے منصوبے میں آرامکو کے حصص کی فروخت بھی شامل ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان اس حوالے سے بہت جذباتی ہیں لیکن شاہ سلمان کو یہ بھی قبول نہیں۔ شاہ سلمان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان اس حوالے سے بہت حساس ہیں کہ تاریخ انہیں کن لفظوں میں یاد کرے گی۔ وہ بادشاہ جس نے آرامکو بیچ دی؟ وہ بادشاہ جس نے فلسطین کا سودا کرلیا؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔
پڑھیے: سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی
موجودہ حالات میں شہزادہ محمد بن سلمان جنہوں نے فیصلہ سازی کو چند وفاداروں کے حلقے تک محدود کرلیا ہے اور مشاورت کو ناپسند کرتے ہیں جبکہ راتوں کو وزیروں کو اپنی لگژری کشتی پر بلا کر احکامات صادر کرتے ہیں، اب بھلا ایسی صورتحال میں وہ اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے کیسے نکل پائیں گے؟
بہرحال یہ فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن جمال خاشقجی کی موت نے جس قدر نقصان محمد بن سلمان کو پہنچایا ہے اس کا اندازہ انہیں خود بھی ہوگیا ہوگا۔
شاہ سلمان سے اختلافات اور بیعت کونسل کو غیر فعال کرنا شہزادہ محمد بن سلمان کی مشکلات کو بڑھا سکتا ہے۔ سعودی عرب کا سیاسی استحکام اسی بیعت کونسل سے جڑا ہوا ہے۔ بیعت کونسل کا کمزور ہونا اور تخت کے لیے خونریزی شاہی خاندان سے زیادہ سعودی ریاست کے لیے خطرہ بنے گی۔ امریکا اور دوسری بڑی طاقتیں بھی اس سَرپھرے نوجوان شہزادے کو بادشاہ بنتا نہیں دیکھنا چاہیں گی۔
امریکا کی حکمران جماعت کے بااثر سینیٹر لنزے گراہم فوکس نیوز کے ایک پروگرام میں یہ اظہار کرچکے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان ورلڈ لیڈر بننے کے قابل نہیں، انہیں جانا ہوگا۔ لنزے گراہم نے کہا کہ امریکا سعودی عرب کے ساتھ کم از کم اس وقت تک تجارتی روابط نہیں رکھے گا جب تک محمد بن سلمان امورِ سلطنت چلارہے ہیں۔
محمد بن سلمان نے اپنی قابلیت کے اظہار کے لیے وژن 2030ء کا اعلان کیا تھا لیکن جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان کی سرمایہ کاری کانفرنس ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔ امریکا اور یورپ کے بڑے سرمایہ کاروں اور بینکوں کے سربراہوں نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ سعودی تخت کے لیے خونریزی کی پیشگوئی نامناسب ہوگی لیکن بیعت کونسل ابھی سے محمد بن سلمان کی قابلیت پر شک کررہی ہے۔ بیعت کونسل کے ایک رکن نے ایک کالم نگار ڈیوڈ ایڈلمین کو بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان ابھی بادشاہت کے لیے خود کو اہل ثابت نہیں کرسکے ہیں۔
ڈاکٹر آصف شاہد 20 سال سے زائد عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ اردو زبان کے مختلف قومی اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد ان دنوں نجی ٹی وی چینل میں انٹرنیشنل ڈیسک کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (37) بند ہیں