چیف جسٹس کی بصارت سے محروم لڑکی کو نوکری دینے کی ہدایت
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے سیکریٹری پبلک سروس کمیشن کو بصارت سے محروم لڑکی کو نوکری دینے کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں بصارت سے محروم لڑکی کو مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے باوجود نوکری نہ دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
کیس کی سماعت کے دوران سیکریٹری پبلک سروس کمیشن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
سیکریٹری پبلک سروس کمیشن نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ بینائی سے محرم لڑکی حجاب قدیر نے مقابلے کا امتحان پاس کیا لیکن انٹرویو میں فیل ہو گئی۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا بصارت سے محروم وکیل کو جج نہ منتخب کرنے کا نوٹس
جس پر چیف جسٹس نے سیکریٹری پبلک سروس کمیشن کو بصارت سے محروم لڑکی کو ایڈجسٹ کرکے اگلے ہفتے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بصارت سے محروم لڑکی نے تحریری امتحان پاس کیا تو اسے رکھ لیتے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ تحریری امتحان کے 100 نمبر کے بعد انٹرویو کے 100 نمبر کیسے رکھ سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انٹرویو کے اتنے نمبر اس لیے رکھے جاتے ہیں تاکہ اپنے لوگوں کو رکھ سکیں۔
یہ بھی دیکھیں: بینائی سے محروم 42 سالہ موچی معاشرے کے لیے عمدہ مثال
24 اپریل 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مبینہ طور پر بصارت سے محروم وکیل یوسف سلیم کو لاہور ہائی کورٹ کا جج منتخب نہ کرنے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ نوٹس 22 اپریل کو انگریزی اخبار دی نیوز اور 23 اپریل کو ڈان نیوز کے پروگرام ’ ذرا ہٹ کے‘ میں دکھائے گئے معاملے کے بعد لیا گیا تھا۔
بیان کے مطابق میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یوسف سلیم نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی (آنرز) میں سونے کا تمغہ حاصل کیا اور 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سول جج کے لیے منعقدہ تحریری امتحان میں 6 ہزار 500 امیدواروں میں اول پوزیشن حاصل کی جبکہ انہیں اس وجہ سے انٹرویو کے لیے منتخب نہیں کیا گیا کیونکہ وہ ’نابینا‘ ہیں۔
سپریم کورٹ کے بیان کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ اگر کوئی مرد یا عورت بصارت سے بھی محروم ہے تو وہ جج بن سکتے ہیں اور آئین کے آرٹیکل 9، 14 اور 25 کے تحت اسے بنیادی حق حاصل ہے، اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے 2011 میں اقوام متحدہ کے کنونشن برائے معذور افراد کے حقوق پر بھی دستخط کیے جاچکے ہیں جبکہ 1981 کے روزگار اور بحالی کے آرڈیننس میں 3 فیصد کوٹہ معذور افراد کے لیے بھی مختص ہے۔
مزید دیکھیں: بینائی سے محروم، مگر حوصلے بلند
بیان میں کہا گیا تھا کہ یوسف سلیم کے معاملے میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تیار کیے گئے پی ایل ڈی 2017 لاہور 406 اور پی ایل ڈی 2017 لاہور 1 کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یوسف سلیم کا معاملہ نظر ثانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا تھا۔