دیوسائی کا دیومالائی حسن
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خدا نے پاکستان کو فطری حسن کی تمام رعنائیاں بخشی ہیں۔ صحراؤں سے میدانوں اور دریاؤں سے بلند و بالا چوٹیوں تک ہر ایک کی اپنی ہی ایک منفرد خوبصورتی ہے۔
ملکِ پاکستان میں واقع ایک ایسا ہی جنت نظیر مقام کا رختِ سفر باندھا۔ منزل تو کیا راستہ ہی آنکھوں کو خیرہ کردینے والا ہے، نیلا کھلا آسمان، آوارہ بادل، پیش وخم سے راستے کسی طلسماتی دیس میں ہونے کا گمان پیدا کرتے ہیں۔ آنکھوں کو تازگی اور سماعتوں میں رس گھولتے نیلگوں بہتے پانی کی مدھر آواز آپ کی ہم سفر ہوتی ہے۔ یہ مقام ہے دیوسائی، جسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔
کم و بیش ہر سال ہی اسکردو اور ہنزہ کی طرف جانا ہوتا ہے، لیکن برف کی وجہ سے ہمیشہ ہی دیوسائی کو جانے والے راستے بند ملے اور یوں دنیا کے اس دوسرے بڑے اونچے میدان/پلیٹو کے دلفریب مناظر سے محظوظ ہونے کا موقع نہ ملا سکا۔
14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع دیوسائی کا شمار دنیا کا تبت کے بعد سطح مرتفع پر بلند ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3 ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل ہے۔ دیوسائی اسکردو سے ڈیڑھ گھنٹے اور استور سے تقریباً 5 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے دامن میں وسیع و غریض میدان دیوسائی سال کے 8 مہینے برف پوش رہتے ہیں، اور اس وقت بھی وہاں یہی صورتحال ہے۔
دیوسائی کراس کرنے کے لیے سب سے اچھا وقت جولائی اور اگست ہے، کیونکہ ان دنوں میں یہ پلیٹو لش سبزے اور رنگ برنگے خوبصورت پھولوں سے بھرا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سال 5 اگست کو ایک گروپ کے ساتھ ہنزہ ٹرپ کے بعد 11 اگست کو واپسی پر ناران ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کچھ دوستوں کے ساتھ استور کے راستے دیوسائی اور پھر اسکردو جانے کا پروگرام بنایا۔ چونکہ 14 اگست قریب تھا اس لیے جشن آزادی ناران میں ہی منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس دوران میں نے اپنے بچپن کے دوست اور دودی پت سر جھیل ٹریک کے ساتھی ملک سجاد مہمند کو بھی بلالیا۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب ناران میں زبردست آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے اور اگلے دن لالازار کے سبزہ زاروں کی سیر کے بعد 15 اگست کو ہم 2 گاڑیوں پر سوار ہو کر استور اور راما کے لیے روانہ ہوگئے۔ چونکہ راما جھیل کے مقام پر رات بسر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اسی لیے سب نے 8 سے 9 گھنٹوں پر مشتمل سفر کے لیے خود کو تیار کرلیا۔
ہماری گاڑیوں میں ایک جیپ اور ایک کرولا شامل تھی، ہم میں سے 4 لوگ لوکل جیپ میں سوار تھے، لیکن بابو سر ٹاپ پر شدید سردی کے بعد چیلاس کی شدید گرمی اور گرد و غبار نے ہمارا بُرا حال کردیا تھا۔
رائے کوٹ کا پُل کراس کرتے ہی شاہراہ قراقرم کی کارپیٹڈ سڑک، سنگلاخ ہمالیہ و ہندوکش کے پہاڑی سلسلے اور پورے آن بان سے بہتے دریائے سندھ کے مناظر نے سفر کا لطف دوبالا کردیا۔ اب موسم بھی قدرے بہتر ہوچکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد قراقرم ہائی وے سے ہم استور کو جاتے راستے کی طرف مڑ گئے، یہاں سے استور شہر تک ہمیں مزید 44 کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا۔
استور کو جاتی سڑک پر جگہ جگہ کام ہو رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک ٹوٹ کا پھوٹ کا شکار تھی، یہی وجہ تھی کہ سفر مزید 2 گھنٹے طویل ہوگیا اور ہم دوپہر 2 بجے کے قریب ڈاشکن کے مقام پر پہنچے جہاں نمازِ ظہر اور کھانے کے لیے کچھ دیر قیام کیا۔ یہاں سے استور کا فاصلہ مزید تقریباً 23 کلومیٹر تھا۔
45 منٹ کے مزید سفر کے بعد دنیا کے بلند ترین چراگاہوں (pastures) کی سرزمین استور نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ سطح سمندر سے 2600 میٹر (8500) فٹ بلندی پر واقع وادئ استور کو 2004ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔
اس سے قبل یہ علاقہ دیامبر ضلع کا حصہ تھا۔ یہاں سے قراقرم ہائی وے 44 کلومیٹر دور ہے جبکہ اسکردو شہر سے براستہ دیوسائی 95 کلومیٹر، اور جگلوٹ سے براستہ اسکردو 135 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد یہاں پہنچا جاسکتا ہے۔
گلگت بلتستان میں استور کو سیاحتی اعتبار سے ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کی مشہور چوٹی نانگا پربت کے 2 رخ اس ضلع میں واقع راما اور ترشنگ گاؤں کی وادئ روفل سے نظر آتے ہیں اور ان دونوں مقامات کی خوبصورتی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
بروغل پاس اور پاک بھارت سرحد پر واقع آخری خوبصورت گاؤں منی مرگ اور دیوسائی دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ راما جھیل، ریمبو جھیل اور شیوسر جھیل یہاں کی مشہور جھیلیں ہے۔
شہر پہنچتے ہی طوفان نے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی، گردوغبار نے ہمیں تقریبا 15 منٹ تک جیپ میں ہی مقید رکھا۔ 2 دوستوں نے گاڑی سے اُتر کر مقامی لوگوں سے رہنمائی حاصل کی کہ آیا چلم چوکی کا سفر جاری رکھا جائے یا راما ہی میں رات گزاری جائے؟
مقامی لوگوں کے مشورے اور کچھ دیر کلمہ چوک میں فوٹوگرافی کے بعد ہم راما میڈوز کو جاتی سڑک پر رواں دواں تھے۔ یہاں سے راما گاؤں 7 کلومیٹر دور ہے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم نہایت ہی خوبصورت وادی میں تھے اور ہمارے سامنے بلند و بالا نانگا پربت برف کی چادر اُوڑھے اپنی بلندیوں پر نازاں دکھائی دیا۔
راما کے بارے میں نوجوان سفرنامہ نگار محمد احسن کے مطابق، کسی زمانے میں جنوبی کشمیر اور گلگت کے مابین ایک قدیم راستہ موجود تھا جو استور، چلم، برزل پاس، منی مرگ اور سونامرگ وغیرہ کے علاقے سے گزرتا تھا۔
پڑھیے: نوری جھیل؛ جس کو دریافت کرنا تمام خوشیوں سے بڑھ کر لگا
یہ راستہ آج بھی موجود ہے مگر کشمیر کا بیشتر حصہ ہندوستانی قبضے میں ہونے کی وجہ سے زیرِ استعمال نہیں۔ اس دور میں گلگت بلتستان بھی کشمیر کا حصہ ہوتا تھا۔ اگر کشمیر آزاد ہوجائے تو گلگت بلتستان لداخ سمیت خودکار طریقے سے دوبارہ کشمیر ہوجائیں گے۔
اُنہی پرانے وقتوں کی بات ہے کہ جب ہندو تاجر اور راہب استور سے گزرتے تھے تو مزید بلندی پر موجود نانگا پربت بیس کیمپ بھی جایا کرتے تھے۔ اُنہی تاجروں اور راہبوں میں زبردست اہلِ دل اور اہلِ فطرت بھی موجود ہوتے تھے۔ جب وہ نانگا پربت کا آفاقی حُسن دیکھتے تھے تو اُنہیں اُسی طرح "رام" یاد آتا تھا جیسے ہمیں یہاں "اللہ" یاد آیا ہے۔ انہوں نے اس علاقے کو سیدھا سیدھا اسٹریٹ اوے "راما" نام دے دیا۔ اسی سے راما میڈوز اور راما جھیل نام مشہور ہو گئے۔
شام ہوچکی تھی اور تھکاوٹ سے بُرا حال بھی تھا، اسی لیے راما میڈوز کے آغاز میں واقع کیمپنگ ہوٹل میں رات بسر کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ کل 9 افراد کے لیے ہم نے 5 خیمے کرائے پر حاصل کیے، جو کہ انتہائی مناسب کرایوں میں مل گئے۔ سامان رکھنے اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے گھریلو اسٹائل اور بغیر مرچ مصالحوں کے چکن کے سالن کا آڈر دیا۔ سالن کو تیار ہونے میں وقت تھا اس لیے ہم جنگل کے درمیان لگے ان کیمپس سے باہر فطرت کے فن پاروں کے پیش و خم دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔
تھوڑی دیرمیں سالن تیار ہوگیا، بدقسمتی سے کک مصالحوں کے ساتھ ساتھ نمک ڈالنا بھی بھول گیا تھا۔ بغیر نمک کے سالن فلپائن کے کھانوں کی یاد تازہ کر رہا تھا۔
کھانے کی میز پر ہی اگلے دن کی منصوبہ بندی کی گئی اور علی الصبح سورج نکلنے سے پہلے ناشتہ کیے بغیر راما جھیل کا رخ کرنے اور واپسی پر ناشتہ کرنے کا پروگرام فائنل ہوا اور گروپ کے تمام افراد کو جلدی سونے کا کہا گیا۔
لیکن ابھی لیٹے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ باہر سے شینے زبان کی مقامی موسیقی سنائی دینے لگی۔ یہ گلگت یونیورسٹی سے آئے ہوئے طالب علموں کا ایک گروپ تھا جو مقامی موسیقی پر روایتی رقص کر رہے تھے۔ کچھ دیر خیمے میں سونے کی ناکام کوشش کی لیکن موسیقی، ساز آواز اور تالیوں کی گونج نے نیند کو میرے قریب نہیں بھٹکنے دیا۔
چنانچہ باہر ان کے روایتی رقص کو دیکھنے کے لیے خیمے سے باہر آگیا۔ باہر جاکر کیا دیکھتا ہوں کہ باہر آنے والوں میں، مَیں اپنے گروپ کا آخری فرد ہوں ورنہ باقی سارے تو پہلے ہی دائرے کی شکل میں کرسیوں پر براجمان ہیں۔
رات دیر تک گلگت اور راما کے مقامی لوگوں نے موسیقی کی اس محفل کو خوب جمائے رکھا۔ رات کا ایک بجا تو موسیقی کا سلسلہ بھی تھم گیا اور ہم دوبارہ خیموں میں چلے گئے۔ خدا خدا کرکے آخر نیند آہی گئی۔
صبح سویرے ہم سبھی جاگ گئے، ابھی وضو کے لیے پانی کو ہاتھ لگایا تو کرنٹ سا محسوس ہوا، جی نہیں کوئی بجلی کا کرنٹ نہیں تھا بلکہ ٹھنڈک کا جھٹکا تھا۔ یخ ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں پورے 15 منٹ لگے۔
نماز کی ادائیگی کے بعد تقریباً 6 بجے کے قریب ہم جیپ پر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف چل پڑے، سڑک کے دونوں اطرف چیڑ اور دیار کے درخت تھے۔ یہاں سے صرف 4 کلومیٹر دور تھوڑی بلندی پر راما جھیل واقع ہے۔ اب ہم ایک طرف کھلے میدان میں داخل ہوچکے تھے، یہ راما میڈوز کا خوبصورت میدان ہے۔ جہاں پر ایک طرف ایک ہوٹل اور دوسری طرف چند کمروں پر مشتمل پولیس کا ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے۔
خوبصورت اور گھنا جنگل اور اس میں بہتے صاف و شفاف نیلگوں پانی کی نہریں، پرندوں کی چہچہاہٹ اور کھلا صاف آسمان۔ جی ہاں یہی ہیں راما میڈوز کا دل کو لبھانے والے مناظر۔
تھوڑا اور آگے جاکر سڑک کے دونوں جانب عارضی مگر خوبصورت کیمپنگ اور عارضی ریسٹورنٹ یہاں پر بڑی تعداد میں آنے والے سیاحوں کی آمد کی گواہی پیش کر رہے تھے۔ کیمپنگ سائٹ کے ساتھ ہی ایک پل موجود ہے جسے عبور کرنے کے بعد جیپ ٹریک مزید بلند اور قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔
ابھی ہم جھیل تک نہیں پہنچے تھے لیکن راستے میں جیپ روک دی گئی۔ ہم جیپ سے باہر نکلے۔ آگے ایک گلیشیئر کے آثار تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ گلیشیئر کو پیدل عبور کرکے ایک 2 موڑ کے بعد جھیل ہے۔
اب نہار منہ ہم سب تقریباً آدھا کلومیٹر پر محیط پیدل ٹریک پر روانہ ہوئے۔ ہم برف سے ڈھکے فلک بوس نانگا پربت سے کافی قریب تھے۔
اگرچہ اس جانب نانگا پربت کی سب سے چھوٹی چوٹیاں موجود ہیں مگر پھر بھی ان کی بلندی اور خوبصورتی بے مثال تھی۔ جبکہ دوسری جانب کاجو جیسی ایک چھوٹی سی جھیل شرماتی ہوئی نظر آئی۔
اس جھیل کی فوٹوگرافی کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک ایسا موڑ آیا جو منزل بھی ساتھ لے آیا اور راما جھیل سامنے تھی۔ جھیل کے پاس ایک چھوٹا سا پہاڑ تھا جس پر پائن درخت کھڑے نظر آئے اور اُس کے پیچھے نانگا پربت تھا۔
پائن کے درخت اور نانگا پربت کے دامن میں ایک طرف یہ خوبصورت جھیل تھی اور دوسری طرف نانگا پربت کا ایک بڑا گلیشئیر تھا۔ گلیشیئر کا پانی نیچے دریائے استور کی جانب بہہ رہا تھا۔ راما جھیل ٹراوٹ مچھلی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ یہاں آنے والے زیادہ تر سیاح جھیل کے کنارے کیمپنگ کرتے ہیں۔ ہم یہاں کچھ دیر رُکے اور پھر واپسی کی راہ لی۔
جھیل سے واپسی پر میری نظر قریب موجود پہاڑی پر پڑی جس نے مجھ سمیت تمام ساتھیوں کو دکھی کردیا۔ کیونکہ سب جانتے تھے کہ ماضی میں اس پہاڑ پر بے تحاشا درخت تھے لیکن اب تو نام کا بھی ایک درخت باقی نہیں رہا البتہ درختوں کی باقیات موجود تھی۔ درختوں کی مسلسل کٹائی نے اس پہاڑ سے جنگل کا نام و نشان ہی مٹا دیا تھا۔
جنگل میں بلند و بالا درخت کھڑے تھے اور جنگل سے نیچے کی جانب دیکھیں تو آپ کو گھوڑے گھاس کھاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ جنگل کے راستے میں جگہ جگہ آبشاریں اور چشمے بہہ رہے تھے، جبکہ بعض مقامات پر چٹانوں کو دیکھ کے معلوم ہورہا تھا کہ یہاں سے بھی کبھی آبشار کا گزر ہوتا تھا لیکن پانی نے اپنا راستے بدل لیا ہے۔
تھوڑی دیر میں ہم ہوٹل پہنچ گئے، لیکن تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے ہمیں ناشتہ نصیب نہ ہوا۔ اس مشکل صورتحال کے باجود اس امید کے ساتھ یہاں سے سیدھا جیپ پر اپنے کیمپ سائٹ کی طرف روانہ ہوئے کہ شاید وہاں ناشتہ مل جائے، مگر کیمپ سائٹ پر بھی ناشتہ نہ ہونے کی وجہ صرف ایک کپ چائے پر اکتفا کرکے ہم اپنی اگلی منزل چلم چوکی کی طرف روانہ ہوئے۔
ہمارا ارادہ تھا کہ منی مرگ کا خوبصورت قصبہ دیکھا جائے لیکن اس کے لیے پاک فوج کی اجازت لینا لازمی تھی۔ ہمارے ایک ہم سفر ساتھی کے ایک دوست کنٹریکٹر تھے اور منی مرگ میں کچھ پروجیکٹس پر کام کر رہے تھے، انہوں نے آرمی سے اجازت لینے کی یقین دہانی کروائی اور چلم جوشی سے 25 کلومیٹر پہلے چشمہ ہوٹل پر انتظار کرنے کو کہا۔
چونکہ ’ایس کام‘ کے علاوہ کوئی نیٹ ورک استور سے آگے کام نہیں کرتا لہٰذا ہمارے ساتھی نے اپنے دوست سے آخری دفعہ رابطہ کرکے چشمہ ہوٹل کا ایڈریس کنفرم کیا اور پھر ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔
استور سے فیول ٹینک فل کرواکے میں جیپ سے کار میں شفٹ ہوگیا تھا۔ کچھ دیر سفر کرنے کے بعد ہم ترشنگ اور روفل پاس کو جانے والے راستے کے دوارہے پر تھے جبکہ جیپ ہم سے آگے جا چکی تھی۔ اس دوراہے پر نصب بورڈز ترشنگ کے راستے پر دیوسائی کی نشاندہی کررہا تھا جبکہ میرے پاس جو نقشہ تھا اُس پر مارکنگ کے مطابق سیدھا جانے والا راستہ ہی دیوسائی اور چلم چوکی کا راستہ تھا۔
خیر ہم تھوڑا سفر ترشنگ والے راستے پر کرچکے تھے وہاں پر سڑک کنارے کھڑے ایک مقامی شخص سے جب دیوسائی کا راستہ معلوم کیا تو اُنہوں نے واپس مڑنے اور دوسرے والے راستے پر جانے کا کہا۔ اب ہم واپس مڑ کر دیوسائی والے راستے پر تھے لیکن ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ کہیں جیپ بھی ترشنگ نہ جا پہنچے۔
ہم پوری اسپیڈ کے ساتھ گاڑی دوڑا رہے تھے اور مسلسل 2 گھنٹے کے سفر کے بعد بھی ہمیں جیپ کے کوئی آثار نہیں ملے۔ راستے میں بکھری خوبصورتی، دریائے استور کا پانی اور دوسری طرف جیپ کی ٹینشن! اس صورتحال کو کیا نام دیں گے؟
دلفریب مناظر کے ساتھ ساتھ ہم ساتھیوں کی گمشدگی کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ تقریباً 3 گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہم چشمہ کے مقام پر واقع ہوٹل پہنچے جو نمکین گوشت اور افغانی روش کے لیے مشہور ہے۔
ہوٹل سے اور اردگرد لوگوں سے جیپ کے بارے میں معلومات کی لیکن کسی نے بھی جیپ کے بارے میں خبر نہیں دی۔ صرف ایک شخص نے بتایا کہ ایک جیپ یہاں سے چیلم چوکی آدھا گھنٹہ پہلے گزری تھی۔ مگر وہ جیپ وہی تھی؟ یہ کنفرم نہیں تھا اس لیے اس کا پیچھا کرنے کے بجائے وہیں رکنے اور کھانا کھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم آدھا گھنٹہ مزید انتظار کرنے کے بعد چلم چوکی کی طرف نکل پڑے۔
ہم راستے میں بھی مقامی لوگوں سے جیپ کے حوالے سے پوچھتے رہے لیکن سب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے چلم چوکی میں پتا کرنے کا مشورہ دیا۔ تقریباً 25 کلو میٹر کا سفر کرنے کے بعد ہم چیلم چوکی پہنچے۔ چلم چوکی ایک خوبصورت ٹاؤن ہے جہاں پر عارضی ہوٹلز کے علاوہ آرمی بیس کیمپ بھی موجود ہے۔ آرمی چیک پوسٹ سے پتا کیا تو وہاں سے علم ہوا کہ ایسی کوئی گاڑی چلم چوکی پہنچی ہی نہیں ہے۔
یہاں سے ہمارا خدشہ یقین میں بدل گیا کہ وہ دیوسائی کے بجائے ترشنگ کی طرف نکل گئے ہوں گے۔ اُس دوراہے سے ترشنگ کا فاصلہ 25 سے 30 کلومیٹر بنتا ہے۔ ترشنگ گاؤں اور روپل وادی استور کے خوبصورت ترین مقامات میں شامل ہیں۔ نانگا پربت کا ایک رخ یہاں سے بھی نظر آتا ہے۔ ناناگا پربت کے دامن میں واقع وادئ روپل کا خوبصورت میدان سیاحوں کے لیے سال بھر توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔
چلم چوکی پر اب ہمارے پاس انتظار کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا، تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ہمارے گمشدہ ساتھی آرمی چیک پوسٹ پہنچ گئے اور وہیں راستہ بٹھک جانے کی روداد سنانے لگے۔ اُن کا بھوک سے بُرا حال تھا کیونکہ چشمہ ہوٹل پر رکنے کے بجائے وہ ہمارے پیچھے آگئے تھے۔ قریبی ہوٹل پر کھانا کھانے کے بعد ہم ایک بار پھر آرمی چیک پوسٹ پہنچے اور اپنے ساتھی کے دوست کا حوالہ دے کر منی مرگ جانے کی اجازت طلب کی لیکن اجازت نہیں ملی۔
لہٰذا منی مرگ جیسے خوبصورت علاقے کو نہ دیکھ پانے کا دکھ لیے ہم دیوسائی کی طرف نکل پڑے۔
بوجھل دل کے ساتھ دیوسائی نیشنل پارک کی طرف بلندیوں کا سفر شروع ہوا۔ جیسے جیسے جیپ آگے کی طرف بڑھ رہی تھی، خوبصورت مناظر کا سحر ہم پر طاری تھا۔ دیوسائی کے بارے میں کیا خوب کسی نے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی تصویر، کوئی وڈیو یا کوئی بھی سفرنامہ دیوسائی کو بیان نہیں کرسکتا، اُس کے لیے سفر کرنا ضروری ہے۔
آج کئی سال بعد دیوسائی آنے کی تمنا بالآخر پوری ہوئی تھی۔ فطرت کے جابجا تھری ڈائنامک فن پاروں کو دیکھتے رہے اور کسی طلسماتی دنیا میں ہونے کے تصور میں غرق رہے۔ یہاں سے مزید تھوڑا آگے سفر کرنے اور 14 ہزار فٹ کی بلندی چڑھنے کے بعد سڑک کے کنارے پر لگے ایک بورڈ پر محکمہ سیاحت گلگت بلتسان اور وائلڈ لائف لکھا نظر آیا، جو ہمیں دیوسائی کے رنگ برنگی پھولوں اور سربز میدانوں میں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔
لفظ دیوسائی دو الفاظ کا مرکب ہے ’دیو‘ اور ’سائی‘ یعنی سایہ۔ آج سے 100 سال پہلے اس علاقے میں انسانوں کا بہت ہی کم گزر ہوتا تھا۔ دیوسائی میں پھولوں کی درجنوں اقسام مل جائیں گی۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں ابھی تک صرف ڈھائی سو اقسام کے پھول دریافت ہوچکے ہیں۔ اس مقام کو خود پر نازاں ہونے کی ایک وجہ یہاں موجود “شیوسر“ جھیل بھی ہے۔
14 ہزار فٹ بلندی پر موجود شیوسر پاس کو عبور کرنے کے بعد یہ جھیل آپ کے سامنے ہوتی ہے۔ ہیرِ نانگا پربت شیوسر جھیل پاکستان کی چند بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہیں جو اپنے اندر بے پناہ جاذبیت سموئے ہوئے ہیں۔ دور کھڑے شہنشاہِ کوہستان ’نانگا پربت‘ کا مسحور کن نظارہ اس جھیل کے حُسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ 4200 میٹر بلندی پر واقع یہ جھیل بھی فطرت کا ہمارے لیے ایک تحفہ ہے۔ اگر اس جھیل کو دیوسائی کا زیور کہا جائے تو بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔
کچھ ساتھی جھیل کے کنارے قریبی پہاڑی کے ٹاپ تک چلے گئے۔ اس پہاڑی کو "سونیا پیک" کہتے ہیں۔ پہاڑی کے ٹاپ سے شیوسر جھیل اور نانگا پربت تھوڑا مزید کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ جھیل کے نظاروں اور فوٹوگرافی کے بعد اب ہمیں اپنی اگلی منزل کالا پانی کی طرف نکلنا تھا۔ راستے میں رنگ برنگی جامنی، لال اور پیلے پھول اور ان کی خوشبو ہمیں بار بار ٹھہرنے اور فوٹو گرافی کرنے پر مجبور کرتی رہی۔
پڑھیے: منجمد سیف الملوک کو دیکھنے کی آرزو بالاخر پوری ہوگئی
دلفریب نظاروں، بھورے ریچھ، پھول اور سفید بادلوں کا مسکن یقیناً دیوسائی دنیا کا بلند ترین اور وسیع طلسماتی جہان ہے، جس کے اوپر پہنچے والوں کی سانس بلندی روکتی ہے۔ دیوسائی پر لکھی گئی کتاب "دیوسائی میں ایک رات" کے مصنف محمد احسن نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ، ’کیا ایک ریچھ کے لیے... ایک پھول کے لیے... ایک بادل کے لیے گھر سے نکل کر دربدر ہونا جائز ہے؟ ںہیں تو پھر یہ دیوسائی کا حسن ہی ہے جس کے لیے ایک ریچھ ، ایک پھول اور ایک بادل دیوانے محبوب کی طرح اس کو اپنا مسکن بنا بیٹھے ہیں۔‘
دیوسائی کے میدان کا ہر کونا خوبصورت اور منفرد ہے، کہیں آپ کو دھوپ نظر آئے گی تو کہیں سایہ، جگہ جگہ ہزاروں پھول نظر آئیں گے، قریب جاکر دیکھیں گے تو پتا لگے گا کہ یہ ایک پھول نہیں بلکہ ننھے منے پھولوں کا ایک گلدستہ ہے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ دیوسائی سال کے 9 سے 10 مہینے برف میں اور ڈیڑھ سے 2 ماہ خزاں میں رہتا ہے۔ محض ایک ڈیڑھ مہینے کے لیے یہ پھول عالمِ عدم سے عالمِ وجود میں آتے ہیں، غدر برپا کردیتے ہیں اور مدہوش کُن خوشبوئیں پھیلاتے ہیں۔
ارتقائی سائنسدان جو بھی کہتے رہیں کہ یہ پھول ازواج رکھتے ہیں اور اُنہیں اپنی طرف مائل کرنے کے لیے خوشبوئیں پھیلاتے ہیں۔ ایک ایسا کام جو انسان بھی کرتا ہے۔ مگر اِن پھولوں کے درمیان کھڑے ہوکر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ نہیں۔۔۔ یہ سب کچھ اُس کے لیے تخلیق کیا گیا جو یہاں پہنچ گیا ۔۔۔ یا جِسے بلایا گیا۔۔۔‘
شیوسر جھیل سے ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہم کالا پانی پہنچے، راستے میں 3 مہینے تک دیوسائی کے خوبصورت میدانوں میں اپنے جانوروں کو چروانے کے لیے یہاں پر عارضی سکونت اختیار کرنے والے مقامی لوگوں نے ہمارے لیے اپنی مسکراہٹوں بکھیر دیں۔
اب ہم دیوسائی کے مرکزی پوائنٹ اور سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے مشہور بڑا پانی کی طرف روانہ ہوئے۔ بڑا پانی نیلگوں پانی وسیع و عرض سرسبز و شاداب میدانوں کے درمیان سیاحوں کے لیے بنایا گیا اسکردو سے قریب ایک خوبصورت پوائنٹ ہے، یہاں پولیس کی چک پوسٹ کے ساتھ ہی کیپمنگ کا انتطام کیا جاتا ہیں۔ یہاں سیاح رات گزار کر دیوسائی کی خوبصورتی سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بڑا پانی کے قریب بھورے ریچھوں کے مسکن کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں سیاح بھورے ریچھوں کی فوٹو گرافی کے غرض سے اور مقامی افراد شکار کے لیے اسی مقام سے نکلتے ہیں۔ یہاں پر پائی جانے والے بھورے رنگ کے ریچھ کی نسل بہت ہی نایاب ہے مگر حکومتوں کی کوششوں کے باوجود مقامی افراد اس کی نسل کشی سے باز نہیں آرہے۔
بڑا پانی کے مقام کے بعد ہماری اگلی منزل اسکردو تھی۔
میں دیگر دوستوں کے ساتھ جیپ پر سوار تھا، ہماری جیپ اب کافی آگے نکل چکی تھی لیکن ساتھ ساتھ ڈارئیور پیچھے موجود گاڑی پر بھی اپنی نظریں جمائے ہوئے تھا جس میں ہمارے دیگر ہمسفر ساتھی سوار تھے۔
سورج غروب ہونے والا تھا اور دیوسائی کے کھلے میدانوں پر اندھیرا چھانے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد ڈرائیور نے کہا کہ پیچھے آنے والی کار دکھائی نہیں دے رہی، کہیں ان کی گاڑی خراب تو نہیں ہوگئی۔ ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی ایک گاڑی کے ڈرائیور نے بتایا کہ آپ کے دوستوں کی کار خراب ہوچکی ہے اور وہ آپ کو واپس بلا رہے ہیں۔
جب دوستوں کے پاس پہنچے تو پتا چلا کہ گاڑی کے دونوں ٹائر ایک پتھر سے ٹکرانے کی وجہ سے پھٹ چکے ہیں۔ گاڑی میں اضافی ٹائر ایک ہی تھا لہٰذا ایک ٹائر کا مسئلہ تھا۔ ایک ساتھی نے مشورہ دیا یہاں سے اسکردو کا رخ کیا جائے، راستے میں کہیں یا شاید سدپارہ جھیل کے مقام پر ٹائر شاپ مل جائے گی، جہاں سے دونوں ٹائر ٹھیک کرکے یا کوئی نیا ٹائر خرید کر دیوسائی واپس آسکتے ہیں۔
اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہم سفر ساتھیوں کے ایک گروپ کو گاڑی کے پاس چھوڑا گیا اور انہیں یہ ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کسی دوسری گاڑی سے ٹائر حاصل کرنے کی کوشش کریں اور کسی طرح دیوسائی سے نیچے اسکردو کی طرف اُتر آئیں۔
چونکہ بڑا پانی سے اسکردو تک ’ایس کام‘ کی سم مختلف جگہوں ہر کام کرتی ہے لہٰذا ایس کام کی سم والا موبائل بھی اس گروپ کو دے کر مجھ سمیت 5 کا گروپ جیپ کے فرنٹ والے حصے (بانٹ) پر دونوں ٹائر باندھ کر اسکردو کی طرف نکل پڑے۔ ہماری جیپ کی رفتاراب کافی تیز ہوچکی تھی، جلد ہی ڈھلتے سورج کے ساتھ ساتھ ہم دیوسائی کے پُرفریب مناظر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اسکردو کی طرف رواں دواں تھے۔
دیوسائی کے حدود سے نکلنے کے بعد آنے والی اُترائی پر ہمارا ڈرائیور گاڑی کو دوڑا رہا تھا۔ چلم چوکی سے دیوسائی کی طرف آنا قدرے آسان لگ رہا تھا کیونکہ وہ چڑھائی کافی کم لگ رہی تھی۔ دوسرا روڈ بھی کافی بہتر ہے۔ یہ بالکل عمودی چڑھائی تھی اور اچھی سے اچھی گاڑی بھی کافی زور لگا رہی تھی۔ اندھیرا ہونے سے پہلے ہم دیوسائی سے نیچے آچکے تھے اور تقریباً آدھا گھنٹہ مزید سفر کرنے کے بعد ہم سدپارہ چک پوسٹ پر پہنچ گئے۔
پڑھیے: نانگا پربت، کوہ پیماؤں کا مقتل بھی، جنوں بھی
ہم نے سیکورٹی اہلکاروں سے ٹائرشاپ کا پتہ کیا لیکن اُنہوں نے بتایا کہ اس وقت اسکردو کے علاوہ کہیں بھی جگہ ٹائر شاپ ملنے کی توقع نہ کریں۔ ہم روانہ ہونے والے ہی تھے کہ ہمارے ایک ساتھی نے سیکورٹی اہلکار سے پوچھا کہ یہاں کہیں فون کرنے کی سہولت ہے؟ جس پر اںہوں چیک پوسٹ میں لگے ایس کام سروس کی طرف اشارہ کیا۔ ہمارے ساتھی نے دیوسائی میں کار کے ساتھ رہ جانے والے ساتھیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
خوش قسمتی کے ساتھ دیگر ساتھیوں سے فون پر رابطہ ہوگیا اور اںہوں نے دوسری گاڑی سے اضافی ٹائر ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ہم دیوسائی سے اُتر رہے ہے۔ جس گاڑی سے ٹائر ملا اُس کا تعلق اسکردو سے ہے۔ اُن کی گاڑی ہم سے آگے اور ہم اُس کے پیچھے پیچھے اسکردو کی طرف آرہے ہیں۔
یقیناً دیوسائی جیسی جگہ پر اس طرح کی مدد ملنا کسی کرامت سے کم نہ تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم رات کے وقت اسکردو سے دوبارہ دیوسائی کے سفر کی مشکل سے بچ گئے۔
ہم نے اپنے ڈرائیور کو اسکردو کی طرف نکلنے کا کہا۔ ڈارئیور اب جیپ کی رفتار کافی کم کرچکا تھا، چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں ہم سدپارہ جھیل کنارے سلائیڈنگ ایریا سے گزر رہے تھے۔ 2 سال پہلے دیوسائی کی طرف آنے کی کوشش کی تھی لیکن سلائیڈنگ ہونے کی وجہ سے سدپارہ جھیل سے آگے جانے سے قاصر رہے تھے۔ سدپارہ کو کوہِ پیماؤں کی سرزمین بھی پکارا جاتا ہے۔
حال ہی میں وفات پانے والے مشہور کوہ پیما حسن سدپارہ کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ اس کے علاوہ نانگا پربت کو سردیوں میں سر کرنے والے پاکستان کے مایہ ناز کوہ پیما علی سدپارہ کا تعلق بھی اسی گاؤں ہے۔
تقرییاً ایک گھنٹے اور 20 منٹ کے سفر کے بعد ہم اسکردو شہر میں ایک ٹائر شاپ پر پہنچ چکے تھے۔ ٹائرز کی حالت دیکھ کر مکینک نے نیا ٹائر خریدنے کے لیے کہا۔ چونکہ اگلے دن جمعہ تھا اور جمعے کو اسکردو میں زیادہ تر مارکیٹیں بند ہوتی ہیں اس لیے رات کو ٹائر خریدنے کے لیے ہمارے ایک ساتھی گاڑی لے کر بازار کی طرف نکلے پڑے جبکہ ہم ٹائر ورکشاپ میں ٹائر کی ریپیرنگ کروانے کے لیے مکینک کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
ہم نے اسکردو کے وسط میں واقع ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کا بندوبست کرچکے تھے، تھوڑی ہی دیر بعد دیوسائی سے کار ٹائر شاپ پر پہنچ چکی تھی۔ ہم سب اضافی تائر دینے والے اسکردو کے مقامی دکاندار کے مشکور تھے، جو کہ ہمارے سامنے ٹائر والے کو مہمانوں کا خیال رکھنے کا کہہ رہے تھے۔ تاہم مکینک نے ایک بار پھر یہ کہہ کر سب کو پریشان کردیا کہ ٹائر کو پنکچر لگانے کا سامان نہ ہونے کی وجہ سے کل صبح 9 بجے سے پہلے ٹائر نہیں مل سکتا ہے۔
اسٹیپنی دینے والے دکاندار نے کہا کہ آپ پریشان نہیں ہوں، کل تک آپ اسی سے گزارا کریں صبح جب ٹائر مل جائے تو میری اسٹیپنی واپس کر دیجیے گا۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور بہتر آپشن بھی نہیں تھا، لہٰذا ہم نے شکریے کے ساتھ انہیں رخصت کردیا۔
اتنے میں ہمارے ساتھی بھی نیا ٹائر صبح تک ملنے کی خبر لے کر واپس پہنچ چکے تھے۔ اب ہماری منزل ہوٹل اور کھانے کی میز تھی۔ تھوڑی دیر میں شہر میں گھومتے ہوئے ہم ہوٹل پہنچے۔ گرم پانی سے نہانے اور تر و تازہ ہوئے، جس کے بعد ہم نے اسکردو کے مشہور ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا اور ہوٹل آکر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے۔
صبح کافی دیر سے آنکھ کھلی، دیگر ساتھی ابھی سو رہے تھے۔ نہانے اور نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ہوٹل میں لگی خوبانیوں کی مٹھاس سے دن کا آغاز کیا۔ تقریباً پونے 9 بجے تک سارے ساتھی تیار ہوچکے تھے، طے یہ پایا کہ ناشتہ شنگریلا یا اپر کچورا میں کیا جائے گا۔
بازار سے ٹائر چینج کروانے اور پیٹرول ڈلوانے کے بعد ہم شنگریلا کی طرف روانہ ہوگئے۔ شنگریلہ کو چھوڑ کر ہم پہلے اپر کچورہ جھیل کی خوبصورتی سمیٹنے اور جھیل میں بوٹنگ کا مزہ لینے کے بعد سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کی ہوٹل پہنچے اور وہیں کھانا کھایا. یہاں فارغ ہوئے تو دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں شامل شنگریلا ریزورٹ پہنچ گئے۔
شنگریلا کی مصنوعی جھیل کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔
!اکتوبر کے مہینے میں شنگریلا جھیل کا فضائی منظر—تصویر رضوان احمد جٹ]40
یہاں سے ہم جگلوٹ کے لیے روانہ ہوگئے، 7 گھنٹوں پر مشتمل طویل اور تھکادینے سفر کے بعد تقریباً رات کے 2 بجے ہم جگلوٹ پہنچے۔ یہاں پر قیام کرنے کے بجائے سفر جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ گونڑفارم میں ایک کپ چائے پینے کے بعد صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جیپ پر ہمارا سفر شروع ہوا جو بابوسر ٹاپ کی بلندیوں کو زیر کر رہی تھی اور تقریباً 8 بجے کے قریب ہم ناران پہنچ گئے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
تبصرے (35) بند ہیں