• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بین الصوبائی اختلافات ختم کرنے کیلئے قومی آبی کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

شائع October 13, 2018
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے پانی کے حوالے سے صوبوں کے درمیان تنازعات دور کرنے اور اس بارے میں ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں 'قومی آبی کونسل' کا پہلا اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا جو رواں ماہ کے آخر میں منعقد کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس اپریل میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے منظور کردہ پہلی قومی آبی پالیسی کے تحت ملک میں پانی کے مسائل حل کرنے اور ذخائر کی تعمیر کے لیے ’قومی آبی کونسل‘ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم کی سربراہی میں قائم اس آبی کونسل کے دیگر اراکین میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزیر برائے آبی ذخائر، خزانہ، توانائی اور وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی پہلی آبی پالیسی مشکلات میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟

اس کے علاوہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے 5 آبی ماہرین، وزیر اعظم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ بھی کونسل کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں کراچی کے لیے 12 سو کیوسک پانی مختص کرنے کے ساتھ آبی شعبے کے مسائل اور مستقبل کے چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب سندھ کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے کراچی کے 12 کیوسک پانی کی فراہمی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا تو زیادہ تر اراکین خاص کر دیگر 3 صوبوں کے نمائندوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔

مزید پڑھیں: مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس، پاکستان کی پہلی آبی پالیسی کی منظوری

وزیر اعلیٰ سندھ نے کونسل کو آگاہ کیا تھا کہ ماضی میں سندھ نے وفاقی دارالحکومت کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس سمجھوتے کے تحت اشتراک کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ کراچی کی پانی کی ضرورت دیگر صوبے مل کر پوری کریں گے۔

تاہم وزیراعلیٰ سندھ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے نمائندہ پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات ریکارڈ پر موجود نہیں جو اس دعوے کو ثابت کر سکے۔

اس کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے بھی اپنے حصے میں سے کراچی کو پانی دینے کی تجویز کی مخالفت کی تھی، اس تمام تنازع پر وزیر برائے صوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا نے یہ مسئلہ قومی آبی کونسل کے سپرد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کس طرح قیمتی پانی ضائع کرتا ہے

ذرائع کے مطابق آبی کونسل کے اجلاس میں قومی آبی پالیسی کے قیام سے اب تک اس پر عملدرآمد کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور پانی کے شعبے کے مسائل اور چیلنجز کے ساتھ ساتھ پانی سے متعلق صوبائی تنازعات کے حل کے بارے میں غور کرنے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کی جائے گی۔

خیال رہے کہ قومی آبی پالیسی کے مطابق ملک میں تقریباً 46 ملین ایکٹر فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے، جسے نہروں اور آبی ذخائر کی مدد سے سال 2030 تک کم از کم 33 فیصد کم کرنا ہے۔

اس کے علاوہ آبپاشی میں ڈرپ اور چھڑکاؤ کی جدید اور بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے 2030 تک پانی استعمال کرنے کی صلاحیت میں 30 فیصد اضافہ اور استعمال کے مطابق اس کی قیمت مقرر کی جائے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Oct 14, 2018 06:11pm
کراچی کے لیے 1200 کیوسک پانی کا کوٹہ مختص کرنا انتہائی اچھا قدم ہوگا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ آر او یعنی ڈی سیلینشن مافیا پر بھی نظر رکھنی چاہیے پہلے وزیر اعلیٰ سندھ، وزیر بدیات اور پیپلز پارٹی کے دیگر چھوٹے بڑوں نے کراچی کے لیے حبکو کے زیر انتظام حب ڈیم کے قریب اربوں روپے کے ڈی سیلینشن پلانٹ بنانے کی بات کی، د وسری جانب گورنر سندھ نے کیماڑی میں کے پی ٹی کے قریب ڈی سیلینشن پلانٹ قائم کرنے کی بات کی، ڈی سیلینشن پلانٹ کی ٹیکنالوجی انتہائی مہنگی ہوتی ہے اور اس کو لگانے پر اربوں روپے کے بعد اس کو چلانے پر بھی سالانہ کئی ارب کا خرچ آئے گا، یہ اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ کراچی کے ڈی ایچ اے نے پرویز مشرف کے دور میں کروڑوں روپے خرچ کرکے پلانٹ لگانے سے توبہ کرلی، کراچی ڈیفنس کے رہنے والے بھی اس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، براہ مہربانی اس ڈی سیلینشن مافیا کو بے نقاب کیا جائے، سندھ یا وفاق کے پاس عوام کے ٹیکسوں کی صورت میں امانت کا پیسہ ہے اس کو دیانت سے خرچ کیا جائے، ڈی سیلینشن پلانٹ کے متعلق معاملات عوام کے سامنے رکھے جائیں اور تمام توجہ کے 4 منصوبے کو بروقت مکمل کرکے پانی کی منصفانہ تقسیم پر دی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024