لولی وڈ میں آف بیٹ فلموں کی گنجائش ہے یا نہیں؟
3 برس قبل، اسلام آباد کے ایک مقامی ملٹی پلیکس سنیما میں انگریزی فلم دیکھنے کے لیے دوست کے ساتھ جانا ہوا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ اس فلم کے تمام ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں۔ مایوسی سے بورڈ پر دیکھا تو پاکستانی فلم ’شاہ‘ کا نام بھی دیگر فلموں کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ وقت گزاری کے لیے اس کے 2 ٹکٹ لیے اور ہال میں چلے گئے۔
فلم کو ریلیز ہوئے 5 دن ہوئے تھے مگر بمشکل 25 کے قریب لوگ سیٹوں پر براجمان تھے۔ فلم شروع ہوئی۔ پہلے 10 منٹ میں، مَیں اور میرا دوست فلم کے ہر سین پر باآواز بلند ہوٹنگ کرتے رہے۔ ’ابے یہ لیاری ہے کیا؟ ارے یہ کیسا آرٹ ورک ہے؟ اوئے اس سین میں تو کیمرہ ڈی فوکس ہے۔ کلر گریڈنگ کس ویلڈنگ والے سے کروائی ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘۔ مگر 10 منٹ گزرنے کے بعد فلم کی کہانی نے ہمیں جکڑ لیا۔ فلم کے پروڈیوسر، ہدایت کار اور ہیرو ’عدنان سرور‘ نے تینوں شعبوں میں اعلیٰ کام کیا اور معاون اداکاروں سے بہترین کام لیا۔
انتہائی کم بجٹ میں کہانی کو اتنے مربوط انداز میں بیان کرنا کہ فلم بین اس کی تکنیکی خامیوں پر دھیان دینے کے بجائے فلم کی کہانی میں کھو جائے، بہت متاثر کن لگا۔ فلم ’شاہ‘ اتنا بزنس تو نہ کرپائی مگر سنجیدہ حلقوں میں اسے بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد عدنان سرور نے ’موٹرسائیکل گرل‘ کے نام سے رواں برس فلم بنائی جو نقادوں کی اس برس کی سب سے پسندیدہ فلم کہی اور مانی جارہی ہے۔
پڑھیے: موٹرسائیکل گرل: عورت کا پہیہ چلنے دو!
پاکستانی فلم انڈسٹری جو بنیادی طور پر سلطان راہی مرحوم کے دور میں 2 عشروں تک پنجابی فلم انڈسٹری بنی رہی، اس میں چند چہروں اور شخصیات کی اجارہ داری ہمیشہ سے رہی ہے۔ 2002ء میں جب سید نور صاحب 14 فلموں کی ہدایت کاری ایک ساتھ دے رہے تھے، ٹھیک اسی وقت کراچی اور پشاور سے تعلق رکھنے والے کئی باصلاحیت لکھاری اور ہدایت کار، کام ملنے کی آس میں لاہور کے فلم اسٹوڈیوز میں مارے مارے پھررہے تھے۔ سلطان راہی مرحوم کے قتل کے بعد فلم انڈسٹری نے شان اور معمر رانا کو رنگ برنگے کُرتے پہنا اور گنڈاسہ تھما کر چند برس تو شائقین کو لبھایا مگر بھارتی و ہولی وڈ فلموں کی یلغار کے آگے ہماری انڈسٹری گھٹنے ٹیک گئی۔
’وار‘، ’بول‘، ’خدا کے لیے‘ جیسی فلموں سے لولی وڈ میں اچھی فلمیں بناکر شائقین سے داد سمیٹنے اور نفع کمانے کی راہ کھلی۔ پھر نبیل قریشی اور ندیم بیگ جیسے باصلاحیت ہدایت کاروں نے ’نامعلوم افراد‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ جیسی سیریز سے کروڑوں روپے کما کر فلم میکرز اور انویسٹرز کو پیغام دیا کہ اچھی کمرشل فلم بنائی جائے اور شائقین کو محظوظ کیا جائے تو لوگ سنیما میں فلم دیکھنے جوق در جوق آتے ہیں۔
گزشتہ 5 برسوں میں ایسا رجحان فروغ پاگیا ہے کہ صرف وہی فلمیں کمرشل طور پر کامیاب ہورہی ہیں جس میں مزاح، آئیٹم نمبرز اور ذومعنی جملوں کی بہتات ہو۔ ’مہرالنسا وی لب یو‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ کی کامیابی واضح مثال ہے۔ فلم انڈسٹری کے بڑوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلم بین یہ طے کرچکا ہے کہ اس نے اچھی فلم دیکھنی ہے تو وہ بھارتی اور ہولی وڈ کی فلمیں دیکھے گا اور اس نے قہقہے لگانے ہیں تو وہ پاکستانی فلم دیکھے گا۔ کیا ایسا ہی ہے؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں ہے۔
پاکستان میں آرٹ اور آف بیٹ سنیما کا ایک بہت بڑا خلا موجود ہے جسے بھرنا وقت کا تقاضا ہے۔ عدنان سرور کی ’شاہ‘، ’موٹرسائیکل گرل‘، عاصم عباسی کی ’کیک‘، جامی کی ’مور‘ مثالیں ہیں کہ اچھے موضوع پر بنائی گئی فلمیں شائقین کو پسند آئیں اور کامیاب بھی ہوئیں۔ ہماری ملٹی پلیکس آڈیئنس بہت میچور ہے مگر ہمارے پروڈکشن ہاؤسز، ٹی وی چینلز اور فلم میکرز اس بات کا اعتراف کرنے سے نجانے کیوں ہچکچاتے ہیں۔
پڑھیے: ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘: کمزور کہانی مگر جاندار اداکاری
بھارت میں کرن جوہر اور سنجے لیلا بھنسالی کے ساتھ ساتھ انوراگ کشپ اور نیرج پانڈے کی کم بجٹ والی فلمیں، اپنے انویسٹرز کو بھاری نفع کما کر دے رہی ہیں کیونکہ ان فلموں کا اسکرپٹ تگڑا اور دلچسپ ہوتا ہے۔ آف بیٹ سنیما کو ہمارے ہاں وہ فلمیں سمجھا جاتا ہے جن کو دیکھ کر نیند آجائے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ودیا بالن کی ’کہانی‘ اور نیرج پانڈے کی ’آ ویڈنزڈے‘ ایسی آف بیٹ فلمیں ہیں جن کو دیکھتے ہوئے فلم بین مارے سسپنس کے پلک تک نہیں جھپکا سکتا۔
علی معین، پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے نامور لکھاری اور گیت کار ہیں۔ اسد ملک ایک منجھے ہوئے سنیماٹوگرافر اور ابھرتے ہوئے ہدایت کار ہیں، ان کے کریڈٹ پر کئی ٹیلی فلمز اور ڈرامے ہیں۔ علی معین کے ایک انتہائی اعلیٰ اسکرپٹ پر اسد ملک فلم بنارہے ہیں۔ فلم کی کہانی اتنی جاندار ہے کہ ون لائنر پڑھ کر ہوش اڑجاتے ہیں۔ مگر چونکہ فلم کا موضوع سنجیدہ ہے اور یہ دونوں صاحبان کمرشل ضرورت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایسی کاسٹنگ کرنا چاہتے ہیں جو اسکرپٹ میں لکھے کرداروں کے مطابق ہو تو جس قسم کی مشکلات فلم بناتے ہوئے ان کو پیش آرہی ہیں ان کو بتایا نہیں جاسکتا۔
اس کے بدلے اگر فلم کا اسکرپٹ مزاحیہ ہوتا اور اس میں 3 ہیرو، 3 ہیروئنوں کو لے کر ناچ گانا دکھانے کی گنجائش ہوتی تو اس وقت ان کے پاس فنانسرز کی لائن لگی ہوتی اور فلم کی تکمیل سے قبل ہی اسپانسرز بھی وافر میسر آجاتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لولی وڈ کے کرتا دھرتا جن کا تعلق ڈرامہ انڈسٹری سے ہے، اس بات کا بروقت ادراک کرلیں کہ ہمارے ہاں غیر معروف کاسٹ کو لے کر کم لاگت میں آف بیٹ فلمیں بھی بنائی جاسکتی ہیں اور ایسی فلموں کو شائقین پذیرائی بھی بخشیں گے۔ وگرنہ فلم انڈسٹری اگر لاہور سے کراچی آئی ہے تو اسے واپس لاہور جانے میں چند برس بھی نہیں لگیں گے۔
تبصرے (11) بند ہیں