پنجاب میں صاف پانی کا منصوبہ کس طرح بربادی کا شکار ہوا
ملتان روڈ سے تھوڑے فاصلے پر ایک لگژری گولف کلب اور واٹر ریزارٹ میں پانی کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ اندر کا ماحول عام لوگوں کی زندگی سے نہایت مختلف ہے۔ یہاں غور و خوض سے ڈیزائن کی گئی شجرکاری کے ساتھ ساتھ انتہائی نفاست سے تراشے ہوئے باغات، بہترین دیکھ بھال والے گولف کے میدان اور ریت کے مصنوعی گڑھے بھی ہیں۔
واٹر اسپورٹس کی سہولیات بھی ایک بڑے رقبے پر محیط ہیں۔ ریزارٹ کے اوپر موجود صاف، نیلا آسمان اور مصنوعی طور پر برستا ہوا صاف شفاف پانی آس پاس کے علاقے سے بالکل متضاد ہے۔ یہ لاہور کے نزدیک انتہائی صنعتی اور انتہائی آلودہ علاقے میں واقع ہے۔ یہاں ہر طرح کی فیکٹریاں اور پلانٹ اس ریزارٹ کے خوبصورت ماحول کے ارد گرد زہریلا دھواں اگلتے اور خطرناک فضلہ پھینکتے رہتے ہیں۔ یہاں زیرِ زمین پانی زہریلا ہے، زمین مختلف کیمیکلز سے بھری ہوئی ہے جبکہ فضا میں بھی مختلف خطرناک گیسز موجود ہیں۔
لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ فلائی اوور سے تقریباً 36 کلومیٹر جنوب میں یہ علاقہ 1990ء کی دہائی میں صنعتوں کی آمد سے قبل ایک مکمل طور پر زرعی علاقہ تھا۔ یہاں چاول، سبزیاں، گندم، گنا اور دیگر اجناس کی زبردست فصلیں ہوا کرتی تھیں۔ مگر جب صنعتی یونٹس نے اپنے آبی فضلے کا اخراج ان زرخیز زمینوں میں کرنا شروع کیا تو ان زمینوں نے بھی اپنی زرخیزی اور اپنی زندگی کھو دی۔
مگر بدترین تو ابھی آنا باقی تھا۔
1998ء میں لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ خبریں نے رپورٹ کیا کہ اس علاقے کے کلالاں والا گاؤں میں پڑھنے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد میں ہڈیوں کی ساخت متاثر ہو رہی ہے۔ شروع میں تو لوگوں نے خبر کو سنسنی خیز انداز میں پیش کیے جانے کی وجہ سے تسلیم کرنے سے انکار کیا مگر جب ایسی ہی کہانیاں دیگر اچھی شہرت والے اخبارات میں شائع ہونی شروع ہوئیں تو ہر کوئی حیران رہ گیا۔
اپنی زندگی کی دوسری دہائی کے اواخر میں موجود بشارت علی کلالاں والا کے قریب ایک گاؤں کوٹ اسداللہ میں رہتے ہیں۔ وہ اب سیکڑوں بچوں میں سے ایک ہیں جن کا کیس 1990ء کی دہائی میں رپورٹ کیا گیا تھا۔ یہ سب ٹانگوں میں لنگڑے پن، دانتوں کے سڑنے اور بازوؤں کے مڑنے سے متاثر تھے۔ بڑے ہونے کے بعد بھی ان کی بیماریاں دُور نہیں ہوئیں۔ جب علی چلتے ہیں تو وہ آگے تو بڑھتے ہیں مگر سیدھے نہیں، بلکہ دائیں بائیں ہوتے ہوئے۔ وہ کہتے ہیں، "چاہے بچے ہوں یا بڑے، ہم سب کو جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ ہمیں اٹھنے اور بیٹھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اکثریت کو دانتوں کے مسائل کا سامنا ہے۔"
اس علاقے میں ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماری کے عام ہونے کے انکشاف کے فوراً بعد کئی سرکاری ٹیمیں، غیر سرکاری تنظیمیں اور صحافی کلالاں والا اور کوٹ اسداللہ پہنچ گئے۔ کچھ نے ٹیسٹنگ کے لیے مٹی اور پانی کے سیمپل لیے، کچھ نے تکلیف اور پریشانی کی روئیدادیں اکھٹی کرنی شروع کیں اور ایک تیسرے گروپ نے ایک عارضی میڈیکل کیمپ قائم کیا تاکہ جو طبی سہولیات ممکن ہوں، وہ فراہم کی جائیں۔ اُس وقت میاں شہباز شریف کی زیرِ سربراہی حکومتِ پنجاب نے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں بھیجا تاکہ ان کی سرجریاں اور دیگر علاج کیے جاسکیں۔ علی خود کو ان بچوں میں سے ایک ہونے پر خوش قسمت تصور کرتے ہیں۔
کلالاں والا اور کوٹ اسداللہ کے رہائشی اس ادارہ جاتی میوزیکل چیئر کے ختم ہونے کے لیے کتنا انتظار کریں؟
مٹی اور پانی کے تجزیے سے سامنے آیا کہ کلالاں والا، کوٹ اسداللہ اور علاقے کے دیگر دیہات کو دستیاب پینے کے پانی میں انسانی صحت کے لیے مضر آرسینک، فلورائیڈ اور دیگر دھاتوں اور منرلز کی بہتات تھی۔ اس انکشاف کے فوراً بعد صوبائی انتظامیہ نے وعدہ کیا کہ دونوں دیہات میں بغیر کسی تاخیر کے پانی کے فلٹر پلانٹ نصب کیے جائیں گے۔
مگر بعد میں یہ مسئلہ جلد ہی اخبارات کے اندرونی صفحوں پر منتقل ہوگیا۔ صوبائی حکومت کی توجہ بھی اپنے سامنے موجود دیگر مسائل، بشمول اپنے وجود کو لاحق خطرے کی جانب منتقل ہوگئی جس کا خاتمہ بالآخر اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے ہاتھوں ہوا۔ دونوں دیہات میں زہریلے پانی کے مسئلے کو سامنے آئے ہوئے اب تقریباً 20 سال ہوچکے ہیں مگر اب بھی یہاں کوئی کارآمد فلٹر پلانٹ موجود نہیں ہے۔ علی کہتے ہیں "صورتحال چنداں بہتر نہیں ہوئی ہے۔"
کلالاں والا میں زرعی اور صنعتی دھوئیں، ابتدائی سردیوں کی دھند اور عمومی ماحولیاتی آلودگی کے زہریلے ملغوبے اسموگ کی ایک موٹی چادر عجیب انداز میں چلتے ہوئے چند کمزور جسم برآمد ہوتے ہیں۔ نومبر کی اس صبح وہ اپنی منزل کی جانب لنگڑاتے ہوئے چل رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر قریبی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ دوسروں کے پاس دفتروں کی ملازمتیں، چھوٹی دکانیں اور کاروبار ہیں۔ اس علاقے میں اور اس کے آس پاس زراعت ختم ہوچکی ہے۔ کچھ مقامی رہائشیوں نے اپنی زمینیں اس واٹر اینڈ گولف ریزارٹ کو فروخت کردی ہیں، کچھ دیگر نے انہیں پیسے کے بدلے فیکٹریوں کو بیچ دیا ہے بھلے ہی وہ اپنے پانی اور ماحول کے زہر آلود ہونے کے لیے صنعتوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔
علی کہتے ہیں کہ "لوگوں کو اپنے درد کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔" ان کے طبّی مسائل کی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں ہرچند کہ اتنے تواتر کے ساتھ نہیں جتنی کہ ابتدائی انکشافات کے بعد آیا کرتی تھیں۔ 2000ء میں لاہور کے باہر ملتان جانے والی سڑک پر صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں شامکے بھٹیاں کے کئی رہائشیوں میں ہڈیوں اور جوڑوں کی ساخت متاثر ہونے کے کیسز سامنے آئے۔ علی کے والد نے فیصلہ کیا کہ انہیں ایک بار پھر میڈیا کی توجہ اپنے گاؤں کی جانب مبذول کروانی ہے۔ انہوں نے ایک مقامی رپورٹر سے رابطہ کیا جس نے ایک چھوٹی سی خبر فائل کی جو علی کی تصویر کے ساتھ ایک اردو اخبار میں شائع ہوئی۔ علی کے پاس ان دنوں کی یہ اکلوتی تصویر ہے۔ وہ اس میں مڑے تڑے ہوئے سے نظر آتے ہیں۔
جب یہ مسئلہ دوبارہ شہہ سرخیوں میں آیا تو اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد صفدر نے علاقے کا دورہ کیا اور کوٹ اسداللہ میں فلٹر پلانٹ کی تنصیب کا وعدہ کیا۔ پلانٹ ایک سال سے بھی کم عرصے میں نصب ہوگیا مگر اس نے جلد ہی کام کرنا بند کردیا۔ اب اس کی اداس باقیات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات سے کچھ ماہ قبل کلالاں والا میں ایک اور فلٹر پلانٹ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا افتتاح اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال نے کیا تھا۔ یہ کچھ عرصہ چلتا رہا مگر پھر دیکھ بھال اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوگیا۔ اب یہ گاؤں کے بیچوں بیچ تباہ حال کھڑا ہے۔
اس سال کے اوائل میں پنجاب ہاؤسنگ، اربن ڈیولپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ ضلع قصور، جس کی حدود میں کلالاں والا اور کوٹ اسداللہ آتے ہیں، کے ایک سینئر افسر ناصر اقبال نے دونوں دیہات کا دورہ کیا اور مقامی افراد کو بتایا کہ صوبائی حکومت کا خادمِ پنجاب صاف پانی پروگرام جلد ہی ان کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی والا ایک فلٹر پلانٹ نصب کرے گا۔ انہوں نے ایک مقامی سیاست دان سے وعدہ کیا کہ پلانٹ زمین سے پانی نکالے گا اور ایک مرکزی لوکیشن سے لوگوں کو پانی فراہم کرے گا اور تمام خطرناک معدنیات، دھاتوں، بیکٹیریا اور دیگر جراثیم کو صاف کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ یہ وعدہ اب بھی وفا ہونے کے انتظار میں ہے۔ علی کہتے ہیں کہ "اگر آپ آس پاس دیکھیں تو 2000ء کے بعد کچھ بھی بہتر نہیں ہوا ہے۔" اگر کچھ ہوا ہے تو یہ کہ دیہات کے گرد صنعتی فضلے اور رہائشی سیوریج کے پانی کا اکٹھا ہونا پہلے سے زیادہ ہوچکا ہے۔
مگر کافی عرصے بعد کچھ تبدیلی آئی ہے اور وہ بھی مکمل طور پر غیر متوقع ذریعے سے۔ فروری 2017ء میں ہیومن نیسیسیٹی فاؤنڈیشن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے مرحوم گلوکار جنید جمشید کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کلالاں والا میں جدید ٹیکنالوجی پر مبنی اور شمسی توانائی سے چلنے والے ایک فلٹر پلانٹ کا افتتاح کیا۔ مگر پھر بھی کئی مقامی شہریوں نے اپنا سابقہ معمول تبدیل نہیں کیا ہے۔ وہ اب بھی گلیوں میں اپنے گھروں کے سامنے جیری کین رکھ کر منگا منڈی کے قریبی قصبے سے موٹرسائیکل رکشوں پر پینے کے پانی کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ان کا پانی لاہور تک سے بھی آتا ہے۔
شہباز شریف کی جانب سے 2008ء میں وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ دوبارہ سنبھالنے سے قبل صوبہ وفاقی حکومت کو ورلڈ بینک سے ملنے والی رقم سے چلنے والے ایک پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے کے تحت فنڈز حاصل کر رہا تھا۔ اس پر عملدرآمد کرنے والا ادارہ پنجاب ہاؤسنگ، اربن ڈیولپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ تھا۔ اگلے 5 سالوں میں صوبے بھر میں محکمے نے بڑی تعداد میں فلٹر پلانٹس لگائے جو پنجاب کی 10 سے 12 فیصد آبادی کو پانی فراہم کر رہے تھے۔ اگر تمام نہیں تو پھر بھی زیادہ تر پلانٹ باقاعدگی سے مرمت اور کم خرچ میں کارآمد رکھنے کے کسی مؤثر طریقہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے ناکارہ ہونے شروع ہوگئے۔
ان میں سے کچھ تو اس لیے ناکارہ ہوگئے کیوں کہ حکومت وہ فلٹر جھلیاں درآمد کرنے کے لیے ادائیگی نہیں کر پا رہی تھی جو فلٹر پلانٹس کو باقاعدگی سے چاہیے ہوتی ہے۔ کچھ کیسز میں پلانٹس کو چلائے رکھنے کا بل اس صوبائی حکومت کے لیے زیادہ ہو رہا تھا جسے لاہور میٹرو بس اور ایسے دیگر منصوبوں کے لیے کسی بھی صورت میں پیسے چاہیے تھے۔ خراب انجینیئرنگ، نقائص سے بھرپور تعمیر اور غیر معیاری تعمیراتی مٹیریل نے بھی ان پلانٹس کی زندگی مختصر کرنے میں کردار ادا کیا۔
جب شہباز شریف نے 2013ء میں تیسری بار وزارتِ اعلیٰ سنبھالی تو وہ پہلے ہی کچھ اور سوچ رہے تھے۔ انہوں نے اس سال آبی مسائل پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ شہری سہولیات بشمول پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے کارپوریٹ طرز کے ڈھانچے متعارف کروائیں گے جو تھکا دینے والے اور قدیم قواعد و ضوابط میں پھنسے ہوئے اور غیر مؤثر افرادی قوت رکھنے والے حکومتی اداروں سے زیادہ مؤثر اور کم قیمت ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ جون 2015ء کے اختتام تک ان کی زیرِ سربراہی پورے صوبے کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہوگی۔
ایک سال کے اندر اندر دوسرے شعبوں میں موجود درجنوں دیگر کمپنیوں کی طرح پنجاب صاف پانی کمپنی بھی وجود میں آگئی۔ کمپنیز آرڈیننس 1984 کی شق 42 کے تحت پنجاب حکومت کی زیرِ ملکیت ایک غیر منافع بخش کارپوریٹ ادارے کے طور پر رجسٹر کی گئی اس کمپنی کو (کاغذی طور پر ہی سہی) ایک چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) نے چلانا ہے جس کا تقرر وزیرِ اعلیٰ نجی شعبے میں پانی کے شعبے میں ان کے تجربے کی بناء پر کریں گے۔ اس کے علاوہ اس پر ایک خودمختار بورڈ آف گورنرز نظر رکھے گا۔ اس بورڈ کے ارکان کو بھی وزیرِ اعلیٰ نجی شعبے سے لیں گے۔
کمپنی پر لازم نہیں کہ وہ اپنے منصوبوں کی منظوری اور ان پر عملدرآمد کے لیے طویل حکومتی قواعد و ضوابط کی پاسداری کرے، کم از کم اس کے قیام کے پیچھے بنیادی منطق تو یہی ہے۔ اسے صرف ایک منصوبے کے پروپوزل کی ضرورت ہوگی، جس پر نظرِ ثانی اور حمایت بورڈ آف ڈائریکٹرز کرے گا اور وزیرِ اعلیٰ معمول کے مطابق ادارہ جاتی راستہ اختیار کیے بغیر براہِ راست اس کی منظوری دیں گے۔ اس پر عملدرآمد کے لیے فنڈز بھی وزیرِ اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز میں موجود دولت سے آنے تھے جنہیں سرکاری زبان میں 'بلاک' ایلوکیشن کہا جاتا ہے۔ طاقت کا وزیرِ اعلیٰ کے ہاتھوں میں ارتکاز کمپنی کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ بظاہر اس کا مقصد کمپنی کو سرکاری سست روی سے بچانا اور فوری فیصلہ سازی کی راہ ہموار کرنا ہے۔
مگر پھر بھی اس طاقت نے ہمیشہ ویسے کام نہیں کیا جیسی کہ اس سے امید کی جا رہی تھی۔ اس کا پہلا اظہار کمپنی کے سی ای اوز کی تقرری کی صورت میں نظر آتا ہے۔ 3 سال کے اندر ان میں سے 4 آئے اور گئے ہیں اور تمام ہی نجی شعبے کے بجائے اسی صوبائی بیوروکریسی سے تعلق رکھتے تھے جسے نااہل غیر مؤثر اور سست رو ہونے کا الزام دیا جاتا تھا۔ اس کا دوسرا اظہار اور بھی پریشان کن رہا ہے: کمپنی کے تصور کردہ منصوبے کا ڈیزائن، اس کی وسعت، اس کی ٹائم لائن اور اس کی مالیات سے متعلق امور اتنی مرتبہ تبدیل ہوئے ہیں کہ اس کی حتمی صورت اس کے ابتدائی تصور سے کوسوں دور ہے۔ اس کا تیسرا اور شاید سب سے پریشان کن اظہار وزیرِ اعلیٰ کی اپنی سوچ اور کمپنی کے مختلف سی ای اوز کی سوچوں میں موجود فرق ہے جس کی وجہ سے اکثر فنڈز لیک ہوئے ہیں اور مختلف کاموں پر عملدرآمد میں زبردست تاخیر ہوئی ہے۔
تو ہم وہیں پہنچ گئے جہاں سے شروعات ہوئی تھی۔
2 جولائی 2015ء کو شہباز شریف لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں اپنے دفتر میں ایک میٹنگ کی سربراہی کر رہے تھے۔ صوبائی حکومت کی کئی اہم شخصیات اس میٹنگ میں شریک تھیں۔ ان میں سابق صوبائی وزیرِ خزانہ اور پنجاب صاف پانی کمپنی کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، وزیرِ اعلیٰ کے اپنے بیٹے اور ایم این اے حمزہ شہباز، جو پنجاب حکومت کے اندرونی واچ ڈاگ پبلک افیئرز یونٹ کے سربراہ ہیں اور کئی دیگر شعبوں کے سیکریٹری اور مشیران موجود تھے۔
پنجاب صاف پانی کمپنی کے سی ای او فراست اقبال نے عہدہ چھوڑنے سے قبل شرکاء کو بتایا کہ صاف پانی کی فراہمی کی 135 اسکیموں کو آزمائشی بنیادوں پر "بہاولپور ریجن میں بحالی" کے لیے 89 کروڑ 60 لاکھ روپوں کی قیمت پر شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ ان اسکیموں کے ٹھیکے مسابقتی بولیوں کے بعد واٹر پمپ بنانے والی لاہور کی ایک کمپنی کے ایس بی کو جاری کر دیے گئے تھے۔ منصوبے کا بنیادی مقصد بہاولپور ڈویژن کی 4 تحصیلوں حاصل پور، منچن آباد، خان پور اور لودھراں میں پانی فلٹر اور فراہم کرنے والی اسکیموں کو بحال کرنا تھا۔ یہ مشرف کے دور میں قائم کی گئی تھیں مگر اب ناکارہ پڑی ہوئی تھیں۔
میٹنگ کے باضابطہ منٹس کے مطابق وزیرِ اعلیٰ نے "خواہش ظاہر کی کہ اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی تھرڈ پارٹی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ یقینی بنایا جائے کہ ٹھیکے دار کو جاری کی گئی تمام رقومات کام مکمل ہونے پر جاری کی گئی ہیں۔" انہوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ "کسی بھی ٹھیکے کا اجراء انہیں ٹھیکیدار کے تعین کے لیے بولیوں کے جائزے کا مرحلہ دکھائے بغیر اور ان کی منظوری لیے بغیر نہ کیا جائے۔"
جائزے کے لیے تھرڈ پارٹی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کی شہباز شریف کی خواہش منصوبے کے ڈیزائن میں ان کی مداخلت تھی۔ بولیوں کے مرحلے اور ٹھیکے کے اجراء میں حتمی فیصلہ کے لیے ان کے ہونے کی خواہش منصوبے پر عملدرآمد میں ان کی مداخلت تھی۔ ان کی ان خواہشات کا دوہرا اثر ہوا: پنجاب صاف پانی کمپنی نے (درآمد شدہ جھلیوں والے) فلٹر پلانٹس کی تنصیب کے سادہ سے منصوبے کا تصور کیا تھا مگر یہ جلد ہی ایک پیچیدہ ڈیزائن میں تبدیل ہوگیا جسے پہلے سے زیادہ دولت اور اس سے بھی زیادہ وقت کی ضرورت پڑنے لگی تھی۔
کمپنی کے ہر سی ای او نے اسے شرمسار ہو کر چھوڑا۔ اس کی شروعات وسیم مختار سے ہوئی جنہوں نے تب اس کی سربراہی کی جب یہ کارپوریٹائز ہونے کے مرحلے سے گزر رہی تھی
وزیرِ اعلیٰ نے یہ بھی اصرار کیا کہ منصوبے پر عملدرآمد حکومتی زبان میں کہیں تو 'ای پی سی موڈ' میں کیا جائے۔ اس طریقہ کار کے تحت کام کر رہے ٹھیکیدار پہلے سے طے شدہ ایک معیاری ڈیزائن کی پابندی کرنے پر مجبور نہیں ہوتے۔ وہ منصوبے کے ہر حصے کے لیے علاقے، موسم اور منصوبے کی سائٹس کے دیگر سماجی اور مادی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی انجینیئرنگ، منصوبہ بندی اور تعمیراتی حکمتِ عملی تیار کر سکتے ہیں۔ ان تبدیلیاں کا نتیجہ اکثر و بیشتر اخراجات میں تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے جس سے منصوبے کی مجموعی لاگت آسانی سے بڑھ جاتی ہے۔
اسی میٹنگ کے آس پاس کے وقت میں فراست اقبال کو ہٹا کر وسیم اجمل کو پنجاب صاف پانی کمپنی کا سی ای او مقرر کر دیا گیا۔ نئے باس بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔
انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کردیا۔ پرانی اسکیمیں بحال کرنے کے بجائے انہوں نے تجویز دی کہ کمپنی 12 سے 15 دیہات کے ایک جھرمٹ کے لیے مرکزی حیثیت رکھنے والی ایک لوکیشن پر نہر کے کنارے ایک ٹیوب ویل اور واٹر فلٹر پلانٹ نصب کرے؛ فلٹر شدہ پانی کو ہر گاؤں میں کسی ایک لوکیشن تک پائپ کے ذریعے پہنچایا جائے جہاں دیہاتی اسے آسانی سے حاصل کرسکیں۔ دیہاتی ڈیلیوری چارجز کی مد میں معمولی رقم ادا کریں گے جبکہ حکومت ٹیوب ویل چلانے اور فلٹر پلانٹ کی مرمت و دیکھ بھال کے اخراجات برداشت کرے گی۔ فلٹر پلانٹ مقامی ٹیکنالوجی پر مبنی ہونا تھا کیوں کہ پچھلے فلٹر پلانٹس کی ناکامی کی سب سے زیادہ بتائی گئی وجہ ان میں مہنگی، درآمد شدہ جھلیوں کا استعمال تھا۔ کمپنی نے یہ بھی تصور پیش کیا کہ پانی کی فراہمی کی تمام اسکیمیں ایک ہی معیار کی پابندی کریں گی اور کسی بھی اسکیم میں کوئی زیادہ بڑی تبدیلی نہیں ہوگی۔ وزیرِ اعلیٰ ان میں سے کسی بھی چیز کے حق میں نہیں تھے۔
جب تک کے ایس بی نے منصوبے پر کام شروع کیا تب تک اس کا پورا تکنیکی اور مالیاتی ڈیزائن تبدیل ہوچکا تھا۔ کمپنی کو بہاولپور ڈویژن کی 4 تحصیلوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے ریورس اوسموس اور الٹرا فلٹریشن پلانٹ لگانے تھے تاکہ نمکین پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکے۔ پلانٹس کو دیہات کے جھرمٹ کے بجائے ہر گاؤں میں ہونا تھا۔ جب تک کے ایس بی نے کام شروع کیا تب تک منصوبے کی کُل لاگت 1.13 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی۔
پنجاب صاف پانی کمپنی نے 1 اپریل 2015ء کو پنجاب بھر کی 17 تحصیلوں میں منصوبے کے اگلے فیز کے لیے غیر ملکی اور مقامی کمپنیوں کی بولیاں طلب کرنے کے لیے اشتہار جاری کیا۔ اشتہار سے شروع ہونے والے مرحلے کے نتیجے میں 5 کمپنیاں شارٹ لسٹ ہوئیں جنہوں نے 35 سے زائد اسکیموں پر کام کرنا تھا۔ مگر یہ پیش رفت جلد ہی تتر بتر ہوگئی۔ 19 فروری 2016ء کو شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والی میٹنگ کے منٹس میں تحریر ہے کہ "اس حوالے سے سخت تحفظات تھے کہ مبینہ طور پر ان کمپنیوں نے بولیوں کا مرحلہ دھاندلی کے ذریعے اپنے حق میں پلٹایا تھا۔" اس دھاندلی کا ایک ثبوت پتوکی تحصیل کے تینوں ٹھیکوں کے لیے دی گئی بولی ہے جس میں انجینیئرنگ کے اخراجات کا اندازہ ایک ارب روپے سے زائد کا لگایا گیا ہے، جبکہ بولی لگانے والی کوئی بھی کمپنی حکومتی قواعد کے تحت اتنی مالیت کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے اہل نہیں تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پنجاب صاف پانی کمپنی نے وہ راستہ اپنایا جسے وہ "پوسٹ کوالیفیکیشن" مرحلے کا نام دیتی ہے۔ اسے "وقت بچانے، مزید فرمز کو دعوت دے کر زیادہ شفافیت پیدا کرنے اور اصول تبدیل کرنے کے لیے اپنایا گیا تھا" تاکہ بڑے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے والی کمپنیاں اس میں حصہ لے سکیں۔
کمپنی کے سی ای او نے میٹنگ کو بتایا کہ یہ اقدامات کئی انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹس اور ڈونر اداروں میں "عمومی معمول" تھے جبکہ یہ حکومت کے جاری کردہ ٹھیکوں پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے پنجاب پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی تھے۔
وزیرِ اعلیٰ نے اتفاق کیا کہ اس میں خریداری کے ضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے مگر انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ مزید فرمز کی شمولیت کے لیے "پری کوالیفیکیشن روٹ" اختیار کرنا زیادہ بہتر ہوتا کیوں کہ یہ پنجاب میں جاری تمام میگا پراجیکٹس کا خاصہ تھا۔ انہوں نے وزیر اور سیکریٹری پنجاب ہاؤسنگ، اربن ڈیولپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ اور پنجاب صاف پانی کمپنی سے منسلک دیگر افسران کے "غیر ملکی دوروں کے باوجود" ٹھیکوں میں "غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے عدم دلچسپی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔" انہوں نے "کہا" تھا کہ کمپنی کو "چھوٹے ٹھیکے ملا کر بڑے ٹھیکے بنانے" کی ضرورت ہے تاکہ آبی شعبے کی "شہرت یافتہ برانڈز" کی بین الاقوامی فرمز کو "راغب" کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب صاف پانی کمپنی کو بولیوں کے مرحلے میں "ان کمپنیوں کو لانے کے لیے ایک حکمتِ عملی بنا لینی چاہیے تھی" اور مشورہ دیا کہ "مختلف ممالک میں بین الاقوامی روڈ شوز کیے جائیں" تاکہ "ان کمپنیوں تک پیغام پہنچایا جاسکے۔"
اس وقت پنجاب صاف پانی کمپنی کے سی ای او وسیم اجمل نے 27 فروری 2016ء کو شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والی ایک اور میٹنگ کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ٹھیکوں کے اجراء کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کو "سفارش کردہ ٹھیکیداروں کے تجربے اور قابلیت" میں "کوئی پریشان کن چیز" نہیں ملی۔ اجمل نے کہا کہ ٹھیکوں کے اجراء کے لیے اپنایا گیا مرحلہ "قانونی، شفاف، قابلِ اعتماد اور خریداری کے ضوابط سے ہم آہنگ" تھا۔ انہوں نے وہ بات بھی دہرائی جو وزیرِ اعلیٰ پہلے کہہ چکے تھے یعنی "مستقبل میں" بین الاقوامی فرمز کے ساتھ مل کر "بڑے منصوبے" تیار کیے جائیں مگر یہ ایک ایسی رعایت تھی جو وہ صرف تب دینے کے لیے تیار تھے جب زیرِ بحث منصوبہ منظور ہوجاتا۔
شہباز شریف نے اپنی رائے بدلتے ہوئے اب کی بار منصوبے کی بڑھتی ہوئی لاگت پر تنقید کی۔ یہ 121 ارب روپے کے ابتدائی تخمینے سے بڑھ کر 190.34 ارب روپے تک جا پہنچی تھی۔ شہباز شریف نے اجمل کو حکم دیا کہ وہ 3 دن کے اندر اندر "تفصیلی رپورٹ جمع کروائیں" جس میں لاگت میں اضافے کی توجیہہ پیش کی جائے۔ مگر انہوں نے پھر بھی ٹھیکوں کے اجراء کو "افسردہ دل" کے ساتھ اور "ایک مرتبہ کا کیس" تصور کرکے منظور کردیا مگر شرط رکھی کہ وہ بذاتِ خود "منصوبے پر عملدرآمد کا گہرائی سے جائزہ لیں گے" اور یہ کہ تمام کاموں کی تیسرے فریق سے سخت جانچ پڑتال کروائی جائے گی۔
اس سے پہلے کہ ان کی یہ مشروط منظوری باقاعدہ صورت اختیار کرتی، وزیرِ اعلیٰ نے ایک اور پانسہ پھینکا۔
انہوں نے 1 مارچ 2016ء کو ویڈیو لنک کے ذریعے ایک اعلیٰ سطح میٹنگ کی صدارت کی۔ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین نے میٹنگ کو بتایا کہ پاکستان میں آبی شعبے کے کئی پراجیکٹس پر کام کر رہی چینی کمپنی سائنو ہائیڈرو کارپوریشن لمیٹڈ کو پنجاب صاف پانی کمپنی اور پتوکی تحصیل میں صاف پانی کی فراہمی کی اسکیموں کے لیے "آفر کیے جا رہے ٹھیکوں پر بریفنگ" دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "سائنو ہائیڈرو نے چھوٹے ٹھیکوں میں بھی شرکت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔" شہباز شریف نے چیئرمین کو حکم دیا کہ وہ "سائنو ہائیڈرو سے مذاکرات کے لیے چین کا دورہ کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دیں۔"
پنجاب صاف پانی کمپنی کے ریکارڈ دکھاتے ہیں کہ اب تک اس کے کُل اخراجات 3 ارب روپے سے کچھ کم ہیں۔ مگر پھر بھی کمپنی کے پاس دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے چین میں روڈ شوز کے انعقاد "کی تجویز سے اتفاق کیا" اور "دبئی میں بھی جہاں تمام بڑی بین الاقوامی کمپنیاں شرکت کر سکتی ہیں۔"
یہ تمام میٹنگز اس منصوبے کو واپس ڈرائنگ ٹیبل پر لے گئیں۔ بولیوں کا جو مرحلہ جاری تھا اسے وزیرِ اعلیٰ کی مشروط منظوری کے باوجود ختم کردیا گیا اور غیر ملکی کمپنیوں کو متوجہ کرنے کے لیے نئی کوششیں شروع کر دی گئیں۔
اگر 29 اپریل 2016ء کو ہونے والی میٹنگ کے منٹس پر یقین کیا جائے تو چین میں ہونے والے روڈ شوز بے انتہا کامیاب تھے۔ میٹنگ کے شرکاء کو بتایا گیا کہ روڈ شوز میں "شنگھائی میں 48 اور بیجنگ میں 22 کمپنیوں نے شرکت کی" اور پنجاب صاف پانی کمپنی "کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی دکھائی۔" اپنی بریفنگ میں اجمل نے کہا کہ "اچھی ساکھ رکھنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کو متوجہ کرنے کے لیے" ہر ٹھیکے کے سائز "کا تعین کرلیا گیا ہے" اور یہ 10 ارب روپے ہوگا۔
اس وقت تک شہباز شریف کے ذہن میں دیگر تحفظات پیدا ہوچکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں منصوبے کے شروع میں بتایا گیا تھا کہ پورے پنجاب کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے 70 ارب روپے چاہیے ہوں گے "مگر اب یہ [118 ارب روپے تک بڑھ کر] 12 ضلعوں کی 35 تحصیلوں کے لیے ہے۔" انہوں نے پنجاب صاف پانی کمپنی کو ہدایت کی کہ "تمام تخمینوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور لاگت میں اس اضافے کی ٹھوس توجیہہ پیش کی جائے۔"
اجمل نے بتایا کہ لاگت میں اضافے کی 2 بنیادی وجوہات تھیں: فلٹر پلانٹس کو بجلی فراہم کرنے کے لیے سولر پینلز کا اضافہ اور پلانٹس کے کام شروع کرنے کے 5 سال بعد ان کے مرمتی اخراجات۔ وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ "سولر پینلز کا ویسے بھی دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے کیوں کہ ان کی دیکھ بھال کے اخراجات زیادہ ہیں اور اگلے چند سالوں میں بجلی کی رسد میں اضافے کی توقع ہے۔" کچھ ماہ بعد وہ شمسی توانائی کو کسی اور وجہ سے مسترد کرنے والے تھے۔
7 مئی 2016ء کو ہونے والی ایک میٹنگ میں اجمل نے بتایا کہ منصوبہ 3 فیز میں تقسیم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلند ترجیح والی 33 تحصیلوں میں پہلے 117 ارب روپے کی لاگت سے کام کیا جائے گا۔ دوسرے فیز میں 50 ارب روپے اور تیسرے فیز میں 133 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ "منصوبے کی کُل لاگت 300 ارب [روپوں] تک پہنچ سکتی ہے۔"
پیش کیے جا رہے مختلف اعداد و شمار سے یہ واضح تھا کہ منصوبے کی وسعت اور اس کی لاگت کے متعلق الجھنیں اور تحفظات کافی کھل کر سامنے آ رہے تھے۔
شہباز شریف نے ایک اور پانسہ پھینکا جس نے الجھن میں مزید اضافہ ہی کیا۔ انہوں نے پنجاب صاف پانی کمپنی کے ساتھ کام کر رہے انجینیئرنگ منیجمنٹ کنسلٹنٹس کی جانب سے منصوبے کی مالیاتی، سماجی اور ماحولیاتی لاگت پر کی جا رہی تحقیقوں پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ان کے کام کی "ایک آزاد اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کنسلٹنٹ فرم سے جانچ کروائی جائے۔" اسی دوران وہ نہایت سخت ڈیڈلائنز دینے لگے تھے: وہ پہلے فیز پر کام کی ابتداء مئی 2016ء میں اور اس کی تکمیل دسمبر 2017ء میں چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرے اور تیسرے فیز بالترتیب فروری اور اپریل 2018ء تک مکمل ہوجانے چاہیئں۔ اجمل کی دلیل یہ تھی کہ یہ ڈیڈلائنز صرف تب پوری کی جاسکتی تھیں جب کام فوراً شروع ہوجاتا اور مطلوبہ فنڈز فوراً دستیاب ہوجاتے۔
واضح تھا کہ دونوں اشخاص ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔
میٹنگ کے بعد غیر ملکی اور قومی اخبارات میں ایک اور اشتہار 17 مئی 2016ء کو شائع ہوا جس میں مقامی اور غیر ملکی فرمز سے ٹھیکوں کے لیے بولیاں طلب کی گئی تھیں۔ بولیاں جمع کروانے کی آخری تاریخ 17 جون 2016ء تھی۔ وزیرِ اعلیٰ نے ہدایت کی کہ چین، ترکی، امریکا اور یورپی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں "سے رابطہ قائم کیا جائے تاکہ آبی شعبے میں کام کر رہی اچھی اور مشہور کمپنیوں کو متوجہ کیا جا سکے۔"
ٹینڈر جمع کروانے کی ڈیڈلائن آئی بھی اور چلی بھی گئی۔ ڈیڈلائن کے دن ہونے والی میٹنگ کو بتایا گیا کہ 33 کمپنیوں نے بولیوں کی دستاویزات خریدی تھیں۔ وزیرِ اعلیٰ مکمل طور پر مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے پنجاب صاف پانی کمپنی کو ہدایت دی کہ "یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی غیر معیاری کمپنی" بولیوں کے مرحلے کے لیے شارٹ لسٹ نہ ہونے پائے۔ انہوں نے دیگر سینئر حکام کو بھی ہدایت کی کہ وہ "یقینی بنائیں کہ صرف اعلیٰ درجے کی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنیاں" ہی شارٹ لسٹ ہو پائیں۔
کچھ اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بولیوں کا مرحلہ اس لیے تعطل کا شکار ہوا کیوں کہ ایک فرانسیسی کمپنی 'ونسی کنسٹرکشن' نے وزیرِاعلیٰ تک ان کے سابق ساتھی ڈاکٹر توقیر شاہ کے ذریعے رسائی حاصل کرکے بولیوں کے مرحلے میں شرکت میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ڈیڈلائن میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ اس فرم کے پاس پاکستان میں کام کرنے کا تجربہ ہے اور اس نے فیصل آباد شہر کا فراہمی اور نکاسی آب جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد دی ہے۔ 20 دن کی توسیع کردی گئی مگر کمپنی نئی ڈیڈلائن میں تمام دستاویزی لوازمات پوری کرنے میں ناکام رہی اور تکنیکی پروپوزل کے بغیر صرف مالیاتی پروپوزل جمع کروایا۔ بولیوں کا مرحلہ ایک بار پھر رُک چکا تھا۔
بولی کے لیے جو فرمز کوالیفائی کر پائیں، انہیں شارٹ لسٹ کرنے کا مرحلہ 23 جولائی 2016ء تک بھی مکمل نہیں ہو پایا تھا جب صوبائی چیف سیکریٹری نے شرکاء کو بتایا کہ 64 بین الاقوامی کمپنیوں نے بولیاں جمع کروائی تھیں۔ ونسی کنسٹرکشن کی عدم موجودگی سب پر عیاں تھی۔
23 اگست 2016ء تک شہباز شریف کے ذہن میں پنجاب صاف پانی کمپنی کے تمام تر کام کاج پر تحفظات اٹھنے لگے تھے۔ انہوں نے اس میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کا حکم دیا۔ پہلے فیز میں انہوں نے کمپنی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے شمالی اور جنوبی پنجاب میں تقسیم کردیا۔ اس کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیلِ نو کی گئی اور حکومت نے ایک جرمن فرم فکٹنر واٹر اینڈ ٹرانسپورٹیشن کو پنجاب صاف پانی کمپنی کے کام کی جانچ کرنے کے لیے مقرر کردیا۔
وزیرِ اعلیٰ کا کمپنی کے از سرِ نو قیام کا تصور اس وقت واضح ہوا جب انہوں نے پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ سے کہا کہ وہ فکٹنر واٹر اینڈ ٹرانسپورٹیشن کی مدد سے 30 دن کے اندر آبی شعبے کے لیے درمیانے اور طویل مدتی "رسمی" منصوبے تیار کریں اور اس کام کے دوران "پنجاب میں زیرِ زمین پانی کی دستیابی اور نکاسی آب کے چیلنجز کو مدِ نظر رکھیں۔" یہ مختلف محکموں میں رائج پرانی بیوروکریٹک حکمتِ عملی کی طرف واپسی تھی اور اس کی شروعات اس محکمے سے ہوئی جو پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے ذمہ دار تھا۔ شہباز شریف کسی زمانے میں اسے ترقیاتی منصوبوں میں تیز رفتار پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتے تھے۔
انہوں نے جرمن کنسلٹنسی فرم کے نمائندے کو بتایا کہ ان کی حکومت کنسلٹنسی سے توقع رکھتی تھی کہ وہ پنجاب صاف پانی کمپنی کے منصوبوں کے تمام "حصوں اور مراحل" پر "آزادانہ نظرِ ثانی" کرے۔ انہوں نے فرم کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ "ٹھیکیداروں اور کنسلٹنٹس کی شارٹ لسٹنگ کا جائزہ لے اور پتہ لگائے کہ آیا ان کا تقرر منظور شدہ شرائط و ضوابط کے تحت ہوا ہے یا نہیں۔" یہ اس ادارے کی کارکردگی کے خلاف شہباز شریف کے مکمل عدم اعتماد کا ووٹ تھا جس کا خواب انہوں نے خود دیکھا اور جسے انہوں نے خود قائم کیا تھا۔ کسی جگہ کوئی چیز ایسی تھی جو اب بھی ان کی توقع کے مطابق کام نہیں کر رہی تھی۔
اس کے فوراً بعد 30 ستمبر 2016ء کو ہونے والی میٹنگ میں ان کا مؤقف پہلے سے زیادہ واضح تھا۔ انہوں نے فکٹنر واٹر اینڈ ٹرانسپورٹیشن کو پنجاب صاف پانی کمپنی کی جانب سے انجینیئرنگ منیجمنٹ کنسلٹنٹس کی بھرتی کے مرحلے کا جائزہ لینے/جانچنے کا کہا۔ کنسلٹنسی سے کہا گیا کہ وہ معلوم کرے کہ آیا ان کنسلٹنٹس کے پاس بطور ٹیم لیڈر غیر ملکی ماہرین تھے یا نہیں، اور یہ کہ پنجاب صاف پانی کمپنی جن مقامی کنسلٹنسیز کی خدمات حاصل کر رہی تھی، ان کے پاس غیر ملکی پارٹنر 'لیڈ' میں شامل تھے یا نہیں۔ اگلا منطقی اقدام یہ تھا کہ یہ تحقیقات کی جائے کہ آیا ان کنسلٹنٹس نے ایسے ٹھیکیداروں کو شارٹ لسٹ کیا ہے جو بولی کے لیے مطلوبہ مالی و تکنیکی وسائل رکھتے ہیں۔ اب جب تک کہ فکٹنر واٹر اینڈ ٹرانسپورٹیشن یہ پتہ نہ لگا لیتی کہ کہیں کوئی خرابی نہیں ہے، یہ منصوبہ تعطل کا شکار رہا۔
انہوں نے صرف یہی کام کیا۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ انجینیئرنگ منیجمنٹ کنسلٹنٹس مقامی اداروں کے تھے اور وہ مشترکہ منصوبوں میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور پارٹنر کام کر رہے تھے اور ان کی سربراہی بین الاقوامی ٹیم لیڈرز کر رہے تھے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ وزیرِ اعلیٰ کی صدارت میں ہونے والی کسی بھی میٹنگ کے منٹس میں غیر ملکی یا بین الاقوامی اداروں کو بطور سربراہ پارٹنرز شامل کرنے کی شرط ’موجود نہیں‘ تھی۔
اس نے مزید کہا کہ انجینیئرنگ منیجمنٹ کنسلٹنٹس کی جانب سے تیار کی گئی فزیبلٹی اسٹڈیز "تفصیلی اور کافی جامع ہیں" اور یہ کہ "ان فزیبلٹی اسٹڈیز کے نتائج کی بناء پر ٹھیکیداروں کے پاس" پانی کی ٹریٹمنٹ اور صاف توانائی کے لیے "بہترین تکنیکی حل اپنانے کا امکان موجود ہے"۔ اسی طرح اس نے شارٹ لسٹ ہونے والے ٹھیکیداروں کے حوالے سے خدشات کو بھی مسترد کردیا کہ، ‘یہ 19 ادارے پانی کی ٹریٹمنٹ میں کافی شہرت رکھتے ہیں‘ اور یہ ’دنیا بھر میں پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبوں کو مرتب کرنے، انہیں تکمیل کو پہنچانے اور چلانے کا عالمی تجربہ رکھتے ہیں۔‘
کوئی بھی وزیرِ اعلیٰ کے ذہن کو پڑھ نہیں سکتا تھا۔ وہ غالباً ان میں سے کوئی بھی بات قبول نہیں کرنے والے تھے۔
6 نومبر 2016ء کو ان کی زیرِ صدارت ہونے والی میٹنگ میں انہوں نے پوچھا کہ اس منصوبے کے لیے کس قسم کی توانائی کے ذرائع کی تجویز دی جاری ہے۔ اجمل نے جواب دیا کہ چند کمپنیاں ہائبرڈ ذرائع کا مشورہ دے رہی ہیں، یعنی شمسی توانائی اور گرڈ سے حاصل شدہ بجلی یا پھر شمسی توانائی اور جنریٹرز دونوں سے توانائی کا حصول۔ شہباز شریف نے کہا کہ اس منصوبے میں سولر پینل کا استعمال کافی مہنگا پڑسکتا ہے لہٰذا اس پیسے کو پنجاب صاف پانی کمپنی کے کسی دوسرے منصوبے کے لیے بچانا اور استعمال کرنا چاہیے۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو جن کمپنیوں نے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کی تجاویز پیش کی تھیں انہیں اب اپنی تجاویز پر دوبارہ نظرِ ثانی کرنی پڑی اور از سرِ نو تجاویز لکھنی پڑیں، جس وجہ سے ٹھیکے جاری کرنے میں مزید تاخیر ہوئی۔
جس جرمن کنسلٹنٹسی کو انہوں نے خود رکھا تھا اس نے خبردار کیا کہ منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے میں 15 ماہ کا وقت لگے گا۔ اگر یہ دسمبر 2016ء میں شروع ہوتا تو یہ فروری 2018ء میں اپنی تکمیل کو پہنچے گا۔
وزیرِ اعلیٰ نے ناقابلِ توجیہہ طور پر اس مرحلے کو معطل چھوڑ دیا۔ 26 نومبر 2016ء کو میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے بیان دیا کہ منصوبے میں جن مراحل پر عمل کیا جا رہا ہے وہ شاید قانونی ہوں مگر ان کے تحفظات "قانونی ہونے کے بجائے معیاری ہونے" سے متعلق تھے۔ ان کی ترجیح پوری میٹنگ کے دوران سب پر عیاں نظر آئی۔ وہ اس کے علاوہ اور کوئی دلیل سننے کو تیار نہیں تھے۔
کاشف پدھیار، جو اس وقت پنجاب صاف پانی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین کے طور پر کام کر رہے تھے، 19 کمپنیوں کی جانب سے پہلے جمع کروائی گئی بولیوں کے مطابق ٹھیکے جاری کرنے کے حق میں تھے۔ انہوں نے دلیل دی کہ بیرونِ ملک سے نئے ٹھیکیداروں کو شامل کرنے میں "وقت صرف ہوگا" وہ بھی ایسے مرحلے پر جب حکومت "جلد از جلد پانی فراہم کرنے کے" زبردست سماجی دباؤ کا شکار تھی۔
پنجاب پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے دلیل دی کہ جن فرمز نے بولیاں جمع کروائی تھیں "ان کے پاس کوئی جدید یا تخلیقی حکمتِ عملی نہیں تھی" مگر ٹھیکوں کے اجراء کو منظور ہونا چاہیے۔ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین نے بھی ٹھیکوں کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا مگر ان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف تب کیا جائے جب "وقت کی کمی ہو۔"
اجمل نے یہ کہتے ہوئے منصوبے کو بچانے کی عاجزانہ کوشش کی کہ ٹھیکیدار زہریلے ذرات سے پاک پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس لارہے تھے اور شمسی توانائی کا انتظام کر رہے تھے۔ وزیرِ اعلیٰ نے ان کی بات یہ کہتے ہوئے رد کردی کہ یہ پورا منصوبہ پرانے طریقہ کار پر مشتمل ہے جسے کسی دور میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ نے بھی اختیار کیا تھا، وہی طریقہ جسے وہ پنجاب صاف پانی کمپنی کے ذریعے ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اجمل کو حکم دیا کہ سب کچھ دوبارہ سے شروع کیا جائے اور ’دنیا میں موجود پانی کی بہترین کمپنیوں کے ذریعے جدید اور ماڈرن طریقہ کار حاصل کیا جائے اور اختیار کیا جائے‘۔
اگر انہوں نے چند کے نام بھی لیے ہوتے تو ان کے تمام ماتحت افراد دوڑتے ہوئے جاتے اور انہیں لے آتے، پھر چاہے اس کے لیے ٹیکس دہندگان اور سرکاری خزانے کو کتنی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔
اجمل اس وقت تک اپنا راستہ ناپنا شروع کرچکے تھے۔ 31 دسمبر 2016ء کو پنجاب ہاؤسنگ اربن ڈیولپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ نے پنجاب کی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کو خط بھیجا جس میں بیان کیا گیا تھا کہ پنجاب صاف پانی کمپنی کی اعلیٰ انتظامیہ نے ان کے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مناسب انداز میں اور وقتی طور پر مطلع کیے بغیر معاہدے میں شامل منصوبوں کی لاگت کو 121 ارب روپے سے بڑھا کر 194 ارب کرکے کافی مہنگا کردیا ہے۔
خط میں روزنامہ بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والی خبر کا حوالہ بھی شامل تھا اور خط میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کمپنیوں کے انتخاب کے سلسلے میں 13 مئی کو ہونے والی ’بولیوں کے مرحلے پر چند حلقوں کی جانب سے شکوک و شبہات/مسائل اٹھائے گئے تھے‘۔ انسدادِ بدعنوانی حکام سے منصوبے پر عمل درآمد سے متعلقہ کمپنی افسران/عہدیداروں اور انجینیئرنگ منیجمنٹ کنسلٹنٹس (ای ایم سیز) اور تخمینوں میں ممکنہ بدعنوانی یا کرپشن کے خصوصی ریفرنس کے ساتھ‘ تحقیقات کرنے کو کہا گیا۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے فوری طور پر تحقیقات کا حکم دیا اور تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، جس نے یہ پایا کہ ’پنجاب صاف پانی کمپنی نے کے ایس بی کو ’ویدر شیلڈ پنیٹ کرنے کی خاطر غیرقانونی/اضافی طور پر ایک کروڑ 69 ہزار 144 روپے کی ادائیگی کی‘ اور یہ کہ تخمینوں میں اضافے کے لیے بلاجواز اور غیر موافق رسک یا کوسٹ فیکٹرز کے ذریعے قلیل مالی وسائل سے ’وسیع تناظر میں عوام کو محروم کرنے کی کوشش کی گئی‘؛ کہ انتظامی کنسلٹکس کو اقربا پروری کے ذریعے منتخب کیا گیا اور انہیں ان کے مطلوبہ ٹاسک کی تکمیل سے پہلے ادائیگی کی گئی اور یہ کہ کمپنی نے جانچ پڑتال کے لیے مقرر کیے گئے تھرڈ پارٹی کنسلٹنٹ، الفا کنسلٹ کو اپنے بین الاقوامی اسٹاف کے طور پر ’ان کی آمد، قیام اور روانگی کی تفصیلات کی تصدیق کیے بغیر‘ 5 کروڑ 89 لاکھ 95 ہزار روپے کی ادائیگی کی‘ اور یہ کہ معاہدے کے مطابق کم کی گئی شرح کے بجائے’اضافی ادائیگی‘ کی گئی۔
تحقیقاتی رپورٹ کو 5 اکتوبر 2017ء کو حتمی شکل دی گئی اور اس میں 22 افراد کے خلاف مقدمہ داخل کرنے کی تجویز دی گئی۔ ان میں اجمل سمیت پنجاب صاف پانی کمپنی کے دیگر سینئر افسران بھی شامل تھے۔ 25 اکتوبر، 2017ء کے خلاف فراڈ، دھوکہ دہی، جعل سازی، اعتماد کو مجرمانہ طور پر ٹھیس پہنچانے اور فنڈز جیسے دیگر جرائم سے متعلقہ قانونی ضوابط کے تحت اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے دفتر میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
اس معاملے پر مزید تحقیقات اور مقدمہ ہونا باقی ہے۔
ان الزامات کے علاوہ، اس رپورٹ کے لیے جن سرکاری افسران سے انٹرویو کیا گیا انہوں نے الزام عائد کیا کہ چند غیر ملکی کمپنیوں کی وجہ سے منصوبہ کبھی آگے ہی نہیں بڑھ سکا۔ وہ فرمز قانونی طور پر بولیوں کے مرحلے میں حصہ نہیں لے سکتی تھیں لیکن ان کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں موجود بااثر شخصیات اور چند حاضر و سابق سرکاری عہدیداروں کی جانب سے حمایت حاصل تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف ایک ترک کمپنی نے ضلع ساہیوال میں صاف پانی کی اسکیموں کے لیے ایک درخواست جمع کروائی ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اسے حمزہ شہباز کی حمایت حاصل ہے۔ بہرحال اس کمپنی نے کوئی بھی ٹھیکہ حاصل نہیں کیا۔
اس پوری اندرونی گرما گرمی کا بڑا ہی بدترین اثر پنجاب کے لوگوں پر پڑا جو صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ پنجاب صاف پانی کمپنی کو قائم ہوئے 5 برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ صاف پانی کی فراہمی کی اسکیموں کی تعمیر کے لیے کمپنیوں کو مدعو کرنے اور انہیں شارٹ لسٹ کرنے کے مرحلے کو شروع ہوئے 30 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کنسلٹنٹ فیس کے طور پر لاکھوں ڈالرز ادا کیے جاچکے ہیں۔ لاکھوں روپے بیرون ملک دوروں اور روڈ شوز پر خرچ کیے جاچکے ہیں۔ کروڑوں روپے اسٹاف کی تنخواہوں اور اس کے ساتھ ساتھ دفتر اور انتظامی لاگت پر خرچ کیے جاچکے ہیں۔ اب تک صاف پانی کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق مجموعی طور پر 3 ارب سے تھوڑا سا کم خرچہ ہوچکا ہے، لیکن کمپنی کے پاس اتنی رقم کے بدلے میں دکھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔
پنجاب حکومت کے ذرائع اس کا ذمہ دار کمپنیوں کو ہینڈل کرنے کے وزیر اعلیٰ کے انوکھے طرزِ انداز کو ٹھہراتے ہیں۔ ابھی کام ہو رہا ہوتا کہ وہ مقاصد بدل دیتے اور ابھی منصوبہ دستاویزی اور تیاریوں کے مراحلے سے آگے بڑھا ہی نہیں تھا کہ بیرونی کنسلٹنٹ کی جانب سے جائزوں اور مانیٹرنگ کی ایک کے بعد دوسری تہہ چڑھتی چلی گئی۔
اور اسی دوران انہوں نے منصوبے کی تکمیل میں تاخیر اور رکاوٹوں کا ذمہ دار بڑی کامیابی کے ساتھ صاف پانی کمپنی کی اعلیٰ انتظامیہ کو ٹھہرایا۔ کمپنی کے ہر سی ای او نے اسے شرمسار ہوکر چھوڑا۔ اس کی شروعات وسیم مختار سے ہوئی جنہوں نے تب اس کی سربراہی کی جب یہ کارپوریٹائز ہونے کے مرحلے سے گزر رہی تھی، ان سے لے کر فراست اقبال تک، پھر وسیم اجمل سے لے کر خالد شیر دل تک شامل ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کو کمپنی سے نکالا جاتا، ان کے خلاف بطورِ کمپنی سربراہ تحقیقات کا حکم پہلے ہی دے دیا جاتا، البتہ ایف آئی آر صرف اجمل اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج کی گئی۔
حکومتِ پنجاب کے ترجمان ملک محمد احمد خان نے تسلیم کیا کہ اس منصوبے کے کام کرنے کے حوالے سے مختلف رکاوٹیں حائل ہیں مگر وہ پہلے اس کی کامیابی داستان سنانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جنوبی پنجاب میں موجود پائلٹ منصوبے نے اچھے نتائج دیے ہیں۔‘ مسائل اس وقت جنم لینے لگے جب حکومتِ پنجاب نے اس منصوبے کو بڑی سطح پر شروع کرنے کی کوشش کی۔
خان دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب صاف پانی کمپنی کی جانب سے مرتب کردہ منصوبے کے تحت پائپ لائنز بچھانے کا خیال پیش کیا گیا جو صاف پانی کو گھروں تک پہنچاتیں۔ جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ یہ آپشن پہلے سے آباد علاقوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ان کے مطابق مسئلے کا دوسرا تعلق منصوبے کی لاگت میں غیر معمولی اضافوں سے ہے۔ ’[وزیر اعلیٰ کو] اس نوعیت کے منصوبوں میں اپنے ماضی کے تجربے کے باعث پرائسنگ کے اوپر خدشات لاحق تھے۔
خان کے مطابق شہباز شریف نے منصوبے کو مائیکرو مینیج نہیں کیا بلکہ وہ تو صرف یہ یقینی بنا رہے تھے کہ عوام کا پیسہ غلط جگہ پر استعمال نہ ہو۔ خان کہتے ہیں کہ مختلف سی ای اوز کو مقرر کرنے اور تبدیل کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ تھی کہ وہ تمام منصوبے کے ڈیزائن کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہے تھے۔ جبکہ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی جانب سے طاقت کا غلط استعمال کیا گیا۔
انہی وجوہات کی بنا پر وزیرِ اعلیٰ نے تحقیقات کروائی جس میں پتہ چلا کہ ’اجمل نے منصوبے کی لاگت حقیقی لاگت سے 62 ارب روپے زیادہ دکھائی اور کنسلٹنٹس کو مارکیٹ سے زائد فیسوں پر رکھا۔‘ خان نے الزام عائد کیا کہ وہ اور انتظامیہ میں شامل ان کے شریک کار 2 سے 4 کروڑ روپے کی اوور بلنگ میں شامل پائے گے۔
کلالاں والا اور کوٹ اسداللہ کے رہائشی اس ادارہ جاتی میوزیکل چیئر اور طاقتوروں کے درمیان چھڑی جنگ کے ختم ہونے کے لیے کتنا انتظار کریں؟ جواب ظاہر ہے کہ یہی ہوگا کہ جب تک شہباز شریف پنجاب صاف پانی کمپنی کے معاملات میں مائیکرو مینیجنگ کرنا چھوڑ نہیں دیتے۔
اضافی رپورٹنگ بشکریہ ناصر جمال
یہ مضمون ماہنامہ ہیرالڈ کے دسمبر 2017 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے سبسکرائب کریں۔
تبصرے (3) بند ہیں