قومی ہاکی کا عروج اور گوجرہ سے تاریخی ملاپ
دنیا میں ایسے کئی قصبے اور شہر ہیں جو عظیم کھلاڑی پیدا کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر نیو یارک میں ہارلیم کا علاقہ اپنے باکسروں اور باسکٹ بال کھلاڑیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ ایسے بھی قصبے ہیں جنہوں نے معیاری ہاکی کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔ اسپین میں ٹیراسا ایسا ہی ایک قصبہ ہے۔ ہندوستان میں جالندھر کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں سنسارپور اپنے کریڈٹ پر 15 اولمپک میڈل لیے ہوئے ہے۔
پاکستان میں بھی کھیلوں کی ایسی کئی نرسریاں ہیں۔ کراچی میں لیاری کا علاقہ اپنے فٹ بالروں، سائیکلسٹس اور باکسروں کے لیے مشہور ہے۔ آزادی کے بعد کراچی ہاکی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنا۔ بعد میں کچھ دیگر قصبے مثلاً سیالکوٹ اور شیخوپورہ نے بھی معیاری ہاکی کھلاڑی پیدا کیے۔
مگر وہ شہر جس نے پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کو سب سے زیادہ کھلاڑی دیے ہیں، وہ فیصل آباد ڈویژن کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک چھوٹی سی تحصیل گوجرہ ہے۔ یہاں تک کہ اسے تحصیل کا درجہ بھی 1982ء میں دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اسے صرف ایک زرعی گاؤں کے طور پر ہی جانا جاتا تھا۔
1947ء سے قبل گوجرہ میں بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ رہتے تھے جو تقسیم کے وقت ہندوستان ہجرت کرگئے جب کہ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے یہاں آ بسے۔
گوجرہ قصبے (جس کی آبادی ساڑھے 6 لاکھ ہے) میں ہاکی کی کہانی نہایت حیران کن ہے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر تک گوجرہ سے کوئی بھی کھلاڑی قومی ٹیم کے لیے منتخب نہیں ہوا تھا۔ ہاکی میں زبردست دلچسپی میں بیش بہا کردار گورنمنٹ ایم سی ہائی اسکول کا رہا ہے۔ ویسے تو اسکول 19ویں صدی کے اوائل میں قائم ہوا تھا مگر یہاں ہاکی سرگرمیاں تقسیمِ ہند کے بعد ہی شروع ہوئی تھیں۔
پڑھیے: پاکستان ہاکی : عروج اور زوال
اسکول میں فزیکل ٹریننگ کے انسٹرکٹر محمد یعقوب ان مسلم خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے تھے جو مشرقی پنجاب سے گوجرہ آئے تھے۔ انہوں نے 1950ء کی دہائی کے اوائل میں اس ادارے میں شمولیت اختیار کی اور انہیں گوجرہ میں ہاکی کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ خود ہاکی کھلاڑی نہیں تھے مگر انہوں نے تنِ تنہا اسکول کی ہاکی ٹیم تیار کی۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر حاجی منظور نے انہیں اسکول کے فنڈز میں سے ہاکی اسٹکس اور گیندیں فراہم کرکے ان کی حمایت کی۔ مگر پھر بھی ان کی ٹیم کا موازنہ پڑوسی اور کہیں زیادہ وسائل کے حامل فیصل آباد شہر کی ٹیم سے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر ان چیلنجز سے گھبرائے بغیر یعقوب نے اپنی محنت جاری رکھی۔
1950ء کی دہائی میں اکثریتی طور پر اسکول کے طلباء پر مشتمل 2 مزید ہاکی کلب ابھرے۔ ان میں سے ایک کے سرپرست گوجرہ کی ایک نمایاں شخصیت چوہدری بشیر تھے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ بشیر ایک ٹرانسپورٹر بھی تھے اور گوجرہ ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک تھے۔ 1964ء میں انہوں نے گوجرہ ہاکی کلب قائم کیا اور وہاں ہاکی ٹورنامنٹس منعقد کرنے شروع کیے۔ یہ ٹورنامنٹ قومی سطح کا ایک ایونٹ تھا جن میں ملک کی تمام بڑی ٹیمیں شرکت کیا کرتی تھیں۔
بشیر نے گوجرہ ہاکی کلب کی ملک کے دوسرے حصوں میں ہونے والے ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے مالی امداد بھی کی۔ اس طرح گوجرہ میں ہاکی کلچر کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔
آہستہ آہستہ کھیل کا معیار بہتر ہوتا گیا۔ اسکولوں اور کلبز کی ٹیمیں مزید قابل ہوتی گئیں۔ مقامی کھلاڑی اسلم روڈا، جنہوں نے 1968ء میں پاک جاپان سیریز کے لیے قومی ٹیم میں جگہ بناکر اپنے قصبے کا نام روشن کیا تھا، انہیں آگے چل کر گوجرہ کو ہاکی کی وہ زبردست نرسری بنانے میں کردار ادا کرنا تھا جو وہ آج ہے۔ روڈا نے اپنی زندگی گوجرہ ہاکی کلب میں نوجوانوں کو تربیت دینے کے لیے وقف کردی۔
اس کے بعد روڈا کا ساتھ ہاکی کے ایک اور حیرت انگیز کوچ اقبال بالی نے دیا جو 1970ء کی دہائی کے اوائل اور بالخصوص 1973ء کے ہاکی ورلڈ کپ میں فل بیک پوزیشن پر قومی ٹیم کے لیے کھیل چکے ہیں۔ بالی بعد میں بین الاقوامی امپائر بھی بنے۔ ہاکی کے لیے ان کی خدمات سے زیادہ خدمات روڈا کی ہی ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ یعقوب کے لگائے گئے پودے تناور درخت کی شکل اختیار کرگئے۔ گوجرہ کے زیادہ سے زیادہ لڑکوں نے قومی ہاکی ٹیم کی وردیاں پہنیں۔ گول کیپر محمد اسلم گوجرہ کے پہلے لڑکے تھے جنہوں نے تھائی لینڈ میں 1970ء میں ہونے والے ایشین گیمز میں میجر ٹائٹل جیتا تھا، جس کے بعد انہوں نے 1971ء میں اسپین کے شہر بارسلونا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور میجر ٹائٹل جیتا۔
افسوس کی بات ہے کہ 1975ء کے آس پاس روڈا اور بالی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور ان کی راہیں جُدا ہوگئیں۔ اب بالی گوجرہ ہاکی کلب چلانے لگے جبکہ روڈا نے گوجرہ اسپورٹس نامی ایک نئے کلب کی کوچنگ شروع کردی۔ اب یہ اختلافات ایک صحتمند مقابلے میں تبدیل ہوگئے تھے۔
اس دوران میونسپل اسٹیڈیم کو عوامی پارک میں تبدیل کردیا گیا۔ اب گوجرہ کلب گورنمنٹ ڈگری کالج میں پریکٹس کرنے لگا جبکہ گوجرہ اسپورٹس ایم سی ہائی اسکول میں۔
گوجرہ کے وہ پہلے کھلاڑی جنہیں میگا اسٹار کہا جاسکتا ہے، وہ فل بیک منظور الحسن تھے۔ 1973ء سے 1982ء تک وہ پاکستان کے دفاع کا اہم حصہ رہے اور انہوں نے 100 سے زائد گول بھی کیے۔ منظور کو گوجرہ سے تعلق رکھنے والا قومی ٹیم کا پہلا کپتان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
پڑھیے: ہاکی میں نئی روح کیسے پھونکی جائے؟
اگلے اسٹار اور کوئی نہیں بلکہ منظور کے چھوٹے بھائی رشید الحسن تھے جنہوں نے 1979ء سے 1987ء تک کھیلا۔ اس عالمی پائے کے رائٹ ہاف کی الماری میں ہر گولڈ میڈل ہے: اولمپک، ورلڈ کپ، ایشین گیمز، ایشیا کپ، چیمپیئنز ٹرافی اور جونیئر ورلڈ کپ۔ انہوں نے بھی پاکستان کی کپتانی کی۔
1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی پاکستان کی کوئی بھی ٹیم گوجرہ سے نمائندگی کے بغیر ملک سے باہر نہیں گئی۔ 1993ء کے جونیئر ورلڈ کپ میں جو ٹیم دوسرے نمبر پر آئی اس میں 6 لڑکے گوجرہ کے تھے اور اس ٹیم نے مقابلے میں ملک کے لیے آخری میڈل حاصل کیا تھا۔ پاکستان کا آخری بین الاقوامی ٹائٹل 1994ء کا ہاکی ورلڈ کپ تھا جو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہوا تھا۔ اس 16 رکنی اسکواڈ میں 5 کھلاڑی گوجرہ سے تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ 1994ء میں قومی ہاکی ٹیم نے پے در پے 2 عظیم الشان کامیابیاں یعنی چیمپیئنز ٹرافی اور اس کے بعد ہاکی ورلڈ کپ اپنے نام کی تھیں، جس کے بعد حکومتِ پاکستان نے گوجرہ شہر کے لیے مصنوعی ٹرف کی منظوری دی۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ اسٹیڈیم کی ضرورت تھی۔ تعمیراتی کام 2000ء میں مکمل ہوا اور پھر ٹرف بچھایا گیا۔ دونوں بڑے ہاکی کلبز تب سے ٹرف کا باری باری استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن اور تزئین و آرائش کی گئی ہے۔
2010ء میں پاکستان کے سابق ہاکی کپتان اور ورلڈ کپ فاتح طاہر زمان نے بھی اپنی اکیڈمی قائم کی۔ طاہر زمان اولمپیئن ہاکی اکیڈمی گوجرہ میں ہاکی کے تیسرے مرکز کے طور پر سامنے آئی ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ گوجرہ کے ہاکی کلبز اور اکیڈمیوں کو حکومت سے کوئی امداد نہیں ملتی اور یہ اب بھی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔ ان کے اخراجات سابق طلباء کے عطیات سے پورے ہوتے ہیں جو اب مخیر ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں وومین ہاکی طویل عرصے سے کچھ بڑے شہروں تک ہی محدود رہی ہے۔ یہ روڈا تھے جنہوں نے 2005ء میں گوجرہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں میں ہاکی متعارف کروائی۔ ردِعمل حیرت انگیز تھا۔ جلد ہی لڑکیوں نے بھی سبز شرٹس پہننی شروع کردیں اور پاکستان وومین ٹیم کے آخری بین الاقوامی دورے میں گوجرہ سے 8 لڑکیاں ٹیم کا حصہ بنیں۔
80 سینئر اور جونیئر بین الاقوامی کھلاڑی تیار کرنے والے روڈا 2013ء میں انتقال کرگئے۔ ان کی موت کا بڑے پیمانے پر سوگ منایا گیا۔ روڈا کے بعد ان کی جگہ سابق طالبِ علم خاور جاوید نے سنبھالی جو 1990ء کی دہائی میں پاکستان کے بین الاقوامی کھلاڑی تھے، اور تب سے لے کر وہ گوجرہ اسپورٹس کے معاملات چلا رہے ہیں۔ اس عظیم شخص کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کلب اب استاد اسلم روڈا اکیڈمی کے نام سے کام کر رہا ہے۔ بالی جو اب 70 سال کے ہوچکے ہیں، ابھی بھی سرگرمی سے اپنے کلب میں نوجوانوں کی تربیت کر رہے ہیں۔
ہاکی کا یہ کھیل گوجرہ سے تعلق رکھنے والے کئی عظیم کھلاڑیوں کے لیے ملازمت کا ذریعہ بھی بنا۔ ڈومیسٹک منظرنامے مثلاً پی آئی اے، واپڈا، کسٹمز، سوئی سدرن، سوئی ناردرن، پولیس اور آرمی وغیرہ بھی گوجرہ کے کھلاڑیوں کو بھرتی کرتے رہے ہیں۔
فی الوقت پاکستان میں کوئی بھی بڑا چھوٹا قصبہ کسی ایک کھیل کے لیے اتنا تسلیم شدہ نہیں ہے جتنا کہ گوجرہ ہاکی کے لیے۔ یہ گوجرہ کی شناخت اور اس کا فخر ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اس کھیل میں اپنا فخر کھو چکا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 30 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں