کراچی جو اِک شہر تھا (چھٹا حصہ)
یہ اس سیریز کا چھٹا بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں حصہ پڑھیں۔
ملیر کی ایک سنسان گلی میں، شام کے دھندلکے میں، مجھ 14 سالہ لڑکے کو اُس 12 سالہ لڑکی کی محبت کی پیشکش نے ایک عجب سنسنی میں مبتلا کردیا۔ پاکیزہ، خواتین، سسپنس اور سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں میں عشق و محبت کی داستانیں پڑھنا الگ بات تھی، لیکن اس طرح کی صورت حال کا اچانک سامنے آجانا میرے لیے بہت زیادہ ہیجان خیز تھا۔
میں اس لڑکی کے اس جملے سے سٹپٹا گیا اور اسے کوئی جواب دیے بغیر تیزی سے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس نے بھی پھر کچھ نہ بولا اور خاموشی سے میرے پیچھے چلی آئی۔ یہ راز ہم نے سب سے، بلکہ ایک دوسرے سے بھی چھپا کر رکھا۔
کراچی روشنیوں کا شہر تھا، عروس البلاد تھا، ادب و آداب کا مرکز تھا اور ساتھ ہی سیر و تفریح کرنے والوں کے لیے بھی بڑی کشش رکھتا تھا۔ ہمیں تو سیر و تفریح کے مواقع کم ہی ملتے تھے کیونکہ ایک تو ہم ابھی عمر میں چھوٹے تھے، دوسرا یہ کہ گھومنے پھرنے کے لیے جو پیسے چاہیے ہوتے تھے، وہ بھی ہمارے پاس نہیں ہوتے تھے۔ بس کبھی کبھی ہمارے گاؤں سے مہمان آتے تو ان کے ساتھ لٹک کر ہم بھی گھوم پھر آتے تھے۔
کراچی میں سیر و تفریح کے لیے کئی مقامات تھے۔ ان میں ہمارے لیے سب سے اہم کلفٹن کا سرمئی ساحل تھا کہ جہاں ہم ہوا کے تیز جھونکوں میں ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرتے ہوئے نرم روی سے آتی سمندری لہروں سے کھیلتے تھے۔ کلفٹن سمندری ہواؤں کی آماج گاہ ہے اور کراچی کی قدیم آبادیوں کے باسی آج بھی اسے کلفٹن کے بجائے ’ہوا بندر‘ کہتے ہیں۔
70ء یا 80ء کی دہائی میں یہاں ساحل پر پانی میں نصف ڈوبا ہوا ایک پرانا متروک اور زنگ آلود بحری جہاز بھی ٹیڑھا پڑا ہوتا تھا۔ من چلے تیراک اکثر سمندر میں تیرتے ہوئے اس جہاز کے نزدیک چلے جاتے تھے۔ یہ جہاز یہاں کئی سال پڑا رہا، پھر اللہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔ کلفٹن پر ساحل سمندر کے علاوہ ایک اور کشش جہانگیر کوٹھاری پریڈ سے متصل ’جبیس فن لینڈ‘ کے نام سے ایک پلے لینڈ بھی تھا جہاں طرح طرح کے جھولے اور بجلی سے چلنے والی ڈاجنگ کاریں ہوا کرتی تھیں جن کو لوگ الارم بجنے تک آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بے حال ہوجاتے تھے۔
وہیں ’ماہی گھر‘ کے نام سے ایک عدد پُراسرار اور خوابناک مچھلی گھر بھی ہوتا تھا۔ فن لینڈ میں ہوٹل جبیس والوں کا ایک خوبصورت ’سیلف سروس‘ ریسٹورنٹ بھی ہوا کرتا تھا جہاں کھانے پینے کی چیزیں لوگ اپنی پسند کے مطابق ٹرے میں جمع کرنے کے بعد ادائیگی کرتے تھے۔ آج ساحل کلفٹن پر وہ ساری تفریحات تو موجود نہیں، البتہ اُن سب چیزوں کی جگہ پر باغ ابن قاسم کا ایک بے رونق سبزہ زار پھیلا ہوا ہے۔
کلفٹن کے بعد دوسرا اہم مقام جزیرہ منوڑا تھا جہاں جانے کے لیے کیماڑی کی بندرگاہ سے کشتیوں میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ منوڑے کا ساحل کلفٹن کی طرح سرمئی نہیں تھا بلکہ پیلی ریت اور نیلے پانی کی سفید جھاگ والی شوریدہ سر لہروں کی آماج گاہ تھا۔ لیکن یہاں ساحل کی سیر سے زیادہ مزیدار اور سنسنی خیز وہ کشتی کا سفر ہوا کرتا تھا کہ جس میں کیماڑی اور منوڑا کے درمیان سفر ہوتا تھا۔ کیماڑی کے گھاٹ پر بغیر ریلنگ کی خطرناک سیڑھیاں نیچے سمندر کے گدلے اور مچلتے پانی کے اندر تک اترتی چلی جاتی تھی۔
ان سیڑھیوں کے ساتھ بندھی ہوئی لانچیں پانی کی لہروں پر تیزی سے ہل رہی ہوتی تھیں۔ ان ڈولتی کشتیوں میں صرف چھلانگ لگا کر ہی سوار ہوا جاسکتا تھا۔ کشتی کی دیواروں کے ساتھ جڑی ہوئی لکڑی کی نشستیں پُر ہوتے ہی اس کے گھرگھراتے انجن کی آواز بلند ہوجاتی اور وہ پَھٹ پَھٹ پَھٹ پَھٹ کرتی ہوئی گھاٹ سے نکل کر بندرگاہ میں لنگر انداز اونچے اونچے بحری جہازوں سے بچتی بچاتی جزیرہ منوڑہ کی طرف بڑھنے لگتی۔
سمندر کی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا کھا کر سارے مسافر کھل اٹھتے۔ جیسے ہی کشتی منوڑہ کے ساحل پر پہنچتی تو وہاں ایک اور تماشا دیکھنے کو ملتا۔ یہاں گھاٹ کے پاس سمندر کے پانی میں ملاحوں کے لڑکوں نے ایک عجب اچھل کود مچائی ہوئی ہوتی۔ سمندر میں تیراکی اور غوطہ خوری کا مظاہرہ جاری رکھتے ہوئے وہ منوڑہ کی سیر کے لیے آنے والوں کو سمندر میں سکہ پھینکنے کی ترغیب دیتے ہوئے ’پھینکو، پھینکو‘ کی آوازوں کا شور مچا دیتے۔ جیسے ہی کوئی چونّی (25 پیسے) یا اٹھنّی (50 پیسے) کا سکّہ اچھال کر پانی میں پھینکتا، کئی غوطہ خور لڑکے اس سکے کے تعاقب میں پانی میں غوطہ لگادیتے۔
یہ پانی ایسا کوئی صاف شفاف بھی نہیں ہوتا تھا کہ سمندر میں پڑی ہوئی چیزیں اوپر سے نظر آ رہی ہوں۔ دھندلا سا پانی ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چشم زدن میں کوئی نہ کوئی ملاح لڑکا اس سکّے کو اپنے دانتوں میں دبائے پانی سے برآمد ہوتا اور تماشبین حیران رہ جاتے۔ وہ سکّہ ان لڑکوں کا انعام ہوتا تھا۔ شام تک وہ اچھی خاصی کمائی کرکے گھر واپس جاتے ہوں گے۔
اس زمانے میں کیمرہ ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ کراچی کی تفریح گاہوں پر اکثر گشتی فوٹو گرافر فوری تصویر نکالنے والے پولورائڈ کیمرے Polaroid Camera لیے گاہکوں کی تلاش میں گھوم رہے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ منوڑہ کے ساحل پر ہم نے بھی ایک ایسے ہی فوٹوگرافر سے اپنی تصویر کھنچوائی۔ کیمرے کا شٹر دباتے ہی اس کے اندر سے فوراً ہماری رنگین تصویر باہر نکل آئی جسے دیکھ کر ہم تو حیران ہی رہ گئے۔
ان مقامات کے علاوہ چڑیا گھر (گاندھی گارڈن)، مزارِ قائد اور ہل پارک بھی ہم اکثر جایا کرتے تھے۔ چڑیا گھر میں گینڈے والے پنجرے کے سامنے ممتاز محل کا تماشا ہوتا تھا، سر انسان کا دھڑ لومڑی کا (وہ بھی کیا معصوم دور تھا)۔ ممتاز محل کے برابر ایک فوٹو گرافر کی دکان بھی ہوتی تھی جہاں سے ایک دفعہ ہم تینوں بھائیوں نے اپنا بلیک اینڈ وائٹ گروپ فوٹو بنوایا تھا۔ ہل پارک پی ای سی ایچ سوسائٹی کے وسط میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنی سیر گاہ ہے۔ ہل پارک میں اس زمانے میں ایک بھوت بنگلہ بھی ہوا کرتا تھا جس میں اندر گھومتے ہوئے ایک مرتبہ میں اپنے گاؤں سے آئے ہوئے 2 عزیزوں کے ساتھ شدید خوفزدہ ہوا اور پھر ہم تینوں چیختے چلاتے ہوئے باہر بھاگ آئے تھے۔
اس زمانے میں ہاکس بے، سینڈز پِٹ اور پیراڈائز پوائنٹ کے ساحل پر بھی لوگ بہت جاتے تھے لیکن یہ جگہیں چونکہ ہمارے گھر ملیر سے بہت دُور تھیں، اس لیے ہم وہاں بہت کم گئے۔
پیراڈائز پوائنٹ پر ساحلی پہاڑیوں میں پتھر کی ایک بلند و بالا قدرتی محراب ہوا کرتی تھی جس کے نیچے سمندر کی لہریں گرجتی ہوئی آ کر ٹکراتی تھیں اور دھماکہ دار آوازوں کے ساتھ خوب شور مچاتی تھیں۔ ایک وقت آیا کہ یہ قدرتی محراب رفتہ رفتہ خود ہی ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوگئی۔
تفریحی مقامات کے ساتھ ساتھ کراچی میں سنیماؤں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد تھی لیکن چونکہ ہم ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ہمیں سنیما کی وہ لت نہیں لگی جو اس زمانے کے لڑکوں میں عام سی بات تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فلم 1980ء میں گھر والوں کو بتائے بغیر اپنے گاؤں سے آئے ہوئے ایک کزن کے ساتھ صدر پریڈی اسٹریٹ پر ’اوڈین‘ سنیما میں دیکھی تھی۔ اداکار محمد علی، شاہد، بابرا شریف، جمشید انصاری اور دلدار پرویز بھٹی کی اس فلم کا نام ’آگ‘ تھا اور اس میں اے نیّر کا گایا ہوا ایک گانا مجھے آج بھی یاد ہے:
میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دِیپ جلا ہوگا
آج صدر میں ریگل چوک کے قریب یو پی ایس اور اسٹیبلائزر کی ایک کئی منزلہ مارکیٹ ہے اور یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس مارکیٹ کی جگہ کبھی ’اوڈین’ سنیما ہوا کرتا تھا، جس میں 1980ء میں فلم ’آگ‘ لگی تھی۔ آج پریڈی اسٹریٹ پر اوڈین نام کا کوئی سنیما نہیں، بلکہ کسی بھی نام کا کوئی سنیما نہیں، بس ریگل نام کا ایک چوک ہے۔
سنیما کی بات چلی ہے تو بتاتے چلیں کہ اس زمانے میں کراچی میں بہت سارے سنیما ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو سے جب کسی فلم کی گیتوں بھری کہانی نشر ہوتی تھی تو اس پروگرام کے آخر میں جہاں جہاں یہ فلم زیرِ نمائش ہوتی تھی ان سنیماؤں کے نام بھی سنائے جاتے تھے۔ وہ ایک خاصی طویل لسٹ ہوتی تھی۔ سب سے معروف سنیما تو مرکز شہر کے تھے، نشاط، کیپری، پرنس، جوبلی، ریوالی، نشیمن، پلازا، ناز، بمبینو، اسٹار، ریگل، کیپٹل، پیراڈائز، اسکالا، ریکس، ریو، لیرک اور پیلس وغیرہ۔ جبکہ دیگر علاقوں کے نمایاں سنیماؤں میں ملیر کا نفیس اور شبانہ سنیما، شیر شاہ کا رنگ محل سنیما، تین ہٹی کے فلمستان اور ناولٹی سنیما، ماری پور روڈ پر کراؤن سنیما، نرسری پر خیام سنیما، بندر روڈ پر نگار، نگینہ، لائٹ ہاؤس، رِٹز، میجسٹک اور تاج محل سنیما، کورنگی میں غالب، نسیم، زینت اور تصویر محل سنیما وغیرہ۔ ان سنیماؤں میں سے اکثر تو شاپنگ پلازاؤں میں بدل گئے، البتہ کئی اب بھی اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ ویران اور اداس۔
کراچی کی ایک اور تفریح گاہ بھی ہوا کرتی تھی جو بعد میں سیکیورٹی کی نذر ہوگئی، یعنی کراچی ایئرپورٹ۔ اس زمانے میں ابھی جناح ٹرمینل تعمیر نہیں ہوا تھا صرف ٹرمینل وَن تھا۔ ایئرپورٹ میں عوام کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔ جہاز پر سفر کرنے والے تو نیچے لاؤنج میں سے گزر کر جہاز پر تشریف لے جاتے تھے، البتہ جہازوں کے اڑنے اور لینڈ کرنے کا تماشا دیکھنے کے لیے شائقین ایئرپورٹ کی چھت پر چلے جاتے تھے اور وہاں ٹھنڈی ہواؤں کا لطف اٹھاتے ہوئے جالی دار ریلنگ سے لگ کر گھنٹوں کھڑے رہتے۔ دنیا بھر کے جہازوں کے آنے جانے اور بھانت بھانت کے غیر ملکی مسافروں کے گزرنے کا دلچسپ نظارہ کرتے رہتے تھے۔ یہاں ایک ریسٹورنٹ بھی ہوا کرتا تھا جہاں بڑی مزے کی آئسکریم ملتی تھی۔
آئسکریم پر یاد آیا کہ اس زمانے میں کراچی کے کئی علاقوں میں ہینڈ میڈ آئسکریم کی معروف دکانیں ہوا کرتی تھی۔ ہیومور آئسکریم، راجُو آئسکریم، پشاوری آئسکریم، بلوچ آئسکریم، منامہ آئسکریم اور آئس برگ آئسکریم وغیرہ۔ کون آئسکریم بھی جگہ جگہ ملتی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ کراچی کے کئی علاقوں میں یہ اب بھی دستیاب ہیں۔ کارخانوں میں بننے والی آئسکریم میں اس وقت ایم ایف آئسکریم، اسکیمو آئسکریم، اسٹوپا آئسکریم، ایمسنز آئسکریم، اِگلو آئسکریم اور پولکا آئسکریم شامل تھیں۔ والز اور اومور کے آنے میں ابھی کئی سال باقی تھے۔
اسکول میں ایک دن ادارہ قومی بچت والے آگئے۔ وہ بچوں کے اندر بچت کی عادت پیدا کرنے کی مہم پر تھے۔ ادارہ قومی بچت کی ایک برانچ اس وقت ہمارے اسکول کے بالکل سامنے ہوا کرتی تھی۔ برانچ مینیجر صدیقی صاحب ایک شفیق چہرہ شخصیت تھے۔ انہوں نے ہر بچے کو ایک بڑی خوبصورت اور رنگا رنگ خالی البم دی۔ یہ تصویروں والی البم نہیں بلکہ ’سکّوں‘ والی البم تھی۔ ایک البم میں 20 خانے تھے جن میں اگر کوئی بچہ روزانہ 25 پیسے کا ایک ایک سکّہ جمع کرتا رہے تو 20 دنوں میں 5 روپے جمع ہوسکتے تھے۔ بینک اکاؤنٹ بھی 5 روپے میں ہی کھلتا تھا۔ ہم نے خوشی خوشی وہ البم لیے اور میں نے پہلے ہی مہینے 5 روپے جمع کرکے ادارہ قومی بچت میں اپنا اکاؤنٹ کھلوا لیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا بینک اکاؤنٹ تھا۔ اسے میں خاصے عرصے تک چلاتا رہا مگر ایک وقت آیا کہ ادارہ قومی بچت ہی ختم ہوگیا۔
وہ زمانہ اب ہمیں بہت سستا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسکول کے سارے بچوں نے مل کر صرف ایک ایک روپیہ فی کس جمع کیا تھا اور اس معمولی رقم سے بہت سارا چونا خرید کر اور پھر خود ہی برش اٹھا کر پورے اسکول کی دیواروں پر سفیدی کرکے اسے چمکا دیا تھا۔
80ء کے اوائل میں میرے اوپر گھر کے جن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی، ان میں سے 2 قابلِ ذکر ہیں۔ پہلی ذمہ داری تھی گلی کے نکڑ پر موجود کارپوریشن کے نلکے سے گھر کا پانی بھر لانا۔ یہ ایک پورا پروجیکٹ تھا۔ پانی آنے کے وقت کا خیال رکھنا، پانی آنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ کر اپنے کنستروں اور بالٹیوں کو قطار میں لگانا، دیگر پانی بھرنے والوں سے چھوٹی موٹی لڑائیاں کرنا اور پھر پانی سے بھرے کنستروں کو بانس کی بہنگی میں کندھے پر لٹکا کر ہانپتے کانپتے گھر تک پہنچانا۔ بڑی سخت ڈیوٹی تھی۔ میرا روزانہ پانی بھرنے کا یہ سلسلہ سال بھر جاری رہا، حتیٰ کہ ہمارے گھر کو پانی کا ڈائریکٹ کنکشن مل گیا۔ ایک عدد ڈنکی پمپ سے پانی کھینچ کر ہماری ٹنکیاں خود بخود بھری جانے لگیں اور میری اس روز روز کی مشقت سے جان چھوٹی۔
دوسری ذمہ داری تھی ہر ماہ بینک کے سامنے ایک طویل قطار میں لگ کر بجلی اور گیس کے بل جمع کروانا۔ ان بلوں میں ابھی ٹیلی فون کا بل شامل نہیں ہوا تھا کہ ابھی ہمارے گھر کو فون کنکشن ملنے میں کئی سال باقی تھے۔ بل جمع کروانے کا اس وقت یہ نہ صرف واحد ذریعہ ہوتا تھا بلکہ بل ہر بینک میں جمع ہونے کے بجائے مخصوص برانچوں میں جمع ہوتا تھا۔ صبح سویرے، بینک کی بل جمع کرنے والی کھڑکی کھلنے سے بہت پہلے ہی، اس کھڑکی کے سامنے بل جمع کروانے والوں کی قطار لگنا شروع ہوجاتی تھی۔ قطار میں لگنے والے شخص کے پاس بس ایک ہی کام ہوتا تھا۔ خاموشی سے لائن میں لگا رہے اور آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا آگے بڑھتا رہے۔ ہمارا گھر کھوکھراپار کے آخری بلاک میں تھا، جبکہ بل ملیر ٹنکی اسٹاپ پر ایک بینک میں جمع ہوتا تھا۔ میرا اسکول چونکہ دوپہر کا تھا اس لیے میں صبح کے فارغ وقت میں بل لے کر بس کے ذریعے ملیر ٹنکی تک آتا تھا اور بینک کے سامنے لگی طویل قطار میں شامل ہوجاتا تھا۔ اس طویل اور بور وقت کو آسانی سے گزارنے کے لیے میں اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ ضرور لے کر جاتا تھا اور سست روی سے آگے بڑھتی اس قطار میں اپنا وقت مطالعے میں صرف کرتا تھا۔ ایک دن اسی طرح قطار میں لگا ہوا اردو ڈائجسٹ کا کوئی شمارہ پڑھ رہا تھا کہ مجھ سے کچھ پیچھے کھڑے ایک شخص نے سلام کہہ کر مجھے مخاطب کیا اور کہا:
’واہ بھائی صاحب واہ۔ سب سے عمدہ کام تو آپ کر رہے ہیں۔ ہم تو یونہی منہ اٹھائے قطار میں کھڑے ہیں اور آپ ہیں کہ اردو ادب کا مطالعہ کیے جا رہے ہیں۔ کیا کہنے‘۔
وہ حسنین جعفری تھے۔ اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والا ایک زندہ دل دوست کہ جس سے پہلا تعارف بل جمع کروانے والوں کی اس قطار میں ہوا۔ جعفری میرے شوقِ مطالعہ سے متاثر ہوا اور میں اس کے ذوقِ مطالعہ سے حیران۔ ہماری پکّی دوستی ہوگئی۔ اس کا گھر بھی میرے گھر کے قریب ہی تھا۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کراچی آفس میں ڈاکٹر نظر کامرانی کا سیکریٹری تھا اور ساتھ ہی شام کے اوقات میں ایک پارٹ ٹائم نوکری پاری سنز لمیٹڈ میں بھی کرتا تھا۔ (پاری سنز بعد میں فضلی سنز بن گیا)۔
جعفری سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی ہینڈ رائٹنگ بہت خوبصورت تھی۔ تحریر کیا تھی خطاطی تھی۔ جعفری کی خوبصورت تحریر کی وجہ سے مجھ میں بھی خوشخطی کا شوق پیدا ہوا۔ اسے عمدہ کتابیں جمع کرنے کا بھی شوق تھا جو مجھے بھی لاگو ہوگیا۔ اسے شہر کے قدیم گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرنے اور کراچی کے معروف ہوٹلوں اور خوانچوں پر کھانے پینے کی لت تھی، جو مجھے بھی لگ گئی۔
ہماری دوستی کئی سال چلی حتیٰ کہ 90ء کی دہائی کے شروع میں ہم کھوکھراپار سے رفاہ عام سوسائٹی منتقل ہوگئے۔ ہماری ملاقاتیں رفتہ رفتہ کم ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہی ہوگئیں۔ جعفری اب نہ جانے کہاں ہوگا؟ میں سمجھتا ہوں کہ میرا جو بھی ادبی ذوق ہے اور مجھ میں جتنی بھی تحریری صلاحیت ہے، اس میں بھائی جعفری کی دوستی کا (اور بل جمع کروانے والوں کی اس قطار کا) بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
بل جمع کروانے والوں کی اس قطار کا ایک اور منظر بھی یاد آتا ہے۔ ہم جس بینک میں بل جمع کرواتے تھے اس کی بل جمع کرنے والی کھڑکی کے پیچھے جو بینک اہلکار بل لیتے تھے، وہ یوں سمجھیں کہ ہمارے لیے ایک سیلیبرٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ اتفاق سے ان صاحب کی لیاقت مارکیٹ میں چوڑیوں کی ایک دکان بھی تھی۔ صبح کے اوقات میں وہ بل جمع کرتے تھے اور شام کے اوقات میں ملیر کی خواتین کو چوڑیاں پہنایا کرتے تھے۔ ہم جب بھی مارکیٹ جاتے تو ان کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنے ساتھی کو متوجہ کرتے ہوئے یہ ضرور کہتے ’وہ دیکھو، بل جمع کرنے والے صاحب، کیسے مزے سے لڑکیوں کو چوڑیاں پہنا رہے ہیں‘۔ وہ صاحب بھی ان اشاروں کے عادی تھے، کسی کو متوجہ پاتے تو مسکراہٹ سے نواز دیتے یا سلام لے لیتے تھے۔ نہ جانے اب وہ کہاں ہوں گے۔
وہ زمانہ سوشل میڈیا کا تو تھا نہیں۔ بس گلی محلے، اسکول کالج اور آفس کی دوستیاں ہوا کرتی تھیں۔ نہ انٹرنیٹ تھا، نہ ای میل۔ فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ہاں البتہ پڑھے لکھے اور مطالعے کے شوقین لوگ ’قلمی دوستی‘ سے ضرور واقف تھے۔ بچوں اور بڑوں کے اکثر رسالوں میں قلمی دوستی کا صفحہ ضرور ہوتا تھا جس میں ہر ماہ ملکی و غیر ملکی لوگ اپنا نام پتہ خود بھیج کر چھپواتے تھے اور اس بات کے خواہشمند ہوتے تھے کہ لوگ ان سے دوستی کریں اور انہیں خط لکھیں۔
وہ محبت اور باہمی اعتماد کا دور تھا۔ ورنہ آج کے سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو فیس بک کے صرف پاکستان میں اکاؤنٹ کروڑوں ہیں، لیکن ان کی غالب اکثریت وہ ہے کہ جنہوں نے اس پر اپنا ایڈریس اور فون نمبر ظاہر نہیں کیا ہوتا بلکہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اس پر اپنی ذاتی تصویر کے بجائے پھول پودوں اور جانوروں کی تصویر ڈالنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچوں کے رسالے ہمدرد نونہال میں میرے بارے میں جو اولین تحریر شائع ہوئی وہ قلمی دوستی کے صفحے ’حلقہءِ دوستی‘ پر میرا تعارف تھا۔ اس تعارف کے بعد ملک کے مختلف شہروں سے میرے پاس کئی لوگوں کے خط آئے اور قلمی دوستیوں کا یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔
8ویں جماعت کے امتحان میں، مَیں نے اپنے پورے اسکول میں پہلی پوزیشن لی۔ اب ہم 9ویں جماعت میں تھے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ 9ویں جماعت میں آجانا کتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ابھی ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ اسکول کے اندر امتحانات اور بورڈ کے تحت امتحانات میں کیا فرق ہے۔ ہم تو بس اپنے سرکاری اسکول کی پڑھائی اور دوستوں کی محفلوں میں ہی مگن تھے۔ میرا غیر نصابی مطالعہ تو اب بھی جاری تھا لیکن 9ویں جماعت میں آنے تک میں بچوں کے ادب سے کچھ بور سا ہوگیا تھا۔ اس وقت تک میں نے فیروز سنز کے تقریباً سارے ناول پڑھ ڈالے تھے۔ اشتیاق احمد مرحوم کی انسپکٹر جمشید سیریز میں اب دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ساری کلاسک داستانیں مثلاً عمرو عیار کی طلسم ہوشربا، قصہ حاتم طائی، داستان امیر حمزہ، قصہ گل بکاؤلی، سند باد جہازی کے سفر، طوطا کہانی، قصہ چہار درویش، الف لیلہ کی کہانیاں اور غیر ملکی داستانوں میں رابن سن کروسو، ٹارزن، گلیور کے سفر وغیرہ سب چاٹ ڈالے تھے۔
بچوں کے لیے لکھے گئے اے حمید کے سلسلے ’موت کا تعاقب‘ (عنبر ناگ ماریا سیریز) کے 100 حصے پڑھ لیے تھے۔ ماہنامہ ہمدرد نونہال اور ماہنامہ تعلیم و تربیت اب بھی میں باقاعدگی سے خریدتا تو تھا مگر ان کے مطالعے میں دلچسپی کم ہوتی چلی جا رہی تھی۔ بالآخر میں نے اپنی توجہ کو سنجیدہ ادب کی طرف موڑا اور 1981ء میں ایک دن لیاقت مارکیٹ کی معروف دکان ’مسلم بک ڈپو‘ سے ابنِ انشاء کی کتاب ’آوارہ گرد کی ڈائری‘ خرید کرلے آیا۔ 30 سے 35 روپے کی کتاب تھی۔ امّی کی نظر جب اس کتاب پر پڑی تو بہت ناراض ہوئیں۔ کہنے لگیں کہ تمہیں اتنا اس لیے پڑھا رہے ہیں کہ تم آوارہ ہوجاؤ اور یہ اتنی مہنگی اور فضول کتابیں گھر لاؤ۔ پیسے ضائع مت کرو اور اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ امّی بے چاری کو اس وقت کیا معلوم تھا کہ ان کے اس منجھلے لڑکے کا مستقبل ’آوارہ گردی‘ ہی ہے۔
ابنِ انشاء کی اس کتاب نے مجھ پر ایک نئی دنیا کے دروازے کھولے۔ ایشیا، یورپ اور امریکا کے مشہور شہروں، ان کے گلی کوچوں کے احوال اور طرح طرح کے دلچسپ واقعات نے مجھ میں سیاحت کی جوت جگا دی۔ سنجیدہ ادب کا چسکہ لگا تو اب میں اور بھی کتابیں خریدنے لگا، بلکہ اچھی سے اچھی کتابوں کی تلاش میں صدر اور اردو بازار کے چکر بھی لگانے لگا۔ صدر میں ایلفی (زیب النساء اسٹریٹ) پر ادبی کتب کی مشہور دکان ’کتاب محل‘ سے میں نے مستنصر حسین تارڑ کی پہلی کتاب ’نکلے تری تلاش میں‘ خریدی۔ اس کتاب کے کئی ابواب میں نے کافی عرصہ پہلے سیارہ ڈائجسٹ میں پڑھ رکھے تھے۔ اسی طرح شوکت صدیقی کا مشہور ناول ’خدا کی بستی‘ بوہری بازار میں راجہ غضنفر علی روڈ پر مشہور کتاب خانے ’اقبال بک ہاؤس‘ سے خریدا۔ شوکت صدیقی کے اس ناول کی 1975ء میں پاکستان ٹیلی ویژن دوسری مرتبہ ڈرامائی تشکیل کرچکا تھا، اس لیے یہ ناول بہت مقبول تھا۔ زیب النساء اسٹریٹ کا ’کتاب محل‘ تو بعد میں ختم ہوگیا اور وہاں شادی بیاہ کے ملبوسات کی دکان کھل گئی، البتہ غضنفر اسٹریٹ پر ’اقبال بک ہاؤس‘ غالباً اب بھی موجود ہے (یا یہ میری خوش فہمی ہے۔)
9ویں جماعت میں ہمارا اسکول ہمیں لاہور کی سیر کروانے لے گیا۔ کراچی شہر اور صوبہ سندھ کی حدود سے باہر کی دنیا دیکھنے کا یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا۔ لاہور کی ثقافت، لاہور کے آثارِ قدیمہ، لاہور کی سڑکیں، لاہور کے باغات، لاہور کے کھانے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے نیا اور انوکھا تھا۔ میں نے انار کلی بازار میں فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے کتب فروشوں سے اتنی ساری کتابیں خریدیں کہ میرا سوٹ کیس انہی سے بھر گیا اور مجھے اپنے سارے کپڑے نکال کر ایک تھیلے میں ڈالنے پڑے۔ بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالامار باغ، چڑیا گھر، جہانگیر کا مقبرہ، دریائے راوی، ان سب جگہوں کی خوب سیر کی۔ ان سب کے علاوہ لاہور میں ایک اور بھی بات تھی جو اس زمانے میں ملک بھر کے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی، اور وہ تھی لاہور کی فلم انڈسٹری۔ ابھی پاکستانی فلم انڈسٹری کا زوال شروع نہیں ہوا تھا۔ اچھی فلمیں بننے کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ سارے معروف فلمی ہیرو ابھی حیات تھے۔ محمد علی، زیبا، وحید مراد، نشو، شاہد، رانی، ندیم، شبنم، غلام محی الدین، بابرا شریف وغیرہ سب ہی لاہور میں موجود تھے۔
ہمارے کئی کلاس فیلوز نے لاہور کے فلم اسٹوڈیوز کے خوب چکر لگائے اور مشہور اداکاروں سے ہاتھ ملا کر آئے۔ میرے پاس ایک خالی آٹوگراف بک تھی۔ میرا ایک فلمی شوقین کلاس فیلو مجھ سے وہ لے کر گیا اور شام تک تقریباً سارے اداکاروں کے آٹوگراف لے کر واپس آیا۔ مجھے تو اس نے آٹو گراف بک کی بس ایک ہی جھلک دکھائی اور پھر کراچی تک میں اس سے اپنی آٹوگراف بک مانگتا ہی رہ گیا۔ مجھے وہ زندگی بھر دوبارہ دیکھنے کو بھی نہیں ملی۔
لاہور سے واپسی پر ہم سب ڈرگ روڈ اسٹیشن پر ریل گاڑی سے اترے۔ یہاں سے ملیر کینٹ جانے والی لوکل ٹرین پر سوار ہوئے اور میں اپنے استاد حمید صاحب کے ساتھ ماڈل کالونی اسٹیشن پر اتر گیا۔ حمید صاحب مرحوم کھوکھراپار ایک نمبر میں رہتے تھے۔ ہمارے پاس اچھا خاصا سامان تھا اس لیے انہوں نے اسٹیشن سے ایک گدھا گاڑی بک کروائی اور ہم سامان کے ساتھ خود بھی اس پر بیٹھ کر ٹخ ٹخ کرتے گھر پہنچ گئے۔ لاہور سے واپس آکر میں نے اس سفر کی ایک بچکانہ سی روداد لکھ کر ہمدرد نونہال کو بھیجی، جو حیرت انگیز طور پر اگلے ہی مہینے شائع ہوگئی۔ ’لاہور کی سیر‘ گویا میری پہلی تحریر تھی۔
لاہور کے سفر میں اکا دکا دوستوں کے پاس کیمرہ تھا۔ میرے دوست اعجاز کے پاس اس دور کا مقبول کیمرہ Yashica Electro35 تھا۔ اس نے 36 فوٹو والے 2 رنگین فلم رول استعمال کیے۔ واپس کراچی پہنچ کر اس نے فوٹو لیب سے وہ ریلیں دھلوائیں اور پھر کلاس میں آ کر اعلان کیا کہ جو دوست بھی اپنی تصویریں لینا چاہتا ہے وہ اس کے پاس فی پرنٹ 4 روپے جمع کروائے۔ مجھے 3 تصویریں چاہئیں تھیں جن کے 12 روپے بنتے تھے۔ میری منت سماجت پر اس نے ایک روپیہ کم کیا اور مبلغ 11 روپے ادا کرکے وہ تصویریں میرے ہاتھ آئیں جن میں میں بھی موجود تھا۔ میں نے ان تصویروں کو ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا۔ وہ تصاویر آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔
تبصرے (10) بند ہیں