کربلا میں گزارے گئے عشرہ محرم کی چند یادیں
بچپن ہی سے دل میں ایک تڑپ، جنون اور جوش موجود تھا اور سینے میں موجود اس چاہت کی منزل کربلا تھی۔ کربلا (عراق) میں محرم الحرام میں کیسا ہوتا ہوگا؟ بس یہ سوچ اور فکر شدت اختیار کرگئی تو اس ناچیز کو کربلا جانے کی سعادت بھی حاصل ہوگئی۔
2015ء میں 4 محرم الحرام کو ہم کنیکٹنگ فلائیٹ کے ذریعے عراق کے شہر بغداد پہنچے۔ بغداد ائیرپورٹ پر ہم جیسے ہی جہاز سے باہر آئے تو آنکھیں اشکبار ہوگئیں، اس کی وجہ اس زمین سے وابستہ عقیدت و احترام ہے۔
ہم ایک قافلے کے ساتھ عراق آئے تھے۔ قافلے میں موجود حضرات تمام سفر کے دوران رہنمائی کرتے رہے۔ ائیرپورٹ پر انہوں نے اعلان کیا کہ امیگریشن کروا کے آپ لوگ ایک جگہ جمع ہوجائیں تاکہ بسوں میں بیٹھ سکیں، اس سفر میں میرے بھائی اور بھابھی بھی ساتھ تھے، وہ دونوں بھی عراق پہلی بار آئے تھے۔
ائیرپورٹ پر ہی قافلے میں موجود تمام لوگوں نے نمازِ ظہر ادا کی اور اس کے بعد بسوں میں سوار ہوگئے۔ بغداد ائیرپورٹ کے بالکل ساتھ ہی ایک کسٹم کی عمارت ہے۔ حد سے زیادہ بلند اس عمارت کے اوپر 2 جھنڈے لہرا رہے تھے۔ ایک تو عراق کا قومی پرچم تھا جبکہ دوسرے پر غور کیا تو اس پر یا حسین لکھا تھا۔
بغداد سے کربلا تک کا راستہ ویسے تو صرف 112 کلومیٹرز کے لگ بھگ ہے مگر دنیا بھر سے آئے ہوئے زائرین کے رش کے باعث یہ کچھ مزید طویل ہوگیا۔ 47 افراد پر مشتمل ہمارے گروپ میں تمام ہی عمر کے افراد موجود تھے جن میں بچے بوڑھے جوان سب ہی شامل تھے۔ بس میں موجود اچانک ایک نوجوان لڑکے نے استاد سبطِ جعفر مرحوم کا کلام تیز آواز میں لگا دیا۔ جس کے اشعار کچھ یوں ہیں:
اے چاند کربلا کے
تو نے تو دیکھے ہوں گے
اُترے تھے اس زمیں پر
عرشِ بریں کے تارے
اے چاند
اے چاند اس زمیں پر
رکھیو ہمیشہ ٹھنڈک
سوتے جو ہیں یہاں پر
زہرا کے ہیں یہ پیارے
ذرا تصور کریں کہ آپ سر زمین کربلا پر ہوں اور یہ اشعار سن رہے ہوں تو دل کی کیا حالت ہوگی۔
دورانِ سفر عراق میں مچائی جانے والی تباہی کے مناظر بھی آج تک آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں۔ فضائی بمباری سے تباہ ہونے والی گاڑیاں سڑکوں کے کنارے کھڑی تھیں، راستے میں آنے والی ہر عمارت اور گھر پر گولیوں اور مارٹر گولوں کے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نشانات اس ملک کے ناسازگار حالات کا خوب احوال بتا رہے تھے، تاہم عراقی پولیس، فوج اور امریکی فوج کی گاڑیاں بھی جگہ جگہ موجود نظر آئیں، جو مختلف چیک پوسٹوں پر سب کی گاڑیوں کی تلاشی کر رہے تھے۔
تقریباً ڈھائی گھنٹے گزرنے کے بعد قافلے کی رہنمائی کرنے والے حضرت کھڑے ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ آپ لوگ اپنے ہینڈ بیگ اٹھا لیں، ہم کربلا پہنچ چکے ہیں، بس یہیں پر رُکے گی اور ہم اپنے ہوٹل پیدل ہی جائیں گے۔ ہوٹل کو عربی زبان میں فندق کہتے ہیں۔ بسوں سے اترنے کے بعد ہم سب ایک ساتھ پیدل چلنا شروع ہوئے۔ کربلا کی پُر فیض فضاؤں میں ایک الگ ہی اپنایت سی تھی۔
15 منٹ چلنے کے بعد ہم اپنے ہوٹل ’فندق نور الحرمین‘ پہنچے۔ میں نے قافلے کی رہنمائی کرنے والے قاسم بھائی سے پوچھا کہ یہاں سے حضرت امام حسین کا روضہ کتنی دور ہے؟ وہ بولے پیچھے دیکھیں! میں نے گردن گھمائی تو حضرت علی کے فرزند، شیرِ کربلا حضرت عباس علمدار کا روضہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔
برسوں بعد جس منظر کو دیکھنے کی تمنا تھی وہ میرے سامنے تھا۔ میری آنکھیں تَر تھیں۔ پاسپورٹ اور دیگر سامان بھائی کے حوالے کیا اور کمرے کی چابی لے کر فوراً لفٹ میں سوار ہوا، طہارت و وضو کرنے کے بعد ہوٹل سے روضے کی طرف چل دیا۔
اپنے پورے قافلے میں روضہ حضرت عباس کی جانب جانے والا میں پہلا شخص تھا۔ ہوٹل سے نیچے اُترا تو اذان مغرب ہوگئی، میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے صحنِ حضرت عباس میں نماز مغرب پڑھنے کی سعادت ملی۔ حضرت عباس کے روضے کی زیارت کے بعد بہت زیادہ رش اور راستے معلوم نہ ہونے کے باعث میں واپس ہوٹل چلا آیا۔
ہوٹل میں قافلے میں شامل لوگ مقامی عالم دین کے منتظر تھے، جو انہیں امام عالی مقام کے روضے پر لے جانے والے تھے۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی ہم سب قافلے کی صورت میں امام حسین کے روضے کی جانب پیدل روانہ ہوگئے۔
وہ 6 محرم کا دن تھا اور یہ دن کربلا کے سب سے ننھے شہید یعنی امام حسین کے 6 ماہ کے بیٹے حضرت علی اصغر سے منسوب ہے، جنہیں یزیدی فوج نے گلے میں تیر مار کر شہید کردیا تھا۔ ہر جانب عراق سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے زائرین حضرت علی اصغر کو یاد کرکے گریہ و زاری کر رہے تھے۔ رضاکار دودھ اور ٹھنڈے مشروبات کی سبیلیں لگا کر لوگوں کو سیراب کر رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اُن پیاسوں کی یاد میں پانی پیجیے جنہیں 3 دن تک پانی نہیں ملا۔
ہم سب روضہ امام حسین کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ احترام کے اصولوں کے مطابق یہ طریقہ ہے کہ کسی بھی نبی، آلِ نبی ﷺ کے روضے میں داخل ہونے سے پہلے داخلے کی اجازت یا 'اذنِ دخول' لیا جاتا ہے۔
لہٰذا ہم نے عربی میں اذنِ دخول کی دعا پڑھی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آنسو آجائے تو سمجھو اجازت مل گئی۔ ہماری آنکھیں تو روضے کو دیکھ کر پہلے ہی بھیگی ہوئی تھیں، اندر جانے کے بعد تو منظر ناقابلِ بیان تھا۔ وہ منظر، دل میں موجود باتیں، یادیں، دعائیں کچھ بھی یاد نہ رہا۔ ہاں! یاد رہی تو فقط امامِ عالی مقام کی وہ مظلومیت اور تکالیف۔
زائرین کے شدید رش کے باوجود میں امام عالی مقام کی ضریح مبارک تک پہنچ گیا اور جیسے ہی ضریح کو ہاتھوں نے تھاما تو جو کیفیت مجھ پر طاری ہوئی، اسے لفظوں میں لکھنا ناممکن ہے۔ چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ وہاں موجود عملے نے اشارے سے کہا کہ آگے بڑھیں تاکہ اور بھی لوگ زیارت کرسکیں۔ امام عالی مقام کی ضریح مبارک کا جاہ و جلال ناقابلِ بیان تھا اور ایسا کیوں نہ ہو، یہ وہی ہستی ہیں جنہیں پہلی غذا کے طور پر آپ ﷺ کا مبارک لعابِ دہن نصیب ہوا، ان کا مبارک نام رسول اللہ ﷺ نے اللہ رب العزت کی جانب سے منتخب کیا اور جو ان سے پہلے اس کائنات میں کسی کے نہیں رکھے گئے تھے۔
یہ وہ معزز سوار ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کے کندھوں پر سوار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے لیے امام الانبیاء ﷺ نے اپنے سجدے طویل کیے۔
اس کے بعد امام حسین کے روضے کے پاس ہی آپ کے بزرگ ترین صحابی و دوست حضرت حبیب ابن مظاہر کی قبر ہے۔ وہ بھی میدان کربلا میں شہید ہوئے تھے، اس کے قریب ہی گنجِ شہیداں کا مقام ہے جہاں کچھ اصحاب امام حسین کے علاوہ سب ایک ساتھ دفن ہیں ان کی زیارت کا بھی شرف حاصل ہوا۔
اس کے بعد امام عالی مقام کے روضے کے ساتھ ہی قتل گاہ کے نام سے ایک جگہ ضریح نصب ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امام عالی مقام کے سر مبارک کو تن سے جدا کیا گیا تھا۔ اس مقام کو دیکھ کر روح کانپ اٹھی اور دل خون کے آنسو روتا رہا، عجیب کیفیت کے ساتھ روضے سے باہر آئے۔
زیارت کے بعد ہم نے بین الحرمین میں بیٹھ کر امام عالی مقام کے فضائل سنے۔ بین الحرمین سے مراد 2 حرموں کے درمیان کی جگہ، پہلا حرم یعنی روضہ حضرت امام حسین اور دوسرا حضرت عباس علمدار کا روضہ ہے۔
اس کے بعد قافلے میں شامل ایک نوحہ خوان نے کربلا میں شہید ہونے والے علمدار، بہادر، غازی، شجاع، جرار، غیر فرار حضرت عباس کی یاد میں نوحہ پڑھا جس نے سب کو آبدیدہ کردیا۔
ہم نے قافلے کی صورت میں ایک بار پھر روضہ حضرت عباس کا رخ کیا۔ روضے کے اندر داخل ہونے سے قبل دروازے کے اوپر ایک مشکیزہ لگا ہوا ہے، جو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ حضرت عباس علمدار بچوں کے لیے پانی لینے گئے مگر یزیدی لشکر نے انہیں شہید کردیا۔
روضے پر اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد میں ہوٹل واپس لوٹ آیا، دل اور روح کافی پرسکون تھے۔ قافلے کے چند ساتھیوں کے ساتھ جب کھانا کھا ہی رہا تھا کہ اتنے میں ڈھول بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ 6 محرم کو ہر سال حضرت علی اصغر کی یاد میں کربلا کے شہری جلوس نکالتے ہیں۔ یہ جلوس اس لیے بھی منفرد تھا کیونکہ اس میں جلوس نکالنے والے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جبکہ چند بڑی عمر کے افراد ٹافیاں بانٹ رہے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بچوں میں کھلونے بھی تقسیم کیے جا رہے تھے، جس کا مقصد ان کے نزدیک بچوں میں کربلا کے 6 ماہ کے ننھے شہید علی اصغر کی یاد کو تازہ کرنا تھا۔
اگلے دن صبح نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن پاک کی، ہائے وہ کیا صبح تھی۔ دل کے اندر سے آہیں نکل رہی تھیں اور مجھے میر انیس کے وہ شعر یاد آ گئے:
چلنا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دمبدم
مرغانِ باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم
وہ آب و تاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پرنہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
ہوٹل پہنچے تو پتہ چلا کہ بس تیار ہے اور اب کربلا میں شہید ہونے والے وہ شہید جو گنج شہیداں میں دفن ہیں ان کے مزارات پر حاضری کے لیے قافلہ روانہ ہو رہا ہے۔ پہلے ہم امام حسین کی بہن بی بی زینب کے فرزند حضرت عون بن عبداللہ کے روضے پر گئے، اس کے بعد حضرت حر اور پھر طفلانِ حضرت مسلم بن عقیل کی زیارت کرتے ہوئے شام کے وقت واپس ہوٹل پہنچے۔
7 محرم الحرام کو امام حسین کے بڑے بھائی امام حسن کے فرزند شہزادہ قاسم کی یاد میں بڑے پیمانے پر جلوس نکل رہے تھے۔ مغرب کی نماز ادا کی اور پھر ہمارا گروپ اطراف کی زیارات کے لیے نکلا۔
ہم تلہ زیبیہ نامی مقام پر پہنچے، جس کے بالکل برابر میں خیمہ گاہ یعنی جس جگہ پر کربلا میں موجود خواتین کے خیمے تھے۔
اسی طرح 8 محرم کو ہم نے کفِ عباس کی زیارت کی۔ کفِ عباس 2 مقامات پر بنا ہے۔ یہ حضرت عباس کی شہادت کی یاد دلاتا ہے کہ جب آپ بچوں کے لیے نہر فرات پر پانی لینے گئے اور پانی بھر کر واپس آرہے تھے تو یزیدی فوج نے ان پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں پہلے آپ کا ایک بازو قلم ہوا اور جس جگہ وہ گرا وہ پہلا کفِ عباس ہے اور جس جگہ دوسرا بازو گرا وہ دوسرا کفِ عباس ہے۔
اس طرح پہلے آپ کے دونوں بازو شہید کیے گئے اور پھر آپ کو بھی ظالم فوج نے شہید کردیا۔ 8 اور پھر 9 محرم بھی گزری۔ 10 محرم کو نمازِ فجر کے بعد سے ہی پورے عراق سے جلوسوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس دن اپنے ہوٹل کے باہر سبیل کا اہتمام کیا اور 3 دن کے پیاسے شہیدانِ کربلا کی یاد میں دن بھر لوگوں کو سیراب کیا۔
اس کے بعد ہم سامرہ، کاظمین، بلد اور نجف اشرف بھی گئے، لیکن اگر حقیقت پوچھیں تو کربلا کی روحانیت نے آج تک مجھ پر اپنے سحر طاری کیا ہوا ہے۔ اس سرزمین کی ایک اپنی الگ کشش ہے، تبھی تو کیا ہندو، کیا عیسائی اور کیا کوئی لادین، ہر کوئی عشقِ حسین میں روضہ حسین تک کھنچا چلا آتا ہے کیونکہ یہ عشق کا سفر ہے جو تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور ایک نجی میڈیا چینل سے وابستہ ہیں۔ جبکہ ریڈیو پاکستان کے نامور براڈکاسٹر یاور مہدی کی شخصیت کے حوالے سے کتاب ’ہم کا استعارہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
تبصرے (22) بند ہیں