تھر میں سبز کھیتوں کی ناکام تلاش
ہم جس گھر میں رہتے ہیں، وہ کسی گلی محلے میں ہوسکتا ہے، گاؤں میں کانٹوں کی باڑ میں بسے ہوئے 10 سے 12 کچے مکانات میں سے ایک ہوسکتا ہے۔ کھیتوں میں بنی ہوئی کٹیا بھی ہوسکتی ہے، جھیلوں کے کنارے کسی خانہ بدوش کی جھونپڑی بھی ہوسکتی ہے۔ گھر بس گھر ہوتا ہے، چاہے اُس کی شکل اور شبیہہ کیسی بھی ہو۔ آنگن چھوٹا سا بھی ہوسکتا ہے اور کسی سخی انسان کے دل جتنا وسیع بھی۔
مشرق سے اُگتی صبح کی لالی، تپتی دوپہر، ڈھلتی شام، بارش اور جاڑے کی صاف شفاف ہوائیں ان آنگنوں کی مہمان ہوتی ہیں۔ ویسے بھی کہاوت ہے کہ مہمان اور بارش کتنا رکیں گے، ابھی ہیں ابھی نہیں ہیں۔ تو یہ ساری کیفیتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ان کیفیتوں کے درمیان زندگی کی چاندنیاں اور شب و روز گزرتے ہیں۔ ان آنگنوں پر نئے وجود جنم لیتے ہیں اور پہلی بار نیلے امبر کو دیکھتے ہیں۔ پھر بڑے ہوتے ہیں اور ان ہی آنگنوں میں آسمان کو آخری بار دیکھ کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اپنے گھر کے آنگن سے اور کوئی چیز مُقدس نہیں ہے۔
برطانوی رکنِ پارلیمنٹ، سفارتکار اور جنوب ایشیائی ممالک پر کئی کتابوں کا مصنف ای بی ایسٹوک 1839ء میں گجرات، پالن پور، کاٹھیاواڑ اور کچھ سے ہوتا ہوا سمندر کے وسیلے سندھ پہنچا۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ ’’میں جیسے جیسے کاٹھیاواڑ کے نزدیک ہوتا گیا تو ملک زیادہ غیرآباد دیکھنے کو ملا۔ ہر گاؤں کے گرد ہڈیوں کے ڈھیر دیکھنے کو ملے، سچ پوچھیں تو خشک سالی اتنی خطرناک تھی کہ پورے ملک کا لائیواسٹاک مر کھپ چکا تھا۔ ملک میں شدید قحط پڑا تھا اور مجبوریاں اتنی تھیں کہ والدین اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے لاتعداد مرچکے تھے اور مسلسل مر رہے تھے۔ اس طرح کی مصیبتیں کاٹھیاواڑ اور کچھ کی طرف آتی رہتی ہیں۔ اگر ہماری حکومت چاہے تو ان کو روکنے کے لیے تدابیر کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس علاقے سے ہر برس 6 لاکھ 80 ہزار کا ٹیکس لیتے ہیں، لیکن اس رقم سے یہاں عوام کے لیے کچھ خرچ نہیں کرتے۔‘‘
یہ 180 برس پرانے منظرنامے ہیں۔ ان 2 صدیوں میں تبدیلی آنی تو چاہیے تھی مگر تھر اور اچھڑو تھر میں شاید کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ روہی، اچھڑو تھر، تھر، کَچھ و کاٹھیاواڑ کا طبعی طور پر ایک ہی بیلٹ ہے جہاں بارش کی نظرِ عنایت کم ہی ہوتی ہے۔ ہاں اگر بادلوں کا موڈ ہوجائے تو تین چار برسوں میں ایک بار دل کھول کر برستے ہیں اور ہم معصوم اتنے کہ ساون کی اس جھڑی کے عشق میں گزرے تین چار برسوں کے ملے ہوئے زخموں کو بھول جاتے ہیں۔ زمین، گھر، آنگن اور ہریالی سے ہمارا عشق اپنی آخری سرحدوں کو چھونے لگتا ہے۔ ایک حوالے سے یہ اچھا بھی ہے۔ ہم اگر زندگی کے دیے ہوئے دردوں کی قبریں بنا کر بیٹھ جائیں تو دل کے آنگن میں دکھ کی اگربتیوں کے سوا کچھ نہیں بچے گا اور قبرستانوں میں کبھی تِلوں کی فصلیں نہیں اُگتیں۔
گزشتہ برس تھر میں خوب بارشیں پڑی تھیں۔ ان دنوں میں جو لوگ بھی تھر گھومنے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں گھومنے گئے، واپسی پر میں نے جس سے بھی پوچھا، کہ تھر کیسا ہے تو سب کے جوابوں کا لُب لباب یہ ہی تھا: ’’کیا بات ہے تھر کی۔ ایک انچ ایسا نہیں جہاں ہریالی نہ ہو۔ حد نگاہ تک بس ہریالی ہی ہریالی۔ ایسا لگتا ہے جیسے چہارسو ہریالی کی چادر بچھی ہے اور وہاں کے رہنے والے بھی بہت خوش ہیں۔‘‘
تھر کے لوگ اکثر بیچارے خوش نہیں رہتے کیونکہ بارش نہیں پڑتی تو اُن کو نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ پینے کے پانی اور جانوروں کے چارے سمیت بہت سارے مسائل۔ اب اگر وہ لوگ خوش ہیں تو یہ سن کر بہت اچھا لگا۔ سو گزشتہ برس تھر بہت خوش تھا۔
مگر میں جب اس برس 19 اگست کو بدین سے مٹھی تھر کے لیے نکلا تو دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ 'پران' سے آگے ریت کے ٹیلے زمین پر جیسے اُگنے لگتے ہیں۔ ان ٹیلوں کے بیچوں بیچ تارکول کی سیاہ سڑک کی لکیر حدِ نگاہ تک چلی جاتی ہے۔ ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے تک اگر دیکھیں تو یہ سڑک جس تیزی سے نیچے جاتی ہے اُس تیزی سے دوسرے ریت کے ٹیلے پر چڑھنے لگتی ہے۔ پھر کچھ آگے چلے تو دور راستے کے جنوب کی طرف والے ٹیلے سے دھواں دکھائی دیا۔ تھر کی صاف شفاف ریت اور آسمان میں دھواں ہونا نہیں چاہیے کیونکہ یہاں تو نہ لکڑیوں کی فراوانی ہے اور نہ کوئی اینٹوں کی بھٹی۔
مگر دھواں تھا کہ پہلے سیدھا اوپر جاتا اور جیسے ہی ٹیلے سے اوپر آتا، ہوا اُسے فضا میں بکھیر دیتی۔ میں اس دھوئیں تک پہنچ کر جاننا چاہتا تھا کہ 'یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے'۔ آپ اور دُوری کے بیچ میں سمے کا جو بہاؤ بہتا ہے اُس میں تجسس کی رنگین و شیریں ڈلیاں بہتی ہیں۔ جب تک آپ وہاں نہیں پہنچتے نہ جانے خیالوں کے کتنے کبوتر آپ کے دل و دماغ کے آسمان پر اُڑتے ہیں۔ 15 منٹ کے بعد ہم جب وہاں پہنچے تو چھپرے کے نیچے لکڑیوں کی بھٹیاں جل رہی تھیں اور ان جلتی بھٹیوں پر لوہے کے بڑے پتیلوں میں سفید دودھ ابل رہا تھا۔
ساتھ میں جو مزدور اس دودھ میں لوہے کا بڑا کف گیر چلا رہے تھے، گرمی کی شدت سے وہ بھی اُبل رہے تھے۔ پھٹے پرانے کپڑے تھے، گرمی اور دھوئیں سے آنکھیں سُرخ تھیں۔ جب قدرتی وسائل سکڑنے لگیں تو زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے کے لیے ہاتھ پیر تو مارنے پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ 40 کلو دودھ سے 7 کلو کے قریب ’کھویا‘ تیار ہوتا ہے۔
کھویا بنانے کے چھپرے کے مالک نے بتایا کہ ''ہم دودھ گاؤں والوں سے لیتے ہیں۔ سردیوں میں دودھ کا ریٹ کم ہوتا ہے اور ان گرمی کے دنوں میں دودھ مہنگا ملتا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ بارشیں تو اس برس جیسے پڑی ہی نہیں، تو ہری گھاس کہاں سے آئے گی جو جانوروں کو کھانے کے لیے دیں گے۔ اس لیے سوکھی گھاس سانگھڑ سے منگوانی پڑتی ہے۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ ایک دو ہفتوں یا ایک ماہ میں یہ چھپرا بند کرنا پڑے گا کیونکہ گزشتہ برس جتنی اچھی بارش پڑی، اس بار یہ سمجھیں کہ بارش پڑی ہی نہیں۔ اس برس سخت اور کالا قحط پڑے گا۔''
چھپرے کا مالک جب یہ باتیں کر رہا تھا تب سارے مزدور اُس کی باتوں کو بڑے غور سے سُن رہے تھے۔ جب مالک نے چھپر بند ہونے کی بات کی تو کچھ لمحوں کے لیے مزدورں کے چہروں پر پریشانی آئی۔ اُن میں سے ایک نے مجھے غور سے دیکھا، مالک کو دیکھا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا۔ ایک گھنٹے کی بات چیت میں یہ پتہ چلا کہ جو مزدور اس آگ کی بھٹیوں پر دودھ اُبالتے ہیں اُن کو 2 وقت کا کھانا چھپرے کا مالک کھلاتا ہے اور ماہوار 8 ہزار روپیہ دیتا ہے۔ مطلب تقریباً 266 روپیہ روزانہ۔
2 وقت کی خوراک میں کون سا پروٹین، فائبر اور دوسرے وٹامنز ہوتے ہوں گے۔ وہی 2 گندم کی روٹیاں اور ساتھ میں گڑ، دال یا آلو کا سالن ہوتا ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ بھی پیٹ بھر کر ملتا ہوگا، کیونکہ جو مزدور دودھ سے کھویا بنا رہے تھے۔ میں نے اُن کی صحت دیکھی۔ اُن کے جسم نحیف اور چہرے پر کوئی رونق نہیں تھی۔ چپلیں اور کپڑے پھٹے پرانے۔ مجھے نہیں لگتا کہ، جس گھر میں 4 آدمی ہوں اُن کے لیے 8 ہزار روپے مناسب رقم ہے۔ بالکل نہیں ہے۔ مگر زندگی ہے تو گزارنی تو ہے۔ انسان کا جیون سچ میں ایک گورکھ دھندا ہی ہے۔ کبیر نے کیا خوب کہا تھا کہ:
رنگی کو نارنگی کہیں بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو گاڑی کہیں دیکھ کبیرا رویا
’قحط‘ اور ’تھر‘ ایک دوسرے کے لیے نئے نہیں ہیں۔ صدیوں سے ان کی آنکھ مچولی ہوتی آئی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کھیل میں اکثر ’قحط‘ جیت جاتا ہے۔ اس کے اسباب قدرتی بھی رہے ہیں اور انسانی بھی۔ تاریخ سے اگر ان قحطوں کے متعلق پوچھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے لوگ خشک سالی سے بچنے کے لیے اناج کا ذخیرہ کرنا جانتے تھے۔ ہم اگر موئن جو دڑو اور ڈھولا ویرا کی کھدائی کے نتیجے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ لوگ موسموں کے غیض و غضب کو جانتے تھے اس لیے اناج کے ذخیرے کے گودام ملے ہیں۔ مغلوں کے دورِ حکومت میں لگان 10 سے 15 فیصد ہوا کرتا تھا، لیکن پھر بھی غلہ بچ جاتا تھا۔
مگر 1765ء میں معاہدہ الہٰ آباد طے پایا، جس کے نتیجے میں شاہِ عالم ثانی نے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیے، جس نے ٹیکس بڑھا کر 50 فیصد کردیا، جس کی وجہ سے حالات انتہائی پیچیدہ ہوگئے، غُربت بڑھ گئی اور بُرے دنوں کے لیے کچھ بچانا ممکنات میں ہی نہیں رہا۔ کارنیلیئس والارڈ کے مطابق ہندوستان میں 2 ہزار برسوں میں 17 مرتبہ قحط پڑا تھا، مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 برسوں میں 34 بار قحط پڑا۔
تھر کا صحرا لاکھوں کلومیٹرز میں پھیلا ہوا ہے، یہ دنیا کا 17واں بڑا صحرا ہے اور سب ٹراپیکل صحراؤں کی فہرست میں نویں نمبر پر آتا ہے۔ اس کا بڑا حصہ یعنی تقریباً 85 فیصد انڈیا اور 15 فیصد ہمارے پاس ہے۔ یہاں قحط آتے رہے ہیں مگر جس قحط کا ذکر سب سے زیادہ پڑھنے اور لوگوں سے سننے کو ملتا ہے۔ وہ 'چھپنو' نامی قحط ہے۔ یہ 1900ء میں پڑا تھا۔ کہتے ہیں کہ مسلسل 10 برس تک چلنے والا یہ بڑا قحط تھا۔ کیونکہ یہ وکرمی برس 1956ء میں آیا تھا اس لیے اس کو ’چھپنو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تھر میں ’قحط‘ لفظ یا اس کا تصور یقیناً کوئی اچھا تصور نہیں ہے کہ اس تصور کے پیچھے نقل مکانی کا درد دلوں اور آنکھوں میں کسی زقوم کی جھاڑی کی طرح اُگتا ہے۔
اگر آپ تھر اور پارکر کا برطانوی دور کا ریکارڈ دیکھیں تو آپ کو پتہ لگتا ہے کہ اگر 14 اگست تک مقررہ بارش (تھر کو ہر برس تقریباً 335 ملی میٹر سے 380 ملی میٹر بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اتنی بارش ہوجاتی ہے تو سال بھر قحط کی پریشانی نہیں ہوتی) نہ پڑی تو سرکار قحط ڈکلیئر کر دیتی اور اس کے بعد وہ اقدامات اُٹھائے جاتے جو ایسے وقتوں پر اُٹھائے جاتے ہیں۔ میں جب 19 اگست کو ’مٹھی‘ جارہا تھا تو اس پورے سیزن میں 100 ملی میٹر تک بھی بارش نہیں ہوئی تھی بلکہ کچھ علاقوں میں تو 40 سے 65 ملی میٹر تک بادل برسے۔
تھر میں ہوتا یہ ہے کہ پہلی بارش کے بعد زمینوں میں ہل چلوا کر زمین تیار کردیتے ہیں اور دوسری پھوار میں بیج بو دیے جاتے ہیں جن میں سفید اور کالے تل، جوار، مکئی، گوار اور دوسری اجناس شامل ہوتی ہیں۔ پھر اگر ایک ہلکی بارش آجائے تو بیج اُگ آتے ہیں۔ اس کے بعد اگر اچھی بارش نہ پڑے تو پھر ’سوکھا‘ ہے۔ میرے سامنے گزشتہ 20 برسوں میں تھر میں پڑی ہوئی بارشوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ ان 20 برسوں میں فقط 5 ایسے برس ہیں جن میں بارش تھر کے حوالے سے اچھی پڑی ہے۔
جیسے 2003ء میں 262 ملی میٹر، 2006ء میں 474 ملی میٹر، 2009ء میں 298 ملی میٹر، 2011ء میں 1306 ملی میٹر اور 2013 میں 227ء ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔ اور یہ ہی وہ برس تھے جس میں یہ 2 کہاوتیں سچ ہوئیں، پہلی: 'وٹھو تہ تھر نہ تہ بر' (اگر برسا تو تھر نخلستان بن جاتا ہے اگر نہ برسے تو ویرانہ ہے۔)۔ دوسری کہاوت: ’تھر آہے کَن تے یا دھن تے۔‘ (یعنی تھر کا انحصار بارش کی بُوند پر ہے یا بھیڑ ،بکریوں اور گائیوں کے ریوڑ پر)۔
میرے سامنے گزشتہ 5 برسوں کی بارش کا ریکارڈ بھی موجود ہے جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ برس اتنا مشکل کیوں گزرے گا۔ 2014ء میں 190 ملی میٹر، 2015ء میں 178 ملی میٹر، 2016ء میں 134 ملی میٹر، 2017ء میں 215 ملی میٹر اور اس برس یعنی 2018ء میں 100 ملی میٹر بارش پڑی ہے۔ اگر ہم ان 5 برسوں کا ایک تجزیاتی جائزہ لیں تو سیدھی سی تصویر بنتی ہے کہ اگر اس برس 200 سے 300 ملی میٹر تک بادل نہ برسے تو قحط آنا ہی تھا۔ مگر 100 ملی میٹر بارش کسی کھاتے میں نہیں جاتی۔ سوکھے کی ایک بربادی جو ان ریت کے ٹیلوں میں چھپی بیٹھی ہے وہ ایسے حالات میں ظاہر ہوجاتی ہے اور پھر 5 برسوں کی کم برسات کے سبب ’کالا قحط‘ آتا ہے۔
میں جب دودھ سے کھویا بنانے والے چھپرے سے نکل رہا تھا تب مجھے لگا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو چھپر کے جنوب میں ایک جھڑبیری کا درخت تھا جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں ایک اچھی نسل کا کتا اپنے اگلے پاؤں پر اپنا منہ رکھ کر بڑے غور سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے جب اُسے غور سے دیکھا تو اُس نے بڑے پیار اور دھیرے سے آنکھیں بند کی اور کھولیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ وہ اس دشت میں روٹی کے ایک ٹکڑے پر کتنی زندگی جی سکتا ہے اور ایک ماہ کے بعد جب پانی اور خوراک کی کمی ہوگی اور یہ چھپر ویران ہوجائے گا تو یہ کتنے دن جی سکے گا۔ میں نے زیادہ نہیں سوچا اور ہم مٹھی کی طرف چل پڑے۔ جو تھوڑی بہت بارش ہوئی تھی، اس میں نام کی ہریالی تھی جو ٹیلوں پر نظر آتی۔ راستے میں جو بھی کھیت دیکھنے کو ملا اُس میں کچھ بیج ہی اُگ سکے تھے۔ اکوار کے سخت جان پودے تھے جن پر ہریالی بھی تھی اور بینگنی رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔
تھر کے ریت کے ٹیلوں میں یقیناً ایک سحر بستا ہے جس کی جڑیں ہماری روح کی گہرائیوں میں پنپتی ہیں۔ آپ کسی ٹیلے پر چڑھ کر دیکھیں تو حدِ نظر تک ایک انوکھا لینڈ اسکیپ آپ کو پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کوئی بچہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ جا رہا ہوگا۔ کوئی بوڑھا آدمی اپنے کھیت کے نزدیک گھنے درخت کے نیچے ریت پر سویا ہوگا۔ ہوا ہے جو ہر پل ریت پر لہروں کی شکل تراشنے میں لگی رہتی ہے۔
’کتنا خوبصورت ہے‘، میں نے بڑی کوشش کے بعد ایک مقامی نوجوان کے ساتھ ٹیلے پر چڑھ کر پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔
نوجوان نے مجھے ہانپتے ہوئے دیکھا، تھوڑا مسکرایا اور پھر جواب دیا ’’ایک دو ماہ میں یہ جو معمولی سی ہریالی آپ دیکھ رہے ہیں یہ ساری ختم ہوجائے گی۔‘‘ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا لیکن ایسے سخت حالات میں بھی لوگ یہاں رہتے ہیں اور اگلے برس کی بارش کی اُمید پر رہتے ہیں۔
مٹھی سے 30 کلومیٹر پہلے ہمیں 4 مزدا گاڑیوں کی ایک قطار ملی۔ وہ قطار راستے کے کنارے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہونے کی وجہ سے بنی تھی۔ چاروں گاڑیوں پر گھروں کا سامان لدا ہوا تھا۔ اگلی مزدا کی شاید کوئی راڈ وغیرہ ٹوٹ گئی تھی مگر شکر ہوا کہ وہ کسی حادثے سے بچ گئے۔ گاڑی بننے میں 4 سے 5 گھنٹے لگنے تھے اس لیے راستے کے قریب جھڑ بیریوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں مرد، عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ بچے دوڑتے پھرتے کہ ابھی ان کو زمانے کی ہوائیں نہیں لگی تھیں۔
میں نے ایک بزرگ لکھمن کولہی سے پوچھا: ’’آپ بال بچوں سمیت کہاں نکل پڑے ہیں؟‘‘ جواب آیا: ’’سائیں آسمان میں بڑی اُمید تھی کہ برسے گا مگر اس برس برسا تو کیا، گرجا بھی نہیں۔ اب پیٹ کو یہ تو پتہ نہیں کہ برسا یا نہیں برسا، سو دھان کی فصلیں کاٹنے کے لیے سندھ جارہے ہیں‘‘۔ (تھر کے لوگ تھر سے باہر جو زمینی علاقہ ہے، جیسے بدین، سجاول، ٹھٹھہ، اسے سندھ کہہ کر بلاتے ہیں) کیا کریں پیٹ کو روٹی کا ٹکڑا تو چاہیے نا۔
یہ 12 خاندان بدین، گولارچی اور ترائی کی طرف جارہے تھے جہاں وہ دھان کی فصل کے کنارے اپنی لکڑیوں کی جھونپڑیاں بنائیں گے اور وہیں رہیں گے۔ اگر پیلو کا گھنا درخت آس پاس ہے تو اُس کے نیچے اپنا ڈیرا ڈال دیں گے۔ جب 2 سے 3 ماہ تک اس سخت مزدوری کے بعد ان کو دھان کا 13واں حصہ ملے گا (مطلب کہ، دھان صاف ہونے کے بعد 12 من (ایک من 40 کلو گرام کا) زمیندار کا اور 13واں من کٹائی کرنے والے کا) اور اس ملے ہوئے اناج کے سہارے اگلی بارش کا انتظار کریں گے۔
ہم نے جب مٹھی شہر کے جنوب مغرب میں واقع ریت کے مشہور ٹیلے ’گڈی بھٹ‘ سے مٹھی شہر کو دیکھا تو مٹھی شہر تو تھا مگر ایک دن پہلے گولی چلنے کی وجہ سے ہڑتال تھی اور شہر بند تھا۔ میں اُن کھیتوں کو ڈھونڈنے نکل پڑا، جہاں کھیت اُگتے ہیں اور شاندار ہریالی آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ میں جب مٹھی سے 12 کلومیٹر دور مشرق کی طرف ’نینے سر‘ پہنچا تو دھوپ صاف اور تیز تھی، کہ دور دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتیں۔ ہم جب مبین حجام کے چؤنرے (تھر میں گھاس پھوس سے بنے ہوئے مخصوص گھر) والی اوطاق اندر گئے تو ٹھنڈک کا ایک خوشگوار احساس آسودگی دے رہا تھا۔
میں نے مبین سے سوال کیا کہ ’’آپ اس برس کو ’کالا قحط‘ کیوں کہہ کر پکارتے ہیں؟‘‘
"کافی عرصے سے تھر میں اچھی بارشیں نہیں ہوئی ہیں اور آپ تو جانتے ہیں کہ تھر بارش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس نے بھی چھوٹا بڑا قرضہ لے کر بیج وغیرہ لے کر بویا وہ سب برباد ہوگیا۔ اب بارش نہیں ہوگی۔ جو بیج اُگے ہیں وہ سمندر کی تیز مغربی ہوا کی وجہ سے ریت میں دب جائیں گے۔ ساری ترائیاں (بارش میں پانی اسٹور کرنے کے تالاب) سوکھی پڑی ہیں۔ دودھ دینے والے جانور کہاں جائیں گے۔ جو کچھ پیسے والے ہیں وہ مویشیوں کو لے کر سندھ چلے جائیں گے۔ مگر اس بار سندھ میں بھی بارش کم ہوئی ہے اور سندھو دریا کے پانی کی بھی کمی تھی تو وہاں بھی دھان پہلے سے کم کاشت ہوئی ہے۔ تو گھاس تو مہنگی بکے گی نا اور گزشتہ برسوں کی کم بارش کی وجہ سے زیرِ زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے اور پانی کڑوا بھی ہوگیا ہے۔ تو آنے والی بارشوں تک کیسے گزارہ ہوگا؟ 2 سے 3 ماہ میں یہ جو آپ کچھ ہرا دیکھ رہے ہیں وہ سوکھ جائے گا۔ یہاں جو مویشی ہوں گے اُن میں بیماریاں پڑیں گی اور وہ مرتے جائیں گے۔ جب کچھ نہیں بچتا تو ہم اُس کو کالا قحط کہتے ہیں۔"
مبین کے ساتھ جو گاؤں والے بیٹھے تھے اُن سے باتوں باتوں میں یہ اندازہ ہوا، کہ سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا ہے۔ خوراک کم ہونے کی وجہ سے بیماریاں بھی بہت ہوتی ہیں۔
اسی چوئنرے سے میں نے جب ایک این جی او کے سرگرم رکن میر حسن آریسر سے ان حالات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ’’حالات بہت ہی خراب ہیں اور مزید خراب ہونے کی طرف گامزن ہیں۔ اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے علاقے پر جہاں گاؤں دُور دُور ہوں، وہاں تک رسد مشکل ہوجاتی ہے۔ چلیے خوراک کا حکومت اور ہم مل کر کچھ کرلیں، مگر پانی اور مویشیوں کے چارے کا بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔ اب اس وقت ایک بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔‘‘
سمجھ نہیں آتا کہ کون سی منصوبہ بندی کی جائے گی کیونکہ سرکاری ادارے اور لاتعداد این جی اوز برسوں سے اس علاقے میں کام کررہی ہیں۔ وہ اگر ایک مصیبت آنے کے بعد منصوبہ بنائیں گے تو پھر کیسے چلے گا؟
سورج جب اپنی دہکتی آگ کچھ دُور لے گیا تو ہم اس گاؤں میں وہ گھر دیکھنے گئے جن کے خاندان نقل مکانی کرکے دانے پانی کی تلاش میں بدین، جاتی، ماتلی، ٹنڈو محمد خان اور میرپور خاص کی طرف چلے گئے ہیں۔ چوئنرے تھے اور ویران تھے۔ چھوٹے چھوٹے آنگن بھی ایسے ہی تھے جیسے لوگوں کے سوا ہوتے ہیں۔ اُداس اور ویران جھڑبیریاں تھیں جن کے گھنے پتے آنگنوں پر شام کی ٹھنڈی چھاؤں کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب گاؤں میں لوگ شام کی چائے پیتے ہیں، لیکن ان ویران گھروں کے آنگن میں اگلے 3 ماہ تک یا شاید آنے والی بارشوں تک چولہوں سے دھواں نہ اُٹھے۔ اس دھرتی پر دکھوں کی فصلیں یوں تو عام ہیں مگر نقل مکانی ان میں سب سے زیادہ تکلیف دینے والی ہوتی ہے۔
اس سفر پر نکلتے وقت میرے دل کے کسی کونے میں یہ خواہش بڑی شدید تھی کہ اس سفر میں، تھر کے ان ریگزاروں میں، ٹیلوں کے بیچ، کسی گاؤں کے قریب مجھے باجرے کا، تلوں کا یا مکئی کا یا کسی بھی فصل کا ہرا لہلہاتا کھیت نظر آجائے، تاکہ کہ میں لکھ سکوں کہ تھر میں ابھی بھی کھیت لہراتے ہیں۔ بھلے زیادہ نہیں، کچھ یا ایک ہی سہی۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔ روکھی آنکھوں سے گیا اور ان ہی ویران آنکھوں سے لوٹنا پڑا، اور دل کو کہا، وہ تمنائیں ہی کیا جو پوری ہوجائیں۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں